مسلمان معاشرے میں فرقہ بندی اور فساد کا آغاز کیسے ہوا؟
مدتوں پہلے مولانا مناظر احسن گیلانی نے ایک رسالہ لکھا: ''مسلمانوںکی فرقہ بندیوں کا افسانہ‘‘۔ فتنے کی ابتدا جس خیال سے ہوئی، اسے مولانا نے ایک جملے میںبیان کیا: ''سیاست ہی اسلام کی روح ہے‘‘۔ مولانا گیلانی نے شہرستانی کی معروف کتاب 'الملل و النحل‘ کے بہت سے حوالوں سے یہ بتایا کہ یہ خیال جب مسلمانوں میں در آیا تو اس نے کس طرح کے فکری فتنے پیدا کیے‘ اور اس کے نتیجے میں کیسے مسلمان معاشرہ فساد کی نذر ہوا۔ 'بداء‘ کا عقیدہ اسی تصور کی دَین ہے۔ 'سیاسی اسلام‘ دراصل اسی خیال کی تجدید و احیا ہے۔ جب اقتدار کی تبدیلی اور مذہب کا ریاستی سطح پر نفاذ ہی دین کا مطلوب و مقصود ٹھہرا تو اس نے مسلمان معاشروں کو اقتدار کی ایسی کشمکش میں مبتلا کیا‘ جس کی بنیاد مذہب پر رکھی گئی۔ گزشتہ چند دہائیوں میں اس کے جو نتائج نکلے، وہ المیہ داستانوںکی صورت میں پاکستان اور افغانستان سے لے کر مصر اور الجزائر تک بکھرے ہوئے ہیں۔
اس تعبیر کے مطابق، دین کا نفاذ یعنی مذہب کی سیاسی حاکمیت کا قیام، اسلام کا بنیادی مطالبہ ہے۔ جو لوگ اس راہ میں حائل ہوتے ہیں، وہ طاغوت ہیں۔ چونکہ مسلمان حکمران بھی ان میں شامل ہیں، اس لیے طاغوت کا ایک مصداق یہ حکمران گروہ بھی ہے۔ لہٰذا اس کے خلاف کھڑا ہونا بھی دین کا منشا ہے۔ اس کے لیے قرآن مجید سے دلیل لائی جاتی ہے کہ چونکہ اس نے طاغوت سے انکار کا حکم دیا ہے، لہٰذا ان حکمرانوں کا انکار، دین کا مطالبہ ہے۔ حکمرانوں کے انکار سے مراد، ان کے اطاعت سے انکار اور ان کو اقتدار سے معزول کرنا ہے۔ قدیم اصطلاح میں یہ خروج ہے، جدید میں انقلاب۔ محترم اوریا صاحب نے اس مقدمے کو ایک جملے میں اس طرح سمیٹا ہے: ''دین قوت نافذہ مانگتا ہے۔ طاغوت کے انکار اور باطل کے سامنے کھڑا ہونے کا مطالبہ کرتا ہے‘‘۔
طاغوت قرآن مجید کی ایک اصطلاح ہے۔ قرآن نے شیطان اور طاغوت کو ہم معنی الفاظ کے طور پر بیان کیا۔ یہ جمع بھی ہے اور واحد بھی۔ اس کا مفہوم خدا کے سامنے سرکشی، تمرد اور استکبار ہے۔ قرآن مجید نے ایک مقام پر فرمایا : جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اﷲ کو مانا، اسی نے گویا ایک مضبوط رسی پکڑ لی جو کبھی ٹوٹ نہیں سکتی۔ ( البقرہ 2:256) سورۃ النساء میں کہا گیا: تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس پر بھی ایمان لائے جو تم پر نازل کیا گیا ہے‘ اور اس پر بھی جو تم سے پہلے نازل کیا گیا تھا۔ مگر چاہتے ہیں کہ (اﷲ و رسول کو چھوڑ کر) اپنے معاملات کے فیصلے کے لیے اسی سرکش کی طرف رجوع کریں‘ جو بدی کا سرغنہ ہے حالانکہ انہیں ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اس کا انکار کریں۔ ( یہ شیطان کے پیروکار ہیں اور شیطان چاہتا ہے کہ انہیں دور کی گمراہی میں ڈال دے‘‘ (4:60) یہاں طاغوت سے مراد یہودی لیڈر ہے۔روایات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کعب بن اشرف ہے۔ بیان ان منافقین کا ہے جو پہلے یہودی تھے یا نبیﷺ کی تشریف آوری سے پہلے،مدینہ میں یہودی راہنماؤں سے فصل نزاع کے لیے رجوع کرتے تھے۔ شیطان سے قرآن کی مراد ابلیس بھی ہے اور وہ جن و انس بھی جو بدی کے سرغنے ہیں۔ اسی مفہوم میں طاغوت بھی ہے۔ فرعون بھی طاغوت ہے جس نے خدا کے مقابلے میں سرکشی کی۔
اس سے وہ مسلمان حکمران کسی طرح مراد نہیں ہو سکتے ہیں جو دین پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن ان میں فسق و فجور پایا جاتا ہے۔
