معاشرے کو اصلاح کی بنیاد ماننے کا ایک نتیجہ محترم اوریا صاحب کے نزدیک یہ نکلا ہے کہ ''نظام سے لڑنے کی قوت و حوصلہ اور انقلاب جیسے لفظ ہماری لغت سے خارج ہوتے جا رہے ہیں‘‘۔
میرا کہنا یہ ہے کہ انقلاب کا لفظ تو کبھی ہماری لغت میں تھا ہی نہیں۔ جمہور اہلِ علم کا کام اور تاریخ تو اس تصور سے بالکل خالی ہے۔ یہ لفظ تو بیسویں صدی میں اشراکیت کے زیرِ اثر ہماری لغت کا حصہ بنا۔ امت کے اہلِ علم تو ایک ہی تصور سے واقف تھے اور وہ ہے 'اِنذار‘۔ انہوں نے جب بھی اہلِ اقتدار میں کوئی کجی یا فرائض سے انحراف دیکھا، انہیںمتوجہ کیا اور آخرت میں جواب دہی کا احساس دلایا۔ یہی اِنذار ہے۔ یہ انذار وہ معاشرے کے دوسرے طبقات کو بھی کرتے رہے جن میں عوام اور علما بھی شامل تھے۔ قرآن مجید نے علما کی یہی ذمہ داری بتائی ہے اور یہی ابنیاء کی سنت رہی ہے(التوبہ 9:122)۔ ہمارے جلیل القدر اسلاف نے اپنا یہ کردار قرآن و سنت ہی کی روشنی میں اختیار کیا۔
یہ جمہور اہل علم کا معاملہ ہے۔ تاہم اس میں شبہ نہیں کہ ایک اقلیتی گرو ہ 'انقلابی‘ سوچ کا بھی حامل رہا۔ اس کا خیال تھا کہ تبدیلی او پر سے آتی ہے۔ مسلم معاشرے کی اصلاح اسی وقت ہو سکتی ہے جب حکمران طبقہ درست ہو۔ حکمرانوں میں کجی آ جائے تو انہیں باہراٹھا پھینکنا چاہیے۔ اس امت میں پہلی انقلابی تحریک سیدنا عثمان ؓکے خلاف عبداللہ ابن سبا نے اٹھائی۔ اس تحریک کا منشور اور لائحہ عمل وہی ہے جسے بیسویں صدی کی انقلابی تحریکوں نے سائنسی اسلوب دے دیا۔ سائنٹیفک سوشلزم جیسے تصورات میں اسی کی جھلک ہیں۔ مثال کے طور پر اس گروہ نے سیدنا عثمان ؓکے خلاف جو چارج شیٹ مرتب کی، اس میں بیت المال کا ناجائز استعمال، اقربا پروری، بقیع کی چراہ گاہ کو اپنے لیے مخصوص کرنا، حدود جیسے شرعی احکام کے نفاذ میں تغافل جیسے الزامات شامل ہیں۔ اس کی بنیاد پر خلیفۂ وقت کے خلاف فضا ہموار کرنے کے لیے جو حکمتِ عملی اختیار کی گئی، اس کے بنیادی نکات وہی تھے جو بعد میں ماؤ نے بیان کیے: پروپیگنڈا اوراحتجاج۔
اس تحریک میں حضرت عثمانؓ کے خلاف خاندان کو نوازنے کی داستانیں مشہورکی گئیں۔ عُمّال کو بد نام کیا گیا۔ اس کے ساتھ خود کو مصلح ثابت کر نے کی کوشش کی گئی۔ اشتراکیت کی طرح خفیہ مہم چلائی گئی۔ خفیہ خط و کتابت کے ذریعے پورے ملک کی فضا میں اشتعال پیدا کیا گیا۔ شاہ معین الدین احمد ندوی نے جب 'تاریخِ اسلام‘ مرتب کی اور ان واقعات کو بیان کیا تو اس کے لیے باب باندھا ''انقلاب اور حضرت عثمانؓ کی شہادت‘‘ (جلد اوّل، صفحہ 270) شاہ صاحب نے ابن اثیرکے حوالے سے لکھا کہ جب سبائیوں کا گروہ مضبوط ہوا تو ''سب سے اوّل 34ھ میں کوفہ کے ایک انقلابی یزید بن قیس نے اس کی جرأت کی اور سبائیوں کو لے کر حضرت عثمانؓ سے دست برداری کا مطالبہ کرنے کے لیے مدینہ چلا‘‘۔(صفحہ275) یہ گویا اس امت میں اٹھنے والی پہلی انقلابی تحریک کا عملی آغاز تھا۔
