معاشرہ اور ریاست مذہب کی ایجاد نہیں ہیں۔ خالق نے انسان کی فطرت میں جو مطالبات رکھ دیے ہیں، یہ ان کا ظہور ہیں۔ جو لوگ وحی کی راہنمائی سے بے نیاز ہیں، وہ بھی معاشرہ بناتے اور ریاست قائم کرتے ہیں۔ مذہب کا بنیادی وظیفہ انسان کی اخلاقی تطہیر ہے۔ اس کو ہماری روایت میں تزکیہ نفس کہتے ہیں۔ مذہب انسان کو پاکیزہ بنانا چاہتا ہے، انفرادی حیثیت میں بھی اور اجتماعی صورت میں بھی۔ وہ لوگوں کو یہ بتانے نہیں آیا کہ وہ ریاست قائم کریں۔ وہ یہ سکھانے آیا ہے کہ اگر ریاست کے معاملات تمہارے ہاتھ میں ہوں تو پھر تمہیں کیا کرنا چاہیے۔ ریاست اور معاشرہ مختلف تاریخی اور سیاسی عوامل کے زیرِ اثر وجود میں آتے ہیں۔ معاشرہ تو تاریخ کے ہر دور میں موجود رہا ہے لیکن ریاست کو بعد کے تاریخی عوامل نے جنم دیا ہے۔ یہ ایک جاری عمل ہے، جو تاریخی اور تہذیبی ارتقا کے تابع ہے، مذہب کی تعلیمات کے نہیں۔ جنگِ عظیم سے پہلے تاریخی عمل نے عالمی ریاستوں (Empires) کو جنم دیا۔ جنگِ عظیم کے بعد اسی عمل نے قومی ریاستوںکو وجود بخشا۔ آج دنیا پھر ایک نئے سیاسی نظم کے دور میں داخل ہو رہی ہے، جس کا میں انشاءﷲ الگ سے ذکر کروں گا۔
ریاست جن عوامل کے تحت وجود میں آتی اور قائم رہتی ہے، وہ مذہب کا موضوع نہیں۔ ان کا تعین تاریخ کرتی اور مذہب اسے قبول کرتا ہے، اگر وہ انسانی اخلاقیات کے لیے باعثِ ضرر نہ ہو۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ایک ریاست صالحیت سے نہیں عصبیت سے قائم رہ سکتی ہے۔ جس سیاسی گروہ یا فرد کو عامۃ الناس کی ایک بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہو جاتی ہے، اس کے لیے مستحکم ریاست قائم کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی اقلیتی گروہ کسی سبب سے برسرِ اقتدار آجائے تو آئے دن شورش جنم لیتی، بغاوت اٹھتی اور سیاسی نظم کو درہم برہم کردیتی ہے۔ عصبیت ریاست کے استحکام کی بنیادی اور ناگزیر ضرورت ہے۔ ابنِ خلدون نے اس علمی شان کے ساتھ اس مقدمے کو بیان کردیا ہے کہ اب کم از کم علم و دانش کی دنیا میں ، کسی دوسری رائے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ دورِحاضر میں اسی کو جمہوریت کہتے ہیں۔
رسالت مآبﷺ دنیا سے رخصت ہوئے تو سیاسی قیادت کے باب میں ایک ہی
راہنمائی دی: ''امام (لیڈر) اہلِ قریش میں سے ہوں‘‘۔ اہلِ سنت کے ہاں اگرچہ یہ رائے رہی ہے کہ یہ ایک مستقل حکم ہے، لیکن ابنِ خلدون نے واضح کیا کہ اس کا تعلق عہدِ رسالت و صحابہ سے ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت اہلِ قریش ہی کو اکثریت کا اعتماد یا عصبیت حاصل تھی اور وہی عربوں کو متحد رکھ سکتے تھے۔ سقیفہ بنی ساعدہ میں سیدنا ابوبکرصدیقؓ نے صحابہ کی مجلس میں حضرت سعدؓ بن عبادہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رسول اﷲ نے آپ کی موجودگی میں یہ بات ارشاد فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ نیک لوگ قریش کے نیک لوگوں کے پیرو ہیں اور برے ان کے بروں کے۔ حضرت سعدؓ نے اس بات کو تسلیم کیا۔(مسندِ احمد) حضرت ابوبکرؓ نے یہ بھی فرمایا: عرب قبیلۂ قریش کے سوا کسی اور قیادت کو نہیں مانتے۔
سیدنا ابو بکر صدیقؓ کے انتخاب ہی سے امت یہ سمجھتی رہی ہے کہ اقتدار کا حق اسی کے لیے ثابت ہے جسے اکثریت کا اعتماد حاصل ہو۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے جب آ خری حج کیا تو اس مو قع پر کسی نے کہا: اگر عمر ؓکا انتقال ہوا تو میں فلاںکے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا کیونکہ حضرت ابوبکرؓ کی بیعت بھی اچانک ہوئی اور پھر وہ کامیاب ہو گئی۔ حضرت عمر ؓنے سنا تو فرمایا کہ میں اس پر خطبہ دوں گا اور عوام کو ان لوگوں سے خبردار کروںگا جو معاملات پر غاصبانہ تسلط چاہتے ہیں۔ مدینہ پہنچ کر آپ نے لوگوں سے خطاب کیا ۔ سقیفہ بنی ساعدہ کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا اورفرمایا: ''اب اگر کوئی مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی کے ہاتھ پر بیعت کرے گا تو وہ اور جس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے گی، دونوں خود کو قتل کے لیے پیش کر یں گے۔ مو لانا مو دودی نے ''خلافت و ملوکیت‘‘ میں اس ساری بحث کو ان الفاظ میں سمیٹا ہے: ''خلافت کے متعلق خلفائے راشدین اوراصحاب ِ رسول کا متفقہ علیہ تصور یہ تھا کہ یہ ایک انتخابی منصب ہے جسے مسلمانوں کے باہمی مشورے اور ان کی آزادانہ مرضی سے قائم ہو نا چاہیے‘‘۔(صفحہ86)
یہ تصور دراصل قرآن مجید کی ایک نص پر مبنی ہے جس میں مسلمانوں کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ ان کے معاملات، مشاورت پر مبنی ہوتے ہیں۔ (الشوریٰ42:38) چونکہ اس منصب کا تعلق عصبیت سے ہے، اس لیے یہاں عامۃ الناس کی رائے مراد ہے، خواص کی نہیں۔ یہی سبب ہے کہ جب سیدنا عمرؓ نے اپنے جانشین کے انتخاب کا حق چھ رکنی کمیٹی کے سپرد کیا تو آخری مرحلے میں، اس کمیٹی کے ایک رکن حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف گلیوں بازاروںمیں چل پھر کر، عام لوگوں سے پوچھتے تھے کہ وہ اس منصب کے لیے کسے پسند کرتے ہیں۔ انہوں نے تو دور دراز سے حج کے لیے آنے والوں سے بھی پوچھا۔ اس کے بعد جب انہیں اطمینان ہوگیا کہ اکثریت سیدنا عثمان ؓ کے حق میں ہے تو ان کے نام کا اعلان ہوا اور پھر ایک عوامی اجتماع میں ان کی بیعت ِ خلافت ہوئی۔ اس سے یہ واضح ہے کہ اربابِ اقتدار کے انتخاب میں عام آدمی اور شیخ التفسیر کی رائے میں کوئی فرق نہیں۔ اگر معاملہ کسی آیت کی تفسیر کا ہے تو ہم بلاشبہ شیخ التفسیر کی رائے کو ترجیح دیں گے لیکن اگر حکمرانوں کا انتخاب کرنا ہے تو پھر وہی اس کا حق دارہے جس پر زیادہ سے زیادہ لوگ اعتماد کر تے ہیں۔ یہی وہ تصور ہے جسے دورِ جدید میں جمہوریت کہتے ہیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ دین حکمرانوں کے بارے میں ایک معیار مقرر کر تا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ عدالت و امانت کے معاملے میں حساس ہوں۔ اگر کوئی حکمران ایسا نہیں ہے تو دین اسے آخرت کی وعید بھی سناتا ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی کے نزدیک غیر صالحین کو عصبیت حاصل ہو گئی ہے تو اسے یہ حق مل گیا ہے کہ صالحین کا ایک گروہ منظم کرے اور اقتدار پر قبضہ کر لے۔ ایسی سوچ رکھنے والے کو رسالت مآب ﷺ کے ار شادِ گرامی پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے جس میں آپ نے فرمایا: ''تم کسی شخص کی امارت پر جمع ہو اور کوئی تمہاری جمعیت کو پارہ پارہ کرنے یا تمہارے نظمِ اجتماعی میں تفرقہ پیدا کرنے کے لیے اٹھے تو اسے قتل کر دو‘‘۔ (مسلم) دین جب کسی منصب کے لیے معیار مقرر کرتا ہے تو دراصل یہ چاہتا ہے کہ لوگ اس معیار تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ایسا فرد میسر نہ ہو تو معاملات موقوف ہو جائیں یا اس کے لیے کوئی دوسراطریقہ اختیار کیا جائے۔ اس بات کو امامت ِصغریٰ سے سمجھنا چاہیے۔ نما زکی امامت کے لیے ایک معیار ہے۔ اگر مطلوبہ معیار کا فرد میسر نہ ہو تو باجماعت نماز چھوڑ ی نہیں جاتی۔ وہ اسی کی امامت میں قائم ہو جاتی ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہم موزوں فرد کی تلاش بھی جاری رکھتے ہیں۔
یہی معاملہ امامتِ کبریٰ کا بھی ہے۔ اس کے انتخاب کا اصول تبدیل نہیں ہو سکتا۔ تاہم ہم مسلسل کوشش کرتے رہیں گے کہ بہتر سے بہتر لوگ اس منصب پر فائز ہوں۔ 'جمہوریت کے تسلسل‘ کا یہی مطلب ہے۔ کسی گروہ کو اللہ نے یہ حق نہیں دیا کہ وہ اپنے تئیں صالحین کا ایک گروہ ترتیب دے اور عوام کی مرضی کے بغیر لوگوں پر مسلط ہو جائے۔ یہ بلا شبہ فساد فی الارض ہے اورقرآن مجید نے اس کی جو سزا بیان کی ہے، اسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جا تے ہیں۔