مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی ،یعنی سیاسی نظام کے باب میں دو سوال بنیادی ہیں۔ ایک یہ کہ اسلام کے نزدیک حقِ اقتدار کسے حاصل ہے؟دوسرا یہ کہ حکمران اگر اپنے فرائض سے انحراف کر یں تو عامہ الناس کو کیا کر نا چاہیے؟
پہلے سوال کا جواب ایک گزشتہ کالم میں دیا جا چکاکہ اسلام میں حقِ اقتدار اسی کے لیے ثابت ہے جسے اکثریت کا اعتماد حاصل ہو۔اس کی اساس قرآن مجید کی نص پر ہے کہ'' ان کا نظام باہمی مشورے پر مبنی ہے۔‘‘(الشوریٰ42:38)۔اسی لیے رسالت مآبﷺ نے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ ''ان کے آئمہ قریش میں سے ہوں‘‘۔یہ خبر نہیں راہنمائی تھی ،جس طرح ابن خلدون نے واضح کیا۔ ہمارے ہاں جب خلافتِ عثمانیہ کی حمایت میں تحریک اٹھی تو کچھ علما نے اس حدیث کی بنیاد پر ترکوں کے حقِ اقتدار پر سوال اٹھایا۔ جواباً مو لا ناابوالکلام آزاد نے اسے خبر کہا لیکن مو لانا مو دودی سمیت بہت سے علما نے واضح کیا کہ یہ خبر نہیں ہدایت تھی۔ اس کی و جہ قریش کو حاصل سیاسی عصبیت تھی۔اسی عصبیت کو جاننے کا جدید طریقہ انتخابات ہیں۔اسی لیے میں یہ عرض کر تا ہو ں کہ اسلام کا سیاسی نظام جمہوری ہے۔
اب آئیے دوسرے سوال کی طرف۔ہمارے ہاں حکمرانوں کے فرائض کی تو بہت بات ہوتی ہے لیکن رعایا کے فرائض بہت کم زیرِ بحث آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انقلاب، بغاوت اور اس طرز کے بہت سے تصورات کو قبولیتِ عا مہ ملتی ہے اور اور اہلِ دانش بھی بڑے اہتما م سے انہیں اسلام کی تعلیم کے طور پرپیش کر تے ہیں۔ چونکہ قرآن و سنت سے ان کو کوئی حوالہ نہیں ملتا،اس لیے وہ تاریخی واقعات کو، اپنے نقطہ نظر کے دینی جواز کے طور پرپیش کرتے ہیں۔ دین کی بنیاد قر آن و سنت ہیں۔یہی حق کا پیمانہ ہے۔تاریخ کی ہر شخصیت خود اِس کی محتاج ہے کہ اس کے طرزِ عمل کواس پیمانے پر پرکھا جا ئے۔ یوں بھی بعض اقدامات اجتہادی ہوتے ہیں۔ہم بطورِ مسلمان کسی غیر نبی کے اجتہاد کے پابند نہیں۔
جب مسلمانوں کی رائے سے کوئی حکومت قائم ہو جائے تو اس کے بعد شہریوں پر لازم ہے کہ حکمرانوں کی بات سنیں اور اس کی اطاعت کریں۔اگر وہ انہیں ناپسندہوں تو بھی ان کی اطاعت لازم ہے۔رسالت مآب ﷺ نے فر مایا:''جسے حکمران کی کوئی بات ناگوار گزرے،اسے صبر کر نا چاہیے۔جو ایک بالشت بھی اقتدار کی اطاعت سے نکلا،اور اسی حالت میں مر گیا۔اس کی موت جاہلیت پر ہوگی‘‘۔(بخاری) مسلم کی روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:''تم پر لازم ہے کہ اپنے حکمرانوں کے ساتھ سمع وطاعت کا رویہ اختیار کرو،چاہے تم تنگی میں ہو یا آسانی میں،رضا ورغبت کے ساتھ ہو یا بے دلی کے ساتھ اور اس کے باو وجود کہ تمہارا حق تمہیں نہ پہنچے‘‘۔ایک اور صحیح روایت کے مطابق آپﷺ نے فرمایا: ''میرے بعد تمہارا سابقہ ایسے امرا سے ہوگا جواپنے آپ کو دسروں پر ترجیح دیں گے اور ان کی طرف سے تم ایسی باتیں دیکھ گے جو شریعت کے خلاف منکرہوں گی۔لوگوں نے پوچھا ایسی حالت کے لیے آپ ہم کو کیا حکم دیتے ہیں؟فرمایا تم ان لوگوں کا حق ادا کرنا اوراپنا حق خدا سے مانگنا۔‘‘(بخاری،کتاب الفتن)۔ حکمرانوں کا حق ان کی اطاعت ہے۔کیا کوئی مسلمان یہ باور کر سکتا
ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ لوگوں کو، معاذاللہ، طاغوت کی اطاعت کا حکم دے رہے ہیں؟
رسالت مآب ﷺ نے اس اطاعت پر اتنا اصرار کیوں کیا؟ریاست کی اصل ذمہ داری امن کا قیام اور انسانوں کے جان و مال کا تحفظ ہے۔اگر نظمِ اجتماعی کمزور ہو گا اور آئے دن بغاوتیں اٹھیں گی تو سب سے زیادہ نقصان عام شہریوں کا ہو گا۔زمین فتنے سے بھر جائے گی۔اس امت کی ابتدا ئی تاریخ ہی میں جو خلفشار پیدا ہوا ،اس نے لاکھوں انسانوں کی جان لے لی اور مسلمانوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا یا۔سب سے بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ وہ نیک لوگ مار دیے گئے جو اگر مو جود رہتے تو مسلم سماج ان کے خیرسے فائدہ اٹھاتا۔
