مکہ میں اسلام کی دعوت تدریجاً پھیلی۔ ردعمل بھی تدریجاً سامنے آیا اور وہ بھی متنوع۔
سیرت نگار ابتدائی تین سالوںکو خفیہ دعوت کا عرصہ قرار دیتے ہیں۔ دقّتِ نظر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عرصہ محتاط دعوت کا تو ضرور تھا مگرکچھ ایسا خفیہ بھی نہیں تھا۔ دعوت کا میدان تدریجاً اور فطری انداز میں وسیع ہوتا گیا۔ اہل بیت، دوست احباب، خاندان اور پھر دعوت عام۔ رد عمل بھی تدریجاً سامنے آیا۔ کچھ لوگ ابتدا میں مسلمان ہوئے۔ کچھ سوچ بچار کے بعد اور کچھ ایسے بھی تھے جنہیں رسالت مآبﷺ کے صبر، مسلمانوں کی استقامت اور مخالفین کے جبر نے سوچنے پر مجبور کیا‘ اور یوں ان پر حق کا دروازہ کھل گیا۔ مخالفین بھی سب ایک طرح کے نہیں تھے۔ بعض نے نظر انداز کیا، بعض نے مخالفت کی اور کچھ بدنصیب ایسے بھی تھے جنہوں نے مزاحمت اور ظلم کا راستہ اختیار کیا۔ مکہ کے سب کافر ایک جیسے نہیں تھے۔ ان میں اوباش تھے اور شرفا بھی۔
اوباشوں کی داستانیں تو عام ہیں‘ لیکن شرفا کے بارے میں کم لوگ جانتے ہیں۔ حضرت ابو طالب کے قبولِ اسلام کے باب میں دو روایتیں ہیں۔ اہل سنت کے ایک گروہ کا خیال ہے کہ تا دم مرگ انہوں نے اپنے اسلام کا اقرار نہیں کیا تھا۔ اہل تشیع انہیں روز اوّل سے مسلمان مانتے ہیں۔ اس اختلاف کے باوجود، اہل سنت بھی اس بات کو تسلیم کرتے تھے، ان کا شمار مکہ کے شرفا اور نجیب افراد میں ہوتا تھا۔ انہوں نے ہر مرحلے پر رسول اﷲ کا ساتھ دیا اور وہ اس راہ میں ہر قربانی دینے پر آمادہ رہے۔
فی الجملہ بنی ہاشم اور بنی المطلب کا رویہ بھی یہی تھا۔ شعب ابی طالب کی تین سالہ محصوری کا معاملہ یہ نہیں تھا کہ تمام مسلمان محصور تھے اور تمام کافروں نے ان کا سماجی بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ یہاں تقسیم مسلم اور کافر کی نہیں، بنی ہاشم اور دوسرے قبائل کی تھی۔ نبیﷺ کے متشدد مخالفین اگر آپ پر کوئی کاری وار نہیں کر سکتے تھے‘ تو اس کا سبب یہ تھا کہ بنی ہاشم آپ کی پشت پر تھے۔ اس بنا پر مخالفین نے بنی ہاشم کے خلاف مہم چلائی کہ جب تک وہ آپﷺ کو ان کے حوالے نہیں کریں گے، ان کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے گا۔ اس مضمون کی ایک دستاویز تیار کی گئی اور تمام خاندانوں نے اُس کی توثیق کی۔ اسے خانہ کعبہ میں لٹکا دیا گیا۔ جب حضرت ابو طالب کو معلوم ہوا تو انہوں نے تمام بنی ہاشم اور بنی المطلب سے کہا کہ وہ سب کے سب شعب ابی طالب میں جمع ہو جائیں‘ اور رسول اﷲ کی حفاظت کریں۔ دونوں خاندانوں نے اسے قبول کیا‘ اورشعب ابی طالب میں سمٹ آئے۔
اس دوران میں ایسے نجیب اور شرفا اور بھی تھے، جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا لیکن محصورین کی مدد کی۔ اسی طرح اہل ایمان کا ایک طبقہ وہ بھی ہے جو ہجرت کے بعد مکہ میں رہ گیا۔ کافروں میں اس فرق کی وجہ سے، مسلمانوں کے ساتھ ان کے رویے میں بھی فرق تھا۔ اگر ابو لہب اور ابو جہل جیسے بد فطرت تھے‘ تو حضرت ابو سفیان جیسے بھی تھے، جنہیں بعد میں ایمان کی دولت نصیب ہوئی۔ ان سب مخالفین کے مقابلے میں رسالت مآبﷺ کا اسوہ سر تا پا صبر اور حکمت سے عبارت تھا۔
