انذار اور انقلابی جد وجہدمیں فرق ہے۔
انذار ایک دینی اصطلاح ہے۔اس کا مفہوم آخرت کے باب میں لوگوں کو خبر دار کر نا ہے۔یہ پیغمبرانہ منصب ہے۔اللہ کے رسول نذیر ہوتے ہیں۔وہ لوگوں کوآخرت کی خبر دیتے اور اس کی منادی کرتے ہیں۔ ختم ِنبوت کے بعد یہ مسلمان معاشرے کے ایک طبقے کی ذمہ داری ہے کہ وہ دین کا فہم حاصل کرے اورلوگوں کو انذار کرے(التوبہ 9:122)۔انذار اور دعوت دو اصطلاحیں ہیں جن کا مفہوم یکساں ہے۔ انقلابی جد وجہد کا مطلب یہ ہے کہ حکمران طبقے کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا جا ئے اور ان کو اقتدار سے الگ کرنے کے لیے ایک مہم چلا ئی جا ئے۔اس مہم میں ہر حربے کو روا رکھا جائے جس میں تشدد بھی شامل ہے۔ماضی میں اسی کو خروج کہا جاتا تھا۔
انذار ہر طبقے کو کیا جا ئے گا۔عامتہ الناس کو بھی اور حکمران طبقے کو بھی۔حکمرانوں کے لیے انذار یہ ہے کہ انہیں ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا جا ئے۔انہیں بتا یا جائے کہ حکمرانوں کے لیے دین کا حکم کیا ہے۔انہیں کیسے عوام کی فلاح وبہبود کا خیال رکھنا ہے اورکیسے لوگوں کے درمیان انصاف کر نا ہے۔یہی وہ کلمہ ء حق ہے جسے اللہ کے رسول ﷺ نے سب سے بڑا جہاد کہا۔یہ آسان کام نہیں ہو تا۔ حکمرانوں کو ایسی آوازیں بالعموم پسند نہیں ہوتیں۔ماضی میں جب بادشاہتیں تھیں،ایسی آوازوں کودبانے کے لیے حکمران قوت استعمال کرتے تھے۔ ہمارے اسلاف نے اس کے باوجود کلمہ ء حق کہا۔ اسی سے دعوت و عزیمت کی وہ داستانیں وجود میں آئیں جو قیامت تک ہمارے ان بزرگوں کی عظمت کی گواہی دیتی رہیں گی۔
یہی انذار کی ذمہ داری امام ابوحنیفہ نے ادا کی تو ان کا جنازہ جیل
سے اٹھا۔ یہی ذمہ داری امام مالک نے نبھائی تو ان کی مشکیں کس دی گئیں۔یہی انذار امام احمد ابن حنبل نے کیا توان کی پیٹھ پر کوڑے برسائے گئے۔ان آئمہ نے حکمرانوں کے خلاف کوئی انقلابی تحریک نہیں اٹھائی۔عامتہ الناس کو سڑکوں پہ نہیں لائے۔انہوں نے جب یہ دیکھا کہ حکمرانوں نے لوگوں پر ظلم کیا یا کسی دینی ذمہ داری سے انحراف کیا توانہوں نے با دشاہوں کو ٹوکا۔مثال کے طور پر جب حکمران، ریاستی قوت سے قرآن کو مخلوق ثابت کرنے پر مصر ہوئے تو امام احمد ابن حنبل نے اس پر تنقید کی۔عباسیوں نے جبری طلاق نافذکر نا چاہی توامام مالک نے واضح کیا کہ حکمرانوں کو اس کا حق نہیں۔انہوں نے کبھی کسی حکمران سے بغاوت نہیں کی۔اس کے حقِ اقتدارکو چیلنج نہیں کیا حالانکہ ان کے نزدیک یہ استبدادی حکومتیں تھیں۔یہ رسالت مآب ﷺ کی اس ہدایت کے مطابق ہے کہ معصیت کے کاموں میں حکمرانوں کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔تاہم اس جزوی انکار سے مراد،ان کے حق اقتدار کا کلی انکارنہیں۔
اسی طرح امام ابو حنیفہ عباسیوں کے اقتدار کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ وہ تو بغداد کے بارے میں بھی یہ رائے رکھتے تھے کہ اس کی تعمیر ناجائز ہے کیونکہ یہ شہر ظالمانہ قبضے کی زمین پر کھڑا ہے۔اس کے باو جود وہ انہیں امیرالمومنین ہی کہتے رہے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ حکمرانوں کی غلط بات پر انذار کی ذمہ داری تو بلاشبہ ادا کی جائے گی مگر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جائے گا جو خلقِ خدا کو کسی عذاب میں مبتلا کردے۔ یہ سب اس دور کی بات ہیں‘ جب بادشاہت تھی۔ اہلِ علم نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالا لیکن حق بات کہی۔ یہ میں واضح کر چکا کہ کلمہء حق کہنا کسی حقِ اقتدار کو چیلنج کر نا نہیں ہے۔یہ رویہ قرآن مجید کی ہدایت کے عین مطابق تھا۔قرآن نے انذار کا حکم، طریقہ، اسلوب ، سب واضح کرد یا۔اس سے بڑھ کر کوئی اقدام کر ناان حدود سے تجاوز ہے جوایک عالم کے لیے مقرر کی گئی ہیں۔