امت میں اٹھنے والی دوسری انقلابی تحریک خوارج کی تھی۔'لا حکم الا للہ‘ کا نعرہ بلند کر نے والا یہ گروہ ابتدا میںسید نا علی ؓکے ساتھ تھا۔ امیر معاویہؓ کے ساتھ اختلافات کے حل کے لیے جب تحکیم کی تجویز پر اتفاق ہوا کہ فریقین ایک ایک حَکم مقررکریں گے جن کے فیصلے کو قبول کیا جائے گا تو اس گروہ نے اسے ماننے سے نکار کیا اور
حضرت علیؓ سے الگ ہوگئے۔ انہوں نے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ حضرت علیؓ کی شہادت ہوگئی اور حضرت معاویہؓ محفوظ رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اوپر بیٹھے ہوئے ہی امت میں انتشار کا سبب ہیں۔ ان کا خاتمہ ہی امت کے مفاد میں ہے۔
ایک اور انقلابی تحریک یزید کے عہدِ اقتدار میں حضرت عبد اللہؓ بن زبیر نے اٹھائی۔ اس کا انجام ان کی شہادت پر ہوا۔ ان کا بے جان وجود کئی دن سولی پر لٹکتا رہا۔ اسی طرح کی ایک انقلابی تحریک 'توابین‘ کی تھی جو سیدنا حسینؓ کا انتقام لینے کے لیے اٹھی۔ بعد میں مختار ثقفی بھی اسی کا حصہ بنا۔ پھر ابو مسلم خراسانی اور نہیں معلوم کتنے لوگ انقلاب کے لیے اٹھے۔ یہ انقلابی جدو جہد ہماری علمی تاریخ میں 'خروج‘ کہلاتی ہے۔ یہ تمام انقلابی راہنما اپنے تئیں مصلحین تھے اور اپنے عہد کے 'طاغوت‘ کے خلاف اٹھے تھے۔ ان کا خیال یہی تھا کہ اس وقت ساری خرابی اس وجہ سے ہے کہ اوپر غلط لوگ بیٹھے ہیں۔ یہ ظالم ہیں اور فاسق بھی۔ انہیں اقتدار سے الگ کیے
بغیر معاشرے کی ا صلاح نہیں ہو سکتی۔ ان سے بہت سے لوگوں کی نیکی اور تقویٰ کے بارے میں دوسری رائے نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان انقلابی تحریکیوں نے، جن میں سے بعض اخلاص کے ساتھ اٹھائی گئی ہوں گی، اس امت کو کیا دیا؟
اس سوال کا جواب امام ابنِ تیمیہ نے دیا ہے۔ 'منہاج السنہ‘ میں انہوں نے ان تمام انقلابی تحریکوں کے بارے میں لکھا ہے: ''۔۔۔ پوری تاریخ بتا رہی ہے کہ کسی صاحبِ سلطنت و قوت کے خلاف جب بھی خروج کیا گیا، بالعموم اس کا خیر بہت معمولی اور شر بہت زیادہ ہوا‘‘۔ آج بھی اگرہم امت کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو ممکن نہیںکہ اس کے علاوہ کسی نتیجے تک پہنچیں۔ ابن تیمیہ نے تو زیادہ تر ان لوگوں کا حوالہ دیا ہے جن کی دین داری یا اخلاص میں شبہ نہیں۔ عمومی اثرات کو جاننے کے لیے اگر ہم سبائیوں اور خوارج کو بھی اس میں شامل کرلیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس انقلابی جد وجہد نے کس طرح اس امت کو زوال کے راستے پر ڈالا۔ لاکھوں لوگوں کا خون بہا یا گیا۔ اس میں عبداللہؓ ابن زبیر جیسے نجیب الطرفین اورصحابہ کا لہو بھی شامل ہے۔ اگر یہ انقلابی نظریہ نہ ہوتا اور یہ تحریکیں نہ اٹھتیں تو آج اس امت کی تاریخ کچھ اور ہوتی۔