آپ کبھی کسی سے الجھے‘ نہ تصادم کا رویہ اختیار کیا۔ صبر اور صرف صبر۔ مخالفین نے ترغیب، ترہیب، تادیب، ہر طرح کا رویہ اختیار کیا۔ ایک مرتبہ مکہ کے بڑے بڑے سردار جمع ہوئے اور آپؐ کے سامنے مختلف ترغیبات رکھیں، جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ہم آپ کو بادشاہ بنا لیتے ہیں۔ آپؐ نے صبر کے ساتھ سنا۔ جواباً آپؐ نے جو فرمایا، واقعہ یہ ہے کہ اس سے ایک پیغمبر کی شخصیت مجسم ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ فرمایا: ''مجھے کوئی مرض لاحق نہیں ہے، جیسے تم کہہ رہے ہو۔ نہ میں اپنی بات اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میں تم سے مال، عزت یا اقتدار کا طلب گار ہوں۔ مجھے اﷲ نے تمہاری طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے‘ اور مجھ پر ایک کتاب نازل کی ہے‘ اور مجھے حکم دیا ہے کہ تمہارے لیے بشیر اور نذیر بنوں۔ میں نے اپنے رب کا پیغام تم تک پہنچا دیا ہے‘ اور تمہیں نصیحت کر دی ہے، اگر تم اسے قبول کر لو تو تمہارے لیے دنیا اور آخرت میں خوش نصیبی ہے۔ اگر تم رد کرتے ہو تو میں اﷲ کے حکم پر صبر کروں گا۔ یہاں تک کہ اﷲ میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ فرما دے‘‘۔
یہ ہے اﷲ کے رسولؐ کا اسوہ۔ اس میں تصادم ہے نہ محاذ آرائی۔ جھگڑا ہے نہ انقلاب کی للکار۔ کسی اقتدار کی خواہش ہے نہ کوشش۔ یہ سب قرآن مجید کی ان ہدایات کے مطابق ہے جو آپؐ کو دعوت کے لیے دی گئیں۔ آپؐ سے اﷲ تعالیٰ نے یہی فرمایا کہ اپنی بات نرمی سے کہیں، جاہلوں سے نہ الجھیں اور مصیبت پر صبر کریں۔ یہی سبب ہے کہ آپؐ نے ظلم پر اپنے صحابہ کو ہجرت کے لیے تو کہا لیکن تصادم سے منع کیا۔
اگر تبدیلی کے لیے ایک چھوٹا سا گروہ کافی ہوتا ہے‘ اور اس کے لیے عامۃ الناس کی تائید لازم نہیں تو مکہ میں وہ گروہ وجود میں آ چکا تھا۔ کیا سبب ہے کہ اس کے باوجود اﷲ کے رسول نے ظلم برداشت کیا، ہجرت قبول کی لیکن اس پر آمادہ نہیں ہوئے کہ انقلابی جدوجہد سے اقتدار پر قبضہ کرتے‘ اور پھر سارے سماج کو بدل دیتے؟ تاریخ کا ایک عام طالب علم بھی جانتا ہے کہ اگر کسی کے ساتھ سیدنا عمرؓ جیسا بہادر اور سیدنا حمزہؓ جیسا اﷲ کا شیر ہو، جسے بنی ہاشم جیسے خاندان کی حمایت حاصل ہو‘ اور جس کے ساتھ ابو بکرؓ جیسے معاشرے کے نجیب ترین افراد ہوں، وہ اگر کوشش کرے تو کیا مکہ کے اقتدار پر قبضہ نہیں کر سکتا تھا؟ اﷲ کے رسولﷺ نے مگر ایسا نہیں کیا۔ یہاں تک کہ دعوت کے نتیجے میں مدینہ کی ریاست قائم ہو گئی‘ جہاں بطور حکمران آپ نے بہت سے اقدامات کیے‘ جن میں جہاد بھی شامل ہے۔ اسی لیے میں یہ عرض کرتا ہوں کہ انقلابی جدوجہد کے لیے ہمارے دوست کوئی دوسرا ماخذ تلاش کریں۔ اﷲ کے رسول کی سیرتِ پاک سے انہیں کوئی دلیل نہیں مل سکتی۔
یہ بات اسوہ پیغمبر سے طے ہو گئی کہ تبدیلی کے لیے اگر کوئی نبوی منہج ہو سکتا ہے‘ تو وہ صرف دعوت ہے؛ تاہم اللہ کے رسول کی حیثیت سے آپ کو ایک خصوصی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ یہ غلبہء دین کی ذمہ داری تھی۔ رسولوں کے باب میں اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ لازماً غالب رہتے ہیں۔ (المجادلہ58:20،21)۔ اللہ کے آخری رسول کے بارے میں بھی اس سنت کا ظہور ہونا تھا‘ اور اِسے قرآن نے بیان کر دیا۔ (الصّف61:9)۔ اس سنت کا تعلق عمومی شریعت سے نہیں ہے۔ مدینہ کی ریاست قائم کر نے کے بعد، آپ نے بطور رسول اپنی ذمہ داری ادا کی‘ اور فتح مکہ کے دن اسلام ادیانِ عرب پر غالب آ گیا۔ اس موقع پر بہت سوں کو معاف کر دیا گیا‘ جنہوں نے رسول کی مخالفت میں ہر حد کو پامال کیا، ان پر اللہ کے حکم سے موت کی سزا نافذ کر دی گئی۔ پہلے انہیں چار مہینے کی مہلت دی گئی کہ وہ ایمان لائیں۔ جنہوں نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا ان پر اللہ کا عذاب، اہلِ ایمان کی تلواروں کے ذریعے نافذ کر دیا گیا۔ سورہء توبہ میں اسے بیان کر دیا گیا۔ اسی سبب سے یہ عذاب کی سورہ کہلاتی ہے جس کے شروع میں بسم اللہ نہیں لکھی جاتی۔
یہ اللہ کے رسول کا معاملہ تھا‘ جن کا سامنا کفار سے تھا۔ مسلمانوں کے نظم اجتماعی میں اگر خرابی آ جائے تو اس کے بارے میں دین کی تعلیم کیا ہے، انشااﷲ اگلے کالم میںاس پر بات ہو گی۔