تبدیلی کا ہر نظریہ اپنی حکمتِ عملی ساتھ لاتا ہے۔
اوپر سے تبدیلی کا نظریہ یہ ہے کہ خرابی کا اصل مرکزحکمران طبقہ ہے۔ یہ وعظ و نصیحت سے بدلنے والا نہیں۔ اس سے نجات کی ایک ہی صورت ہے کہ اسے انقلابی جد و جہد سے اٹھا باہر پھینکا جائے۔ جو مذہب کو نہیں مانتے، وہ اس کے حق میں غیر مذہبی استدلال پیش کرتے ہیں جیسے اشتراکی۔ جو مذہب کو مانتے ہیں وہ اسی استدلال کو مذہبی پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔ ان کے خیال میںایک مسلمان معاشرے میں یہ طبقہ بظاہر مسلمان ہو سکتا ہے لیکن جب یہ ان کی تعبیر کے مطابق خدا کے احکام کو نافذ نہیں کرتا تو یہ طاغوت ہے۔ اس کے خلاف نکلنا لازم ہے۔ یہ دین کا حکم ہے جو قوتِ نافذہ چاہتا ہے۔
جن کا نظریہ ہے کہ تبدیلی سماج سے آتی ہے، اُن کی حکمتِ عملی ارتقا پر مبنی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ حکمران طبقہ در اصل سماج کا پر تو ہوتا ہے۔ اگر سماج فی الجملہ اخلاقی انحطاط میں مبتلا ہے تو یہ ممکن نہیںکہ حکمران طبقہ عمرؓ ابن خطاب کی تصویر ہو۔ جب سماج کا نظام ِاقدار بدلتا ہے تو اس کے ناگزیر نتیجے میں سیاسی ادارے بھی بدل جاتے ہیں۔ سماج تدریجاً بدلتا ہے،اس لیے اس تصور کے تحت جو حکمتِ عملی وجود میں آتی ہے وہ ارتقا پرمبنی ہے۔ اسی کو ہم جمہوری تبدیلی بھی کہتے ہیں۔ اس خیال کے حاملین میں سے جو مذہب کو مانتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ خدا کی کتاب اور اس کے رسولوں کی سنت سے یہی ثابت ہوتا ہے۔ انقلاب مذہب کے لیے ایک اجنبی تصور ہے۔ میں اسی تصور اور منہج کو صحیح سمجھتا ہوں۔
محترم اوریا صاحب پہلے نظریے کے علم بردار ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ تبدیلی ہمیشہ ایک اقلیتی گروہ ہی لاتا ہے۔ طریقہ یہ ہے کہ صالحین کا ایک گروہ منظم ہو اور زمام ِکار اپنے ہاتھ میں لے لے۔ اس کے بعد بالجبر خیر کا نظام نافذ کر دے۔ جب لوگ اس کی برکات کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے تو خود بخود قائل ہو جائیںگے۔ اس طرح معاشرہ سنور جائے گا۔ رسالت مآب ﷺ نے بھی یہی کیا۔ نوے افراد تھے جومدینہ میں آئے، نظام اپنے ہاتھ میں لیا اور سب کچھ بدل ڈالا۔ آپ نے اس انقلاب کے لیے جنگیں بھی لڑیں۔ میں عرض کرتا ہوں کہ یہ سارامقدمہ خلافِ واقعہ ہے۔ پہلے مدینہ کا سماج تبدیل ہوا۔ یہ تبدیلی دعوت اور جمہوری طریقے سے آئی۔ جب اکثریت مسلمان ہوگئی تو وہاںکی قبائلی قیادت نے آپﷺ کو دعوت دی کہ آپ مدینہ تشریف لائیں اور ہماری دینی و سیاسی قیادت کو اپنے ہاتھ میں لیں۔ اس کے بعد آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ میں اس کی تفصیل یہاں بیان کیے دیتا ہوں۔
جب آپ ﷺ اہلِ مکہ سے مایوس ہوئے تو آپ نے طائف والوںکو اپنی دعوت کا مخاطَب بنایا۔ انہوں نے آپ کے ساتھ جو معاملہ کیا، وہ ہم سب جانتے ہیں۔ سفرِ طائف بعثت کے دسویں سال کا واقعہ ہے۔ یوں قریش اور بنی ثقیف سے مایوس ہو نے کے بعد، آپ نے عرب کے دوسرے قبائل تک اپنی دعوت پہنچائی۔ اس سے پہلے بھی، ہرحج کے موقع پر آپ باہر سے آنے والوں کے سامنے اپنی دعوت رکھتے تھے لیکن اس کے بعد یہ دوسرے قبائل بطورِ خاص آپ کی دعوت کا مرکز قرار پائے۔ آپ عکاظ، مجنّہ اور ذوالمجاز کے میلوں اور حج کے موقع پر ارد گرد سے آنے والے وفود کے پاس جاتے اور ان کے سامنے اپناپیغام رکھتے۔ اہلِ مکہ اور اہلِ طائف سے مایوس ہونے کے بعد، آپ ان قبائل کو نہ صرف دعوت دیتے بلکہ ان سے یہ بھی کہتے کہ وہ اس دعوت کے فروغ کے لیے آپ کے انصار بنیں۔ سب نے انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کا انصار بننے کی سعادت اہلِ یثرت کے لیے خاص کر رکھی تھی۔ ان تک یہ نعمت پہنچی تو انہوں نے آگے بڑھ کر اسے ا پنے دامن میں سمیٹ لیا۔ کیا خوش بخت لوگ تھے!