یہی وہ مصلحتیں جن کے پیشِ نظر اس امت کے بڑے لوگ، اسلامی معیارسے کم ترحکمرانوں کوبھی گورا کرتے رہے۔امام بخاری کی روایت ہے کہ عبداللہ ابن عمرؓ حجاج بن یوسف کے پیچھے نماز پرھتے تھے۔حجاج کوعبدالملک کی ہدایت تھی کہ مناسکِ حج میں ابن عمر ؓ کی پیروی کرے لیکن امیرِحج وہی ہوتا تھا اور ابن عمرؓ اس کی امامت میں نماز ادا کرتے تھے۔امام مسلم نے روایت کیا کہ مروان نے عید کی نماز پڑھائی لیکن اس خدشے سے کہ کہیں لوگ اس کا خطبہ سنے بغیر نہ اٹھ جائیں، نماز سے پہلے خطبہ دیا۔یہ بدعت تھی لیکن صحابی رسول ابو سعید خدری ؓنے اس کے پیچھے نمازِ عید پڑھی اور محض اس بنیاد پر اس کی اطاعت سے انکار نہیں کیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس اطاعت کی کوئی حد ہے؟کیا لوگ حکمرانوں کے خلاف کبھی نہیں اٹھ سکتے؟جی ہاں، اس کی ایک حد ہے۔یہ خود اللہ کے رسولﷺ نے بیان فرمائی ہے۔اگر حکمران کھلے کفر کا ارتکاب کریں تو ان کے خلاف اٹھا جا سکتا ہے۔یہ اجازت ہے،کوئی حکم نہیں۔فقہا نے دینی تعلیمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے،اس کی تین شرائط بیان کی ہیں۔ایک یہ کہ حکمران کھلے کفر کا ارتکاب کریں۔دوسرا یہ کہ ان کی حکومت استبدادی ہو یعنی جبر سے قائم ہو۔ تیسرا یہ کہ ان کے خلاف اٹھنے والے کو اکثریت کی حمایت حاصل ہو۔یہ شرائط اس لیے ہیں کہ جب بھی کوئی اہلِ اقتدار کے خلاف اٹھے گا،اسے کوئی حکومت ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرے گی۔ یوں قتل وغارت گری ہوگی۔ اگر حکومت کے خلاف اٹھنے والے حکمرانوں سے زیادہ مقبول نہیں ہوں گے تو اس کانتیجہ اس کے سوا ممکن نہیں کہ مار ڈالے جائیں اور اس طبقے کی حکمرانی مزید مستحکم ہو جا ئے۔
اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو یہاں استبدادی حکومت ہے نہ حکمران کفرِ بواح کے مرتکب ہیں۔عوام کویہ حق حاصل ہے کہ وہ انہیں منصبِ اقتدارسے الگ کر دیں۔حکومت پر تنقید کا حق بھی سب کو حاصل ہے۔اس لیے اس کے خلاف انقلاب برپا کرنے کا کوئی جواز نہیں۔یہی سبب ہے کہ مو لانا مو دودی نے جماعت اسلامی کے متعلقین سے کہا:''۔۔ایک آئینی اور جمہوری نظام میں رہتے ہوئے،تبدیلی ء قیادت کے لیے کوئی غیر آئینی راستہ اختیار کرنا شرعاً آپ کے لیے جائز نہیں ہے اور اس بنا پر آپ کی جماعت کے دستور نے آپ کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ آپ اپنے پیشِ نظرانقلاب کے لیے آئینی وجمہوری طریقوں ہی سے کام کریں۔‘‘(تحریکِ اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل)۔مو لانا کی رائے، اس باب میں اس لیے زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ وہ اس ملک میں اسلامی انقلاب کے داعی اوّل تھے۔
مو جودہ حکمرانوں میں بے شمار خرابیاں ہیں۔اہلِ دانش کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کو نمایاں کریں۔اہلِ سیاست کا یہ حق بھی ثابت ہے کہ وہ رائے عامہ کو ہم نوا بناکر انہیںآئینی طریقے سے، اقتدار سے الگ کردیں۔تاہم انہیں طاغوت قرار دینا ایک جسارت ہے جس کی کوئی دینی بنیاد موجود نہیں۔ میں نے اس سلسلہ مضامین میں، 18مئی کو لکھ دیا تھا کہ طاغوت سے کیا مراد ہے؟اختلاف اس اصطلاح کی تفہیم میںنہیں،اس کے اطلاق میں ہے۔امت کے بڑے لوگوں نے حجاج بن یوسف ،منصور عباسی اور ہارون الرشید کوطاغوت نہیں کہا تو میں آصف زرداری اور نوازشریف کو کیسے طاغوت مان لوں؟عباسیوں کا اقتدار استبدادی تھا۔کیاقاضی ابو یوسف ایک طاغوت کے چیف جسٹس تھے ؟
اہلِ دانش سے میری درخواست ہے کہ وہ دینی اصطلاحوں کے غلط اطلاق سے مسلم سماج کو انتشار میں مبتلا نہ کریں۔ہمارے پاس تبدیلی کا ایک پرامن اور آئینی راستہ مو جود ہیں۔ وہ لوگوں کی تربیت کریں کہ وہ اسی کی پابندی کریں۔اس سے حکمران تبدیل کیے جا سکتے ہیں اور سماج کو انتشار سے بھی محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