انتہا پسندی کیسے پھیلتی، انڈے بچے دیتی اور معاشروں کو بر باد کر تی ہے، کوئی اِسے سمجھنا چاہے تو بنگلہ دیش کی تاریخ پر ایک نظر ڈال لے۔
یہ نفرت کی سیاست ہے جس نے اس ملک کی بنیاد رکھی۔نفرت شیخ مجیب الرحمن کی سیاست کا بنیادی پتھر تھا جنہوں نے ملک کی فوج اور ایک طبقے کے خلاف عوامی جذبات کو بھڑکایا۔بنگلہ دیش بن گیا اور پھر ایک دن آیا کہ یہی نفرت مجیب الرحمن کو بھی لے ڈوبی۔ان کا بے جان وجود نشانِ عبرت بن گیا۔بعد میں آنے والی قیادت کو احساس ہوا کہ نفرت بالآخر بر باد کر تی ہے۔اس نے ایک نئی فضا کو جنم دیا۔سب سیاسی قوتوں نے ایک دوسرے کو قبول کیا اوربنگلہ دیش مستحکم ہو نے لگا۔اس کی جمہوریت اور معاشی ترقی نے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ پاکستان کے صنعت کار منافع کی تلاش میں بنگلہ دیش کا رخ کر نے لگے کہ ان کے خیال میں سرمایہ کاری کے لیے یہ ملک پاکستان سے بہتر تھا۔
اِن اچھے دنوں کی عمر بہت کم ثابت ہوئی۔ حسینہ واجد نے ایک بار نفرت اور انتقام کی تلوار اٹھا لی۔ 1970ء کے واقعات کو بنیاد بنا کر جماعت اسلامی کو ہدف قرار دیا اور پھر انسانی لہو سے اس نفرت کو سیراب کیا۔ چنددن پہلے ہی سپریم کورٹ نے سزائے موت کے خلاف، جماعت کے رہنما مطیع الرحمن نظامی کی اپیل مسترد کر دی ہے۔ عدلیہ بھی نفرت کے اس کلچر کوفروغ دینے میں پوری طرح شریک ہے۔ بظاہر عوام کی ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت نے نفرت کو ملک کے رگ و پے میں اتاردیا۔ نفرت انتہا پسندی کی بد ترین صورت ہے جو انسانی آنکھوں کو بینائی ہی سے نہیں، اس کے دماغ کو سوچنے سے بھی محروم کر دیتی ہے۔ یہ نفرت ایک بار پھر بنگلہ دیش کا سیاسی و سماجی کلچر بنتی جا رہی ہے۔ اس نے سیاست سے جنم لیا اور اب مذہب سمیت ہر شعبے پر اس کی گرفت مضبوط ہو تی جا رہی ہے۔
اِن دنوں ایک یونیورسٹی پروفیسر انتہا پسندی کا ہدف ہیں جنہوں نے کمرہ جماعت میں اپنی ایک طالبہ سے نقاب اتارنے کے لیے کہا تاکہ اس کی شناخت ہو سکے۔ ایک طالب علم نے اس کی وڈیو بنائی اور اسے سوشل میڈیا میں جھونک دیا جو شعلے بھڑکانے کا سب سے آسان اور تیز ترین ذریعہ ہے۔ ایک گروپ نے اس پروفیسر کے قتل کی تحریک اٹھا دی۔ اب وہ مسلسل پولیس کی نگرانی میں ہے۔2015 ء کے بعد سے پندرہ غیر مذہبی خیالات رکھنے والے انتہا پسندوں کے ہاتھوں مارے جا چکے۔ یہ پروفیسر صاحب پاکستان کے مخالف اور حسینہ واجد کے ہم خیال ہیں۔گویا تشدد اس حلقے تک پہنچ گیا جہاں اس نے جنم لیا تھا۔
بنگلہ دیش کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں۔ یہی پینتالیس سال کا قصہ ہے۔ یہ ملک ہماری نظروں کے سامنے وجود میں آیا اور یہ سب واقعات ہمارے آنکھوں دیکھے ہیں۔ یہ تاریخ ہمیں بتا رہی ہے کہ جب کسی ایک شعبے میں نفرت کے بیج بوئے جاتے ہیں اور ایک خاص طبقے، خاندان یا فرد کے ساتھ نفرت ذہنوں میں بھر دی جاتی ہے تو وہ انسانی نفسیات کا مستقل حصہ بن جاتی ہے۔ پھر یہ ایک شعبے تک محدود نہیں رہتی۔ اس کا ظہور زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی ہوتا ہے۔ ایسی نفسیات کا حامل جس شعبے میں جائے گا، انتہا پسند ہی ہوگا۔ یوں سیاسی انتہا پسندی مذہبی انتہا پسندی سے جڑی ہوئی ہے اورمذہبی انتہا پسندی سماجی انتہا پسندی کو جنم دے رہی ہے۔
ہم چاہیں تو پاکستان کی مثال کو بھی سامنے رکھ سکتے ہیں۔کل کراچی میں ایک سماجی کارکن کو قتل کر دیا گیا جس کا تعلق اہلِ تشیع کی ایک جماعت سے بھی تھا۔ اب یہ انکشاف بھی ہوا کہ چند سال پہلے سماجی کارکن پروین کو قتل کرنے والا ایک سیاسی جماعت کا رکن تھا اور اس کے ساتھ تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ بھی وابستہ تھا۔ انتہا پسندی اصلاً ایک ذہنی عمل ہے۔ اس کے بعد اس کے عملی مظاہر وجود میں آتے ہیں جونفرت انگیز تقاریر سے شروع ہوکر، دہشت گردی تک پھیلے ہوئے ہیں۔ نفرت انگیز تقریر کر نے والا نہیں جانتا کہ وہ کس طرح کی نفسیات کو جنم دے رہا ہے۔ اس کی تقریر سے متاثر ہو کر جب کوئی اقدام کرتا ہے تو پھر ذمہ داری اٹھانے سے انکار کر دیتا ہے۔ حتیٰ کہ عدالت میں حلفیہ بیان داخل کرا تا ہے کہ 'ملزم‘ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