افسوس کہ ہم نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔ بیسویں صدی میں ایک بار پھر 'انقلاب انقلاب‘ کے نعرے بلند ہوئے۔ 'اوپر سے تبدیلی‘ کو اصلاح کا واحد راستہ بتایا، مسلمانوں کے حکمران طبقے کو طاغوت قرار دیا اور ان کے خلاف نفرت کو ابھارا۔ جمہوریت کو کفر کہا اور یہ نظریہ پیش کیا کہ صالحین کے ایک گروہ کو آگے بڑھ کر اقتدار ہاتھ میں لے لینا چاہیے کہ تبدیلی ہمیشہ اوپر سے آتی ہے۔ اسی فکرنے القاعدہ، تحریکِ طالبان پاکستان اور داعش جیسی تنظیموں کو جنم دیا۔
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ حکمرانوں کے مظالم کے خلاف آواز نہیں اٹھانی چاہیے؟ کیا اُن کی بد اعمالیوں پر خاموش رہا جائے؟ یقیناً نہیں۔ معاشرے کے اہلِ دانش اور اہلِ علم کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آواز اٹھائیں۔ حکمرانوں کو ان کی کمزوریوں پر متنبہ کریں۔ عوام کو ان کے بارے میں بتائیں۔ ہمارے بہت سے اہلِ سیاست، علما اوراوریا صاحب جیسے کالم نگار یہ ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔ یہ اس امت کے جمہور علما اور اہلِ دانش کا طریقہ ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ، امام مالک ابن انس اور امام احمد ابن حنبل جیسے آئمہ کی روایت ہے۔ اس کے بر خلاف انقلابی طریقہ سبائیوں اور خوارج کا ہے۔
یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ دونوں میں سے کون سے طریقہ درست ہے۔ میں آئمہ کے طریقے کو درست سمجھتا ہوں۔ میری تفہیم کے مطابق اللہ کا دین بھی اسی کی تعلیم دیتا ہے۔ پھر جمہوریت کے بعد تو انقلاب کا جوازکسی طرح ثابت نہیں جب بات کہنے کی مطلق آزادی ہے۔ اوریا صاحب اور میں جو دل چاہتا ہے، لکھتے اور جو جی میں آتا ہے، بولتے ہیں۔ 'دجالی میڈیا‘ اپنے ایجنڈے کے ساتھ ساتھ 'صالحین‘ کا موقف بھی عوام تک پہنچا رہا ہے۔ اگر سروے کیا جائے تو شاید یہ پتا چلے کہ جتنا وقت صالحین کو ملتا ہے، اتنا غیر صالحین کے حصے میں نہیں آتا۔
اس بحث میں ایک اصلاح 'طاغوت‘ کثرت سے استعمال ہو رہی ہے جس کے خلاف اٹھنا دینی فریضہ بتا یا جاتا ہے۔ یہ طاغوت کیا ہے، اس پر انشا اللہ اگلی نشست میں بات ہو گی۔ اوپر سے تبدیلی کے فلسفے کو سمجھنے کے لیے اس کی تفہیم نا گزیر ہے۔