یہ جمہوریت کی برکت ہے کہ احتساب کا باب کھل گیا ہے۔
جہاں جمہوریت ہے وہاں وزیر اعظم استعفیٰ دے رہے ہیں۔ تحقیقاتی کمیشن قائم ہو رہے ہیں۔ لوگ حکمرانوں سے سوال کر رہے ہیں کہ اُن کے پاس سرمایہ کہاں سے آیا۔ جہاں جمہوریت نہیں ہے‘ وہاں کوئی سوال اٹھا کر تو دیکھے۔ کوئی چین میں تحقیقات کا مطالبہ کرے؟ مسئلہ جمہوریت نہیں، کثرت کی خواہش ہے۔ یہ خواہش بھی گوارا ہے اگر قانون اور اخلاق کے دائرے میں رہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ جس سرمایہ کاری کی بات ہو رہی ہے، اس کا اخلاقی اور قانونی جواز کیا ہے؟ یہ سرمایہ کہاں سے آیا۔ اس کا جواب آزاد عدلیہ اور آزاد معاشرے سے آئے گا، میڈیا جس کا ایک حصہ ہے۔ یہ سب جمہوریت ہی کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ اگر جمہوری عمل جاری رہا اور جمہوری روایات کی پاسداری ہوئی تو اسی میں خیر ہے۔
پہلا خیر تو یہ ہوا کہ عمران خان نے اپنی بات کہنے کے لیے قومی اسمبلی کا انتخاب کیا۔ اس سے اسمبلی کی تکریم میں اضافہ ہوا‘ اور عمران خان کی بھی عزت افزائی ہوئی۔ عمران خان کا اسمبلی سے خطاب ان تقریروں سے بہت بہتر تھا‘ جو ہم آئے دن سنتے ہیں۔ انہوں نے ایک مقدمہ پیش کیا، اس کے دلائل دیے اور اپنی بات کہنے کے لیے اسلوب بھی شائستہ رکھا۔ گزشتہ ماہ و سال میں، انہوں نے اپنی شخصیت کو جو نقصان پہنچایا، میرا خیال ہے کہ ان کی یہ تقریر، کسی حد تک، اس کی تلافی کا باعث بنے گی‘ اگرچہ اسمبلی سے باہر آتے ہی، ان کا لب و لہجہ وہی تھا، وہ جس کے لیے مشہور ہیں۔ اگر وہ اسمبلی میں آتے رہے تو مجھے امید ہے کہ وہ سنجیدہ حلقوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کریں گے۔
عمران خان نے جو چار سوال اٹھائے، ان کی معقولیت بھی واضح ہے۔ یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ حسین نواز صاحب نے جن آف شور کمپنیوں کی ملکیت کا اعتراف کیا ہے، ان کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا؟ اگر یہ پاکستان سے گیا تو کیا یہ منتقلی ملک کے قانون کے مطابق تھی؟ اگر سعودی عرب سے کمایا گیا تو اس کا ثبوت کیا ہے؟ یہ اعتراض البتہ بے معنی ہے کہ سرمایے میں تیزی کے ساتھ بڑھوتری کیسے ہوئی۔ جو لوگ کاروبار کا سلیقہ رکھتے ہیں، وہ مٹی کو سونا بنا سکتے ہیں۔ اس کا تعلق بددیانتی سے زیادہ صلاحیت سے ہے۔ اگر سعودی بینکوں کے قرض سے جدہ میں سرمایہ کاری اور پھر وہاں سے آف شور کمپنیوں تک، سرمایے کا سفر اپنے تمام سنگ ہائے میل کے ساتھ، سامنے آ جاتا ہے تو پھر اعتراضات کا دروازہ بند ہو جانا چاہیے۔
حکومت کا جوابی حملہ بدقسمتی سے کوئی اخلاقی اساس نہیں رکھتا۔ شوکت خانم ہسپتال کا معاملہ الگ ہے۔ اگر عمران خان صرف آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کا سوال اٹھاتے تو پھر جوابی سوال کیا جا سکتا تھا کہ آپ نے اس راستے کا انتخاب کیوں کیا۔ اب سوال یہ نہیں ہے کہ ان کمپنیوں میں سرمایہ کاری جائز ہے یا ناجائز، سوال یہ ہے کہ یہ سرمایہ کہاں سے آیا؟ قانوناً یہ کمپنیاں سوال نہیں اٹھاتیں لیکن پاکستان کے عوام تو اٹھا سکتے ہیں۔ اپوزیشن کا اصل کام یہی ہے کہ وہ عوام کے جذبات کو زبان دے۔ اس کے لیے عمران خان کے حق کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اٹھنے والے سوالات کا جواب دے۔ جوابی الزامات سے اس کی یہ ذمہ داری پوری نہیں ہوتی۔
عمران خان نے ان الزامات کی تحقیق کے لیے جو راستہ تجویز کیا ہے، اس پر البتہ ایک سے زیادہ آرا ہو سکتی ہیں۔ اگر یہ کمیشن کسی ایسی شخصیت کی سربراہی میں قائم ہوتا ہے‘ جس کی دیانت پر عمومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے‘ تو اسے کسی خاص منصب سے متعلق کرنا درست نہیں۔ جج ریٹائرڈ ہو یا اس منصب پر فائز ہو، اس سے اہم تر، اس کی شہرت ہے۔ جب کمیشن بن جائے گا تو اس کی قانونی حیثیت مسلمہ ہو