انقلاب ایک انتہا پسندانہ سوچ کا نتیجہ ہوتا ہے جو ایک طبقے کے خلاف نفرت کو ابھارتی ہے۔ انقلاب اسی وقت 'کامیاب‘ ہو تا ہے جب یہ نفرت ہر اخلاقی حد کو پار کر دے۔ جنہوں نے اشتراکی انقلاب کا نعرہ لگایا، انہوں نے ایک منظم مہم کے ساتھ اہلِ سرمایہ کے خلاف نفرت کو عروج تک پہنچا نے کی کوشش کی۔ اسلامی انقلاب والوں نے طاغوت کو نفرت کا ہدف بنایا اور پھرمسلمانوں کے حکمران طبقے کو طاغوت ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اشتراکی انقلاب اور اسلامی انقلاب کے تصورات نے ایک طرح سے معاشروں کو بر باد کیا۔ انسانوں کا خون بہایا اور اللہ کی زمین کو فساد سے بھر دیا۔
انسانی تاریخ میں تبدیلی کے دو ماڈلز رہے ہیں۔ ایک انقلابی اور ایک الہامی۔ الہامی ماڈل محبت اور خیر خواہی کی نفسیات سے جنم لیتا ہے۔ پیغمبر انسانوں کو دنیا کے سب سے بڑے خسارے، اخروی ناکامی سے بچانے کے لیے تشریف لاتے ہیں۔ یہ اصلاً اصلاحی ماڈل ہے۔ یہ نفرت پر مبنی نہیں ہو تا۔ اگر اسے دنیاوی بہتری کے لیے مستعار لیا جائے تو یہ عوامی شعور کو بیدار کرتا اور پھر اسے موقع دیتا ہے کہ وہ اجتماعی بصیرت کو کام میں لاتے ہوئے اپنے دنیاوی مسائل کو حل کرے۔ اس میں صبر اور حکمت بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ امرِ واقعہ ہے کہ انسان نے جب الہامی ہدایت سے بے نیاز ہو کر سوچا تو بھی ان معاملات میں، اپنے تجربے سے وہیں پہنچا ہے جہاں مذہب پہلے ہی راہنمائی دے چکا ہے۔ یہ جمہوری طرزِ حکمرانی ہے۔ یہ معمولی واقعہ نہیں ہے کہ جمہوریت، جس نے سرمایہ داری سے جنم لیا اور جس کا بنیادی کام سرمایہ کاری کا تحفظ تھا نے اس سرمایہ دارانہ نظام کے ایک ستون زک گولڈ سمتھ کو ایک عام آدمی کے ہاتھوں گرادیا۔
ہمارے ہاں پہلی غلطی ایسے طبقے سے ہوئی جس نے انقلاب کا تصور دیتے ہوئے سیاست کو نفرت پر استوار کیا۔ دوسری غلطی ریاست سے ہوئی جس نے نفرت کے اس بیانیے کو قومی سلامتی کی بنیاد بنا دیا۔ تیسری غلطی اب سیاست دان کر رہے ہیں جو ایک بار پھر نفرت کی سیاست کر رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی اگر چہ ایک انقلابی تصور سے اٹھی تھی لیکن بے نظیر بھٹو صاحبہ کے دور میں، اس نے اس سے رجوع کر لیا۔ اس نے نفرت کی سیاست کو خیر باد کہا۔ بے نظیربھٹو صاحبہ نے فوج کے خلاف نفرت کو پارٹی سیاست کی اساس نہیں بننے دیا۔ یہ ان کی ایک بڑی قومی خدمت ہے۔ افسوس کہ اس کا اعتراف کسی کو نہیں۔ آصف زراداری صاحب نے بھی اسی کو آگے بڑھایا۔ کاش ہمارے ریاستی ادارے اس بات کی قدر کر سکتے۔ پیپلزپارٹی اب بھی اس سے گریز کرنا چاہتی ہے۔ اس کے لیے اسے ایسے انقلابیوں سے خبر دار رہنا ہوگا جو اسے ایک بار نفرت کی سیاست میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔
سیاست دان بہت بڑی غلطی کریں گے، اگر وہ سیاست کو نفرت پر استوار کریں گے۔ آج بعض اہلِ سیاست نے عوامی نفسیات پر جو اثرات مرتب کیے، جس طرح شریف خاندان کے خلاف نفرت کے بیج بوئے ہیں،کاش کوئی اس کا تجزیہ کر سکے۔ ایک طبقہ اس سے پہلے یہ کام پیپلزپارٹی کے خلاف کر چکا ہے۔ یہ اس کے ثمرات ہیں کہ نوازشریف احتجاجی سیاست اور دہشت گردی میں فرق کو سمجھنے سے معذور ہو گئے ہیں اور مولانا فضل الرحمٰن سیاسی مخالفین کویہودی ایجنٹ قرار دینے لگے ہیں۔
جو لوگ اب بھی اس بات کو سمجھنے سے قاصرہیں کہ سیاسی انتہا پسندی معاشرے کو کہاں لے جاتی ہے، ان سے گزارش ہے کہ ایک نظر بنگلہ دیش کی تاریخ پر ڈال لیں۔