بعثت کے گیارہوں سال، حج کے موقع پر، عقبہ کے قریب آپ کی ملاقات مدینہ کے قبیلۂ خزرج کے ایک گروہ سے ہوئی۔ آپ نے ان کے سامنے اپنی دعوت رکھی۔انہوں نے سنا تو آپس میں کہا کہ یہ تو وہی نبی ہیں جن کی آ مد کی خبر یہود دیا کرتے ہیں۔ یوں انہیں آپ کو پہچاننے میں دقت نہ ہوئی اور وہ ایمان لے آئے۔ یہ چھ افراد تھے۔ آپ نے ان سے بھی اپنی نصرت کے لیے کہا۔ جواباً ان کا کہنا تھا کہ ہم واپس جا کر اپنے اپنے قبیلوں تک آپ کی دعوت پہنچاتے ہیں۔ اگر اللہ نے انہیں آپ کی قیادت میں جمع کر دیا تو اُن سے زیادہ مضبوط کوئی نہ ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ آئندہ سال حج پر آپ سے دوبارہ ملیںگے۔
اوّلیں سیرت نگارابن اسحاق کا بیان ہے کہ ان لوگوں نے مدینہ پہنچ کر اسلام کی دعوت پھیلائی یہاں تک کہ انصار کا کوئی محلہ ایسا نہ رہا جہاں آپ ﷺ کا چرچا نہ ہوتا ہو۔ اگلے سال حج کے موقع پر مدینہ کے بارہ افراد نے اِسی عقبہ کے مقام پر آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ ان میں سے پانچ وہی تھے جو پچھلے سال آئے تھے، سات نئے آنے والوں میں سے پانچ کا تعلق خزرج اور دو کا قبیلۂ اوس سے تھا۔ واپسی پر آپ ﷺ نے حضرت مصعبؓ بن عمیر کو ان کے ساتھ بھیجا کہ وہ مدینہ میں لوگوںکو قرآن اور دین سکھائیں۔ ایک روایت کے مطابق اہلِ مدینہ نے آپ کوایک معلم کے لیے خط لکھا اور جواب میں آپ نے حضرت مصعبؓ کو بھیجا۔ ان کے جانے سے اسلام کی دعوت میں تیزی آگئی۔ مثال کے طور پر بنی عبد الا شہل کے سرداروں سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر نے ایک ہی دن اسلام قبول کیا اور ان کا پورا قبیلہ مسلمان ہوگیا۔ اس محلے میں ایک غیر مسلم نہیں رہا۔ یہی نہیں، مدینہ کا کوئی محلہ ایسا نہ تھا جہاں مسلمان مو جود نہ ہوں۔
بعثت کے تیرھویں سال،جب حج کا موقع آیا تو اسلام مدینہ کا اکثریتی مذہب بن چکا تھا۔ اس سال دو خواتین سمیت 75 افراد نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور آپ کو مدینہ تشریف آوری کی دعوت دی کہ اہلِ یثرب آپ کی قیادت اور رسالت پر ایمان لا چکے اور آپ کے لیے چشم براہ ہیں۔ اس موقع پر آپ نے جو بیعت لی اس میں یہ الفاظ شامل تھے: ''تم اچھے اور برے، ہر حال میں حکم سنو گے اور اطاعت کرو گے۔۔۔۔‘‘ مو لانا مو دودی کے الفاظ میں ''اہلِ یثرب نبی ﷺ کو محض ایک پناہ گزیں کی حیثیت سے نہیں، بلکہ خدا کے نائب اور اپنے امام و فرماروا کی حیثیت سے بلا رہے تھے۔۔۔۔۔اہلِ یثرب نے دراصل اپنے آپ کو'مدینۃ الاسلام‘ کی حیثیت سے پیش کیا اور نبی ﷺ نے اسے قبول کرکے عرب میں پہلا 'دارالاسلام‘ بنا دیا‘‘۔ گویا ہجرت سے پہلے مدینہ میںایک مسلمان معاشرہ وجود میں آچکا تھا جسے آپﷺ نے ایک ریاست میں بدل دیا۔
اس تفصیل سے اب کوئی شبہ نہیں رہنا چاہیے کہ مدینہ میں صرف اور صرف دعوت سے سماجی اور نچلی سطح پر ایک تبدیلی آئی۔ سماج تبدیل ہوا تو اُس کے بعد ریاست وجود میں آئی۔ یہ کسی انقلابی جدو جہد کا نہیں، صرف دعوت کا نتیجہ تھا جس میں کہیں شمشیر و سناں کا استعمال نہیں ہوا۔ ایسا نہیں تھا کہ ایک دن نوے افراد پہنچے، انہوں نے مدینہ کے اقتدار پر قبضہ کیا اور یوں ایک چھوٹے سے گروہ نے محض اقتدار سے سماج بدل دیا۔ اس تفصیل کے بعد، انقلابی جدو جہد کے حامیوں کو اب سیرت کے بجائے تاریخ سے کوئی دوسرا ماخذ تلاش کر نا چاہیے۔ وہ ماخذ بھی میں نے ایک پچھلے کالم میں واضح کر دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں اگرتلوار اٹھائی تو ایک ریاست کے استحکام کے لیے نہ کہ کوئی انقلاب برپا کر نے کے لیے۔ یہ حق دنیا کی ہر ریاست کو حاصل ہے اور اس سے کسے اختلاف ہو سکتا ہے؟ اس کا ایک پہلو منصبِ رسالت کے ساتھ خاص ہے جس پر انشااللہ الگ سے بات ہوگی۔