سیاست اور صحافت میں ایک شریف آدمی کا انجام وہی ہوتا ہے جو عاشقی میں میر صاحب کا ہوا‘ ع
اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی
مجھے یہ مقدمہ قبول کرنے میں تردد ہے کہ کالم نگار عوامی رائے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ لوگوں کے اپنے اپنے ذہنی سانچے ہیں۔ ایک رائے اگر کسی کی سوچ سے مطابقت رکھتی ہے تو وہ اس کے لیے دل و دماغ کے دروازے کھول دیتا ہے۔ جو آواز اسے اجنبی لگتی ہے، اس کے لیے شکوک جنم لیتے ہیں اور پھر عام طور پر یہ سوچ اس یقین پر منتج ہوتی ہے کہ یہ آواز کسی مفاد سے آلودہ ہے۔ یوں ہر لکھنے والے کا ایک حلقہ وجود میں آتا ہے۔ یہ سیاست ہو یا مذہب، صحافت ہو کہ رائے سازی، عام طور پر موجود عصبیتوں میں سے اگر آپ کسی کی تائید کرتے ہیں تو وہ آپ کو بطلِ حریت مان لیتا ہے، دوسرے کے خیال میں آپ جنسِ بازار ہیں۔ خرید و فروخت کا عمل اب صرف حکومت نہیں کرتی، سرمایہ دارانہ جمہوری نظام میں سرمایہ دار طبقہ سرمایہ کاری کرتا ہے‘ اور یہ ہر جماعت میں موجود ہوتا ہے۔ پڑھنے والا ہر مخالف رائے کے بارے میں یہی گمان کرتا ہے کہ وہ سرمایے سے مستعار ہے۔ اس فضا میں عزت سادات کہاں باقی رہ سکتی ہے؟
کالم نگار کی مجبوری ہے کہ وہ اقتدار کی سیاست سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔ یہ سیاست عارضی ہوتی ہے اور اس کے حوالے سے لکھا گیا لفظ بھی کم عمری ہی میں مر جاتا ہے۔ یہ علم و دانش ہیں‘ جو باقی رہتے ہیں۔ اس کے لیے موضوعات تبدیل کرنا پڑتے ہیں۔ تعمیر معاشرے کی ہو یا ریاست کی، ایک عارضی کام نہیں، یہ طویل منصوبہ بندی کا متقاضی اور برسوں پر محیط ہوتا ہے۔ ابن خلدون، ٹوئن بی اور پال کینیڈی کی طرح اگر قوموں کے عروج و زوال کو موضوع بنایا جائے تو پھر کتاب لکھنی چاہیے، کالم نہیں۔ اب لکھنے والے کا معاملہ یہ ہے کہ اس کا روزگار علم سے نہیں، صحافت سے وابستہ ہے۔ صحافت حالات حاضرہ کی مچھلی ہے جو اسی پانی میں زندہ رہ سکتی ہے۔ یوں علم و دانش کے پسندیدہ موضوع پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔
یہ وہ قید ہے جو مجھے مجبور کرتی ہے کہ میں اقتدار کی سیاست اور حالات حاضرہ کو موضوع بناؤں۔ اب ظاہر ہے کہ اس میں کبھی کسی کی حمایت ہو گی اور کبھی کسی کی مخالفت۔ یوں لکھنے والا موجود سماجی تقسیم کا شکار بن کر کسی کا ممدوح بن جائے گا اور کسی کے لیے مذموم۔ اس سے بچنے کی صرف دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ معاشرے میں حسن ظن ایک قدر کے طور پر مستحکم ہو، دوسرا یہ کہ لوگ عقلی و منطقی اندازِ نظر رکھتے ہوں۔ ہمارا معاشرہ ان دونوں سے خالی ہے۔ اس کے لیے اب بہت کم لوگ ہیں‘ جو ان پیمانوں پر کسی کالم کو پرکھتے اور لکھنے والے کے بارے میں رائے قائم کرتے ہوں۔ میں لوگوں کی رائے کو اسی نظر سے دیکھتا ہوں، اس لیے گالی دینے والے کو بھی معذور سمجھتا ہوں کہ بالعموم لوگ سوچ کے معاشرتی سانچے سے بلند نہیں ہو سکتے۔
ایک طبقہ بہرحال مستثنیٰ بھی ہے۔ یہ ایک اقلیتی گروہ ہے جو ایک رائے کو دلیل کی بنیاد پر پرکھتا اور رد کرتا ہے۔ میرے نزدیک یہ زمین کا نمک ہے۔ اس طبقے کا موجود ہونا سماج کے زندہ ہونے کی دلیل ہے۔ میں ایسے لوگوں کی رائے کو ہمیشہ قدر کی نظر سے دیکھتا ہوں۔ عمران خان گزشتہ ایک ڈیڑھ سال میں، زیادہ تر میرے کالموں کا موضوع رہے ہیں۔ اسی طبقے کے کچھ پڑھنے والوں نے یہ خیال کیا کہ میرے کالموں میں انصاف کے تقاضے نظر انداز ہوئے۔ یہ کوئی نفسیاتی گرہ ہے جو متوازن بات کہنے میں مانع ہے۔ میں اس رائے پر غور کر تا رہا۔ اپنا جائزہ لینے کی کوشش کی۔ میرا احساس ہے کہ میرے اس رویے کا ایک جواز تھا۔