انذار صرف حکمرانوں کے خلاف نہیں ہو تا،یہ ہر اس طبقے کے خلاف ہے جو اپنی حدود سے تجاوزکرے اور اپنی ذمہ داریوں سے انحراف کرے۔ اگر دین کی کوئی ایسی تعبیر معاشرے میں رائج ہو جائے جوفساد کا باعث ہے یا دین کے اصل سے انحراف ہے تواس کی غلطی واضح کرنا بھی انذار ہے۔ اگر کسی کے پاس قوت ہے تو وہ مزاحمت کر تا ہے اور انذار کرنے والے کی جان و مال خطرات میں گھر جاتے ہیں۔ جمہوریت کے آنے سے سیاسی حکمرانوں کے خلاف کلمہء حق کہنا اتنا مشکل نہیں رہا جتنا اقتدار کے دوسرے مراکز کے خلاف کلمہء حق کہنا مشکل ہو گیا ہے۔ یہ مراکز ریاستی بھی ہوتے ہیں اور غیر ریاستی بھی۔مذہب کے نام پراٹھنے والی پُرتشدد تحریکوں کے خلاف کلمہ ء حق کہنا کیا آسان ہے؟ہزاروں لوگ اسی جرم میں مار ڈالے گئے۔ ڈاکٹر فاروق خان کو اسی انذار کی وجہ سے شہید کیا گیا۔ جاوید احمد غامدی صاحب کواسی انذار کی وجہ سے ہجرت کرنا پڑی۔ مفتی حسن جان اور مو لانا سرفراز نعیمی نے یہی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اپنی جان دے دی۔
آج اصل امتحان سیاسی حکمرانوں کے خلاف کلمہ حق کہنا نہیں،ان کے خلاف صحیح بات کہنا ہے جن کے ہاتھ میںبندوق ہے۔لوگ سمجھتے ہیں کہ دعوت یا انذار تن آسانی کا نسخہ ہے۔ وہ اگر ان واقعات پر غور کریں گے تو اندازہ ہو گا کہ جس طرح ماضی میں یہ کوئی آسان کام نہ تھا،آج بھی آسان نہیں۔ اسی طرح یہ خیال کیا جا تا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس سے حکمران طبقے کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ یہ تصور بھی غلط ہے۔ جب کوئی صبر کے ساتھ،عزیمت کے راستے پر چلتے ہوئے، یہ ذمہ داری ادا کر تا ہے تو ان کے کام کا معاشرے پر اثر ہوتا ہے۔ مکہ میں سیدنا عمر کو مسلمانوں کے صبر ہی نے پگھلایا۔ امام ابو حنیفہ کے اثرات کا یہ عالم تھا کہ ایک بار عباسی حکمرانوں کو تجویز پیش کی گئی کہ فقہ حنفی کو ریاستی سطح پر قانونی حیثیت نہ دی جائے۔ ایک عاقل وزیر فضل نے کہا کہ حکمران ایسا کبھی نہ سوچیں۔ انہیں ابو حنیفہ کے اثرات کا اندازہ نہیں ہے۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو لوگ انہیں اٹھا باہر پھینکیں گے۔ یہی لوگ تھے جن کے سماجی احترام نے حکمرانوں کو بہت سے ظالمانہ اقدامات سے باز رکھا۔
تاریخ کے یہ واقعات میرے استدلال کی بنا نہیں۔ اس کی اصل قرآن مجید اور اسوۂ پیغمبر پر ہے؛ تاہم تاریخ کے بڑے اہلِ علم کا تعامل بھی اس مقدمے کو مضبوط کر رہاہے۔ اگر آج حکمرانوں کے خلاف اٹھنے کے لیے کوئی دینی جوازپیش کرتا ہے تو لازم ہے کہ اس کی دلیل قرآن مجید میں ہو یا اللہ کے رسول کی سنت اور احادیث میں۔آج دور بدل چکا۔آج ہم جمہوری عہد میں زندہ ہیں۔ سیاسی جدوجہد کا حق سب کو حاصل ہے اور علماکو بھی ابلاغ کے سب ذرائع میسر ہیں۔انہیں ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، حکمرانوں کے خلاف کلمہء حق کہنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ان طبقات کے خلاف بھی جن سے دین اور پاکستان کو خطرات درپیش ہیں۔
(میں اس سلسلہ مضامین کو یہاں ختم کر رہا ہوں۔تاہم کسی تنقیح یا وضاحت کی ضرورت سامنے