نظریاتی اعتبار سے ہم مذہبی لوگ ہیں۔ ہمیں سیکولرزم کے نام سے نفرت ہے۔ لیکن مجھے خیال ہوتا ہے کہ نادانستگی میں ہم اخلاقیات کے غیر مذہبی تصور پرایمان رکھتے ہیں۔ ہم اخلاقیات کے موضوعی تصور کے قائل ہیں۔ ہم سب کے نزدیک کرپشن کی ایک خاص صورت قابل ِمذمت ہوتی ہے۔ دیگر صورتیں، نہ صرف گوارا ہوتی ہیں بلکہ ہم ان کے وکیل بن جاتے ہیں۔ سماجی رویوں میں دیکھیے تو یہی ہوتا ہے۔ جو آدمی نماز نہیں پڑھتا، روزہ نہیں رکھتا وہ ہمیں بتاتا ہے کہ اصل دین تو معاملات ہیں۔ ہمیں مالی امور میں کرپٹ نہیں ہونا چاہیے۔ جو نماز پڑھتا ہے اور معاملات میں لاپروا ہے، وہ نماز جیسی عبادت ہی کومکمل دین قرار دیتا ہے۔
اب یہی کچھ سیاست میں بھی ہونے لگا ہے۔ اخلاقیات ، اب سیاست میں ایک موضوعی معاملہ ہے۔ سادہ لفظوں میں اخلاقیات کے غیر مذہبی تصور کو قبول کر لیا گیا ہے۔ مذہبی اخلاقیات میں جنہیںخود عالم کے پروردگار نے اپنی حدود قرار دیا ہے، ان کی خلاف ورزی کی شہرت پر ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ قیادت کے معاملے میں حدود کی پامالی کوئی عیب نہیں شمار نہیں ہوتی۔ ہم مذہب کے وکیل ہیں لیکن اس باب میں ہماری مذہب پسندی نہیں معلوم کیوں ہماری نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ مالی کرپشن اور بدعنوانی بھی یقیناً ایک بڑا اخلاقی عیب ہے جسے قیادت میں گوارا نہیں کیا جا سکتا۔کچھ لوگ اسے بھی خرابی نہیں سمجھتے۔ وہ دوسرے اخلاقی عیوب کو نمایاں کرتے ہیں اور اس نوعیت کی اخلاقی کمزوری پر پردہ ڈالتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہم جیسے لوگ، جو مذہبی اخلاقیات کے حامل ہیں، انہیں اس باب میں، کم از کم نظری سطح پر تو واضح رہنا چاہیے۔
سیاست کاایک عارضہ،البتہ خلقی ہے۔ یہ زمینی حقائق پر اپنی عمارت استوار کرتی ہے۔ سیاست کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ زمین پتھریلی ہے یا ریتلی۔ سیاست میں اخلاقیات پر ہمیشہ مفاہمت ہوتی آئی ہے اور انسانی تاریخ میں شاید ہی کوئی دور ایسا گزرا ہو جب ریاست و حکومت سو فیصد اخلاقیات پر مبنی رہے ہوں۔ تاہم جہاں سماج کا اخلاقی نظام مضبوط ہوتا ہے وہاں ایک تدریج اور ارتقاء کے اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے، اخلاق کے باب میں بھی ترقی کے مراحل طے کیے جاتے ہیں۔
اس باب میں عہد رسالت سے بہترکوئی مثال نہیں ہو سکتی۔ اسلام عرب کے جس سماج اور ریاست کو تبدیل کرنے آیا تھا، اس میں معیشت کی عمارت سود اور غلامی کی بنیادوں پر کھڑی تھی۔ اسلام نے انہیں گوارا کیا۔ اس لیے کہ اگر ان کے فوری خاتمے کا اعلان ہوتا تو معیشت کی وہ عمارت قائم نہیں رہ سکتی تھی۔ اس سے جو معاشی اور اخلاقی بحران پیدا ہوتا، اس کی سنگینی سود اور غلامی سے پیدا ہونے والی خرابی کی نسبت کہیں زیادہ ہوتی۔ معاشرہ عدم استحکام سے دوچار ہو جاتا۔ مثال کے طور پر لونڈیوں کو آزاد کر دیا جاتا تو ان کے پاس روزگار کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہ ہوتا کہ وہ قحبہ خانے آباد کر تیں۔ یوں اسلام نے اسے گوارا کیا اور تدریجاً اس کا خاتمہ کیا۔ اس کی جڑیں اتنی گہری تھیں کہ خلافت راشدہ کے بعد بھی لونڈیوں کا ادارہ قائم رہا۔ خلفا کے حرم عباسی عہد تک کنیزوں سے آباد رہے۔ عباسی دور کے فقہی لٹریچر کو پڑھیے تولونڈیوں کے ساتھ تعلقات، فقہ کا ایک معرکہ آرا مو ضوع ہے۔ آج اس کا تصور محال ہے۔ معاشرہ اسی طرح آگے بڑھتا ہے۔ اخلاقی اصلاح کے لیے ترجیحات کا تعین ضروری ہوتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے جسے اخلاقیات اورسیاست کے باہمی تعلق میں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں چونکہ اہلِ سیاست کسی ذہنی مشقت کو ضروری نہیں سمجھتے، اس لیے کسی سیاسی جماعت کے پاس اصلاح کی کوئی حکمتِ عملی ہے نہ نظامِ فکر۔ ان کی سیاست عوامی جذبات کے تابع ہے یا ان کی خواہشِ اقتدار کے۔ ان کی نظر دوسروں کی کمزوریوں پر ہے۔ ان کے خیال میں جو کمزوری مخالفین سے منسوب ہے، اسے وہ قوم کا سب سے بڑا مسئلہ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کے دامن کی طرف نظر نہ اٹھے۔ یہاں اخلاقیات کا موضوعی تصور ان کے کام آتا ہے۔ آج کسی کا خیال ہے کہ نظام ِ مصطفیٰ کانعرہ اسے سیاسی زندگی دے سکتا ہے، وہ اسے بلند کر نے لگتا ہے۔ کسی کے خیال میں دینی مدارس کی سلامتی سے اس کا سیاسی مفاد وابستہ ہے تو اسے سب سے بڑا مسئلہ بنا کر پیش کرتا ہے۔ کسی کی نزدیک کرپشن کے معاملے میں عوامی جذبات مشتعل کرنے سے اس پر ایوانِ اقتدار کے دروازے کھل سکتے ہیں تو وہ اس کا علم اٹھا لیتا ہے۔ کچھ ذہنی پسماندگی کی اس سطح پر ہیں کہ انہیں کچھ سمجھ نہیں آتی کہ ان کا مفاد کس میں ہے، وہ کبھی دینی مدارس کا مسئلہ اٹھالیتے ہیں،کبھی قانونِ حقوقِ نسواں کا،کبھی ممتاز قادری کا اور کبھی کرپشن کا۔
یہ فرد ہو یا قوم، اصلاح کے لیے ترجیحات کاتعین لازم ہے۔ قوم کو مسلسل ہیجان میں مبتلا رکھنے سے اصلاح نہیں ہو سکتی۔ اس سے غور و فکر کی انسانی صلاحیت پوری طرح بروئے کار نہیں آتی۔ جب مزاج ہیجانی بن جا تا ہے تو کوئی نظامِ مصطفیٰ کے نام پر اور کوئی کرپشن کے عنوان سے سماج کا امن درہم برہم کر دیتا ہے۔ رومان کی نظری سطح پر ضرورت ہوتی ہے لیکن حکمت ِ عملی ہمیشہ حالات کے تابع ہو تی ہے۔ امن کی فضا دراصل سماج کو ذہنی طور پر متوازن بناتی ہے۔ اس کے بعد ہی وہ یہ سوچ سکتا ہے کہ اسے کہاں سے آغاز کر نا ہے۔ اس کی ترجیح کیا ہونی چاہیے۔ ایک پر امن معاشرے ہی میں اجتماعی دانش کاظہورممکن ہے۔ ہیجان کی فضا میں بالعموم ایسی آوازوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دس بیس سال بعد قوم کو پھر اسی حل کی طرف لوٹنا پڑتا ہے۔ جب سرسید نے مسلم قوم کو ہیجان سے نکالنے کی کوشش کی جو جنگِ آزادی کے نام پر پیدا کر دیا گیا تھا تو وہ انگریزوں کے ایجنٹ قرار پائے۔ یہ الگ بات کہ بعد میں آزادی کے لیے فکرِ سرسید ہی کا دامن پکڑنا پڑا۔
ہمیں بطور قوم اس وقت ایک فیصلہ کرنا ہے۔ امن، استحکام،جمہوری عمل کا تسلسل اور2018 ء کے انتخابات یا ہیجان، اضطراب، گھیراؤ اور تصادم؟میرے لیے تو بہت مشکل ہے کہ میں بقائمی ہوش وحواس دوسرے راستے کا انتخاب کر سکوں۔ امن اور معاشی استحکام اگر کسی معاشرے کی پہلی ضرورت نہ ہوتے توسیدنا ابراہیمؑ مکہ کے لیے یہ دعا نہ مانگتے کہ ''اے رب، اس سرزمین کو ِامن کی سرزمینِ بنا اور اس کے باشندوں کو، جو ان میں سے اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان لائیں، پھلوں کی روزی عطا فرما‘‘ (البقرہ 2:126)۔ یہ بات لوگوں کی سمجھ تو آ سکتی ہے لیکن اس کے لیے ہیجانی کیفیت سے نکلنا ضروری ہے۔