میں تبدیلی کے لیے انقلاب کا قائل نہیں، میرے نزدیک یہ گمراہ کن تصور ہے۔ انسانی تہذیب کی پوری تاریخ اس پر گواہ ہے کہ انسان مشاہدے اور تجربے سے سیکھتا ہے اور تدریجاً بہتری کی طرف بڑھتا ہے۔ جمہوریت برسوں کے انسانی تجربے کا حاصل ہے جس میں انسانی فطرت کے تمام مطالبات کو سمو دیا گیا ہے۔ پاکستان میں بطور سماج اور ریاست، تبدیلی کے لیے لازم ہے کہ انسانی تہذیب کے اس تجربے سے خود کو ہم آہنگ کیا جائے۔ ساٹھ ستر سال بعد ہمارے ہاں یہ شعور پختہ ہونا شروع ہوا ہے۔ جمہوریت کے سب نتائج ہمارے سامنے نہیں آئے لیکن یہ نتیجہ بھی کچھ کم اہم نہیں کہ اب اقتدار کی منتقلی عوام کے ہاتھ میں آ گئی ہے۔ اس میں یقیناً خرابیاں ہیں لیکن اس ملک میں وہ نظام موجود ہے جو نظامِ انتخاب کو بہتر بنا سکتا۔ تدریج کا اصول متقاضی ہے کہ اس کو قبول کرتے ہوئے آگے بڑھا جائے۔
عمران خان نے اپنے طرزِ سیاست سے اس اصول کی نفی کی ہے۔ انہوں نے ریاستی اداروں پر اعتماد کو ختم کرنے کوشش کی ہے۔ انہوں نے منطقی سوچ کے بجائے جذبات کو راہنما مانا ہے۔ انہوں نے ہیجان کو فروغ دیا‘ جس کا ناگزیر نتیجہ سماج کے نظام ِ اقدار کی بر بادی ہے۔ اگر اس سوچ کو قبول کر لیا گیا تو خطرہ ہے کہ یہ ہمیں اس خیر سے بھی محروم کر دے گی‘ جو ہمیں آج میسر ہے۔ دھرنا اب ماضی کا قصہ ہے جس کا تجزیہ آسان ہے۔ میں اس وقت چیختا رہا کہ اس کے صرف دو نتائج ممکن ہیں۔۔۔ عمران کی پسپائی یا مارشل لا کی آمد۔ آج کوئی بتائے کہ کیا اس کے علاوہ بھی اس مہم جوئی کا کو ئی نتیجہ نکل سکتا تھا؟ اگر تحریک انصاف نظام کو قبول کرتے ہوئے بہتری کے عمل کو آگے بڑھاتی تو عمران خان کی صورت میں ایک ایسی قیادت ابھر رہی تھی جو مستقبل میں قومی امیدوں کا مرکز ہوتی۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ موقع ہمیشہ کے لیے گنوا دیا گیا۔ یہ اس سیاست کی ناکامی ہے کہ آج قوم کے سامنے محمد نواز شریف کے علاوہ کوئی انتخاب نہیں۔
یہ ہے وہ بنیادی وجہ جو اس کا محرک بنی کہ اس سیاسی سوچ کو رد کیا جائے جو پاکستان کے لیے شدید نقصان دہ ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کو ہمیشہ اقتدار میں نہیں رہنا۔ آج بھی اگر عمران خان اس بات کو قبول کرتے ہوئے حکمتِ عملی ترتیب دیں تو وہ اس قوم کے لیے باعثِ خیر ہو سکتے ہیں۔ اس وقت بھی اگر وہ ہیجان سے نکل کر تین کام کریں تو 2018ء میں قوم کو نئی قیادت مل سکتی ہے۔ ایک یہ کہ وہ ہیجان اور رومان کی بنیاد پر جمع ہونے والے ہجوم کو ایک سنجیدہ پارٹی میں بدل دیں۔ یہ داخلی احتساب اور تربیت سے ہو گا۔ دوسرا یہ کہ وہ قوم کو بتائیں کہ ان کے پاس تعمیرِ پاکستان کا وژن کیا ہے؟ کرپشن کی مخالفت ہر ذی شعور جانتا ہے کہ کوئی وژن نہیں ہے۔ ایک سرمایہ دارانہ جمہوری نظام میں یہ بنیادی مسئلہ بھی نہیں ہے۔ اس کو مخاطب بنانے کا ایک طریقہ ہے اور وہ بیان کیا جا سکتا ہے۔ تیسرا یہ کہ وہ اگلے دو سالوں میں خیبر پختونخوا میں اس وژن کو عملی شکل دینے پر صرف کریں۔ وہاں صحت کے مسائل پر جو رپورٹ آئی ہے، وہ چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ سماجی ترقی کے جس مبہم ماڈل کا وہ ذکر کرتے ہیں کیسے وژن سے خالی ہے۔
اگر وہ یہ تین کام کر سکیں تو 2018ء میں وہ آئینی طریقے سے برسرِ اقتدار آ سکتے ہیں۔ تحریکِ انصاف والوں کے لیے مگر بری خبر یہ ہے کہ ایسا نہیں ہو پائے گا۔ ہیجان اور رومان کے سفر میں عام طور پر واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