مسلم کی ایک روایت ہے جس کے مطابق رسالت مآبﷺ نے فرمایا:''تمہارے بدترین سردار (حکمران) وہ ہیں جو تمہارے لیے مبغوض ہوں اور تم ان کے لیے مغبوض ہو۔تم ان پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں۔صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! جب یہ صورت ہو تو ہم ان کے مقابلے پر نہ اٹھیں؟ فرمایا: نہیں، جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کریں‘‘نبی ﷺ در اصل اس بدترین منظر نامے کا ذکر رہے ہیں جو عوام اور حکمرانوں کے مابین تعلقات کے ضمن میں ہو سکتا ہے۔اس ارشاد ِ گرامی میں الہامی بصیرت کا کس طرح ظہور ہوا ہے اور یہ فتنے کے نتائج سے کس طرح خبر دار کر رہی ہے، کاش اس امت کے علما اور دانش ور اس پر غور فرماتے۔ اس سے انحراف کی عملی مثالیں اور اس کے نتائج اس امت کی تاریخ کے ہر صفحے پر رقم ہیں،اگر کوئی ان پر ایک نظر ڈال لے۔اس کے بعد بھی کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ؛''دین قوتِ نافذہ مانگتا ہے۔ طاغوت کا انکار اور باطل کے سامنے کھڑا ہونے کا مطالبہ کرتا ہے۔‘‘
طاغوت سے انکار یہ ہے کہ خدا کے مقابلے میں کسی شیطان کی بات نہ مانی جائے۔ دین کا یہ مطالبہ ہر فرد سے ہے اور کوئی مسلمان اس کا انکار نہیں کرتا‘ لیکن یہ انکار مسلمان حکمرانوں کے خلاف کھڑا ہونا بھی ہے، جو کسی کے خیال میں، اسلام نافذ نہیں کرتے تو، مسلم کی روایت سے واضح ہے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کی مراد نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے فقہا نے بھی حکمرانوں کے خلاف خروج (بغاوت) کی جو شرائط بیان کی ہیں، ان میں ایک یہ ہے کہ حکمران کفرِ بواح (اعلانیہ کفر) کا ارتکاب کریں۔ یہ محض اجازت کا بیان ہے۔ خروج کسی فقیہ کے ہاں لازم نہیں۔
یہ بات بھی میری سمجھ میں نہیں آ سکی کہ ''دین قوتِ نافذہ مانگتا ہے‘‘۔ دین ہمیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم دیتا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ ہماری سماجی حیثیت کے مطابق ہم سے مخاطب ہوتا اور ہمیں ہدایت کرتا ہے کہ ہم اللہ کے احکام کو مانیں۔ والدین، اولاد، سرکاری ملازم، مزدور، حکمران، یہ ہماری مختلف سماجی حیثیتیں ہیں۔ ہر حیثیت کے مطابق اسلام نے ہماری راہنمائی فرمائی ہے اور ہم اپنے اپنے دائرہ میں ان پر عمل کرنے کے پابند ہیں‘ اگر مسلمان ہیں۔ وہ عام آدمی سے یہ مطالبہ نہیں کرتا ہے کہ وہ حکومت سے متعلق احکام پر عمل درآمد کے لیے قوتِ نافذہ حاصل کرے۔ یا صاحبِ نصاب نہیں ہے تو زکوٰۃ کے حکم پر عمل پیرا ہونے کے لیے لازم ہے کہ صاحبِ نصاب بنے۔ ہاں اگر کوئی حکمران مسلمان ہے اور عوام بھی مسلمان ہیں تو دین اس کے بعض ایسے احکام بیان کرتا ہے جن کا تعلق نظم اجتماعی اور قوتِ نافذہ سے ہے۔
اس کا یہ مفہوم قطعاً نہیں ہے کہ مسلمان حکمران اگر کسی خرابی کے مرتکب ہوں تو انہیں تنبیہ نہ کی جائے۔ میں پچھلے کالم میں عرض کر چکا کہ یہ اہلِ دانش اور علما کی ذمہ داری ہے کہ انہیں متنبہ کریں، خبردار کریں اور انہیں اصلاح کی دعوت دیں۔ یہی انذار ہے۔ اگر وہ اصلاح پر آ مادہ نہ ہوں تو انہیں تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے۔ جمہوری دور میں جب حکمرانوں کی تبدیلی کے لیے ایک آئینی طریقہ موجود ہے تو اہلِ سیاست و اہلِ دانش عوام میں حکمران طبقے کے بارے میں آگاہی پیدا کر سکتے ہیں تا کہ انتخابات کے موقع پر، وہ انہیں تبدیل کر دیں۔ اسی طرح اہلِ سیاست متبادل پروگرام بھی دے سکتے ہیں۔ دینی نقطہ نظر سے تبدیلی کا یہی راستہ ہے۔
یہ سارے نکات اس تصور سے براہ راست متعلق ہیں جو اس بحث کی بنیاد ہے کہ اصلاح اوپر سے ہوتی ہے۔ اسی لیے اوریا صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ ''دین کے ہاں ایک چھوٹی سی جماعت بھی دین کا نفاذ کر سکتی ہے‘‘۔ میں یہ عرض کرتا ہوں کہ ایک جماعت کو اگر عوام کی اکثریت کا اعتماد حاصل نہیں تو دین کے نزدیک، اس کا حقِ اقتدار ہی ثابت نہیں۔ اس کے دلائل انشااللہ اگلے کالم میں۔