گی۔ اس لیے اگر حکومت ایک اچھے آدمی کا انتخاب کرتی ہے اورکمیشن کے لیے قابلِ اطمینان حدودِ کار طے کرتی ہے تو اسے قبول کر لینا چاہیے۔ عمران خان نے اگر اسمبلی کا رخ کر لیا‘ تو اب آئینی اور جمہوری راستے ہی پر آگے بڑھیں۔ معقولیت بھی جمہوریت ہی کی ایک خاصیت ہے۔
پیپلز پارٹی کا موقف حسبِ معمول تضادات کا مجموعہ ہے۔ یہ وہی رویہ ہے جو مشرف صاحب کے بارے میں اختیار کیا گیا۔ اپنے دورِ اقتدار میں اسے ہاتھ نہیں لگایا۔ اب ملک سے باہر گیا تو اسے مفرور قرار دے دیا۔ اسی طرح پانامہ لیکس میں صرف شریف خاندان ہی نہیں، رحمٰن ملک اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام بھی شامل ہیں۔ انہیں الزامات لگانے کے بجائے، اپنی صفائی پیش کرنا چاہیے۔ اس بحث سے یہ بات تو بڑی حد تک واضح ہوئی کہ اس وقت ملک میں اصل اپوزیشن پیپلز پارٹی نہیں، تحریکِ انصاف ہے۔ اعتزاز احسن صاحب کی طلاقتِ لسانی اب پارٹی کے کام نہیں آ سکتی۔ یہ منصب اگر بابر اعوان جیسی کسی شخصیت کے پاس ہوتا تو پیپلز پارٹی کا مقدمہ بہتر انداز میں سامنے آتا۔ میں نے انہیں ایک ٹیلی وژن پروگرام میں یہ کہتے سنا ہے کہ جس جس کا نام ان لیکس میں موجود ہے، ان کے خلاف تحقیقات ہونی چاہئیں۔
اس بحث میں ایک اور سوال بھی اہم ہے۔ کیا شریف خاندان کی اگلی نسل کو ملک سے باہر کاروبار نہیں کرنا چاہیے؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کاروبار ہی نہیں کرنا چاہیے۔ میرا خیال ہے یہ مقدمہ غیر اخلاقی ہے۔ جو اقتدار میں ہے، اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ کاروبار سے دور رہے لیکن خاندان پر یہ پابندی کیسے عائد کی جا سکتی ہے؟ اس معاملے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ خاندان اگر ملک کے اندر کاروبار کرتا ہے تو بھی الزامات کی زد میں رہتا ہے کہ حکومتی اثر استعمال ہو رہا ہے۔ کیا اس فضا میں یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ ملک سے باہر کاروبار کرے؟ جو لوگ سیاست میں ہوتے ہیں، وہ کبھی اپوزیشن میں بھی ہوتے ہیں۔ اس ملک کی سیاست بحیثیت مجموعی اخلاقیات کے تابع نہیں ہے۔ ایسے لوگوںکو پھر حکومتی عتاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ جیسے مشرف دور میں شریف خاندان کو کرنا پڑا۔ یہ امرِ واقعہ ہے کہ ان کے گھر تک چھین لیے گئے۔ جب یہ سب کچھ متوقع ہو تو کیا سیاسی لوگوں کے پاس یہ متبادل نہیں ہونا چاہیے کہ وہ بُرے دنوں میں معاشی مسائل سے دوچار نہ ہوں؟ یہ حق صرف شریف خاندان ہی نہیں، سب اہلِ سیاست کو ملنا چاہیے۔
آج جمہوری عمل نے احتساب کا راستہ کھول دیا ہے۔ ضرورت ہے کہ اہلِ سیاست اس کا احترام کریں۔ دھرنے اور احتجاج کی سیاست سے صرف حکومت کو نہیں، ملک اور عوام کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ جب میڈیا آزاد ہے بلکہ ضرورت سے زیادہ آزاد ہے تو پھر ہر کوئی عوام تک اپنی بات پہنچا رہا ہے۔ یہاں بغیر تحقیق لوگوں کو چور کہا اور لکھا جا رہا ہے۔ اس ماحول میں احتجاج کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ احتجاج کے لیے صرف یہ دلیل کافی نہیں کہ ہمارا موقف نہیں مانا گیا۔ اگر اسے بطور اصول مان لیا جا ئے تو پھر ملک کا نظام نہیں چل سکتا۔ جمہوریت اس کے آداب طے کرتی ہے کہ فصلِ نزاع کیسے ہو۔ اسی کو مان لینے میں سب کا بھلا ہے۔ جلسے جلوس معاشرتی اضطراب میں اضافہ کریں گے۔ اس سے گریز ہی میں سب کا بھلا ہے۔
یہ معاملہ اب آگے بڑھے گا۔ کمیشن کے قیام سے، بہت سی باتیں سامنے آئیں گی۔ اس سے عوام کو رائے بنانے میں مدد ملے گی۔ اس رائے کے اظہار کو 2018ء کے انتخابات تک اٹھا رکھنا چاہیے۔ تحریکِ انصاف سمیت کوئی جماعت انتخابات کے لیے تیار نہیں۔ سماج کو مزید اضطراب میں مبتلا کیے بغیر سب کو آئندہ انتخابات کی تیاری کرنا چاہیے۔ عمران خان کا اسمبلی میں آنا جمہوریت کے لیے نیک شگون ہے۔ اگر وہ یہاں آئیں گے تو ان کی ساکھ بہتر ہو گی۔ انہیں آج سب سے زیادہ اسی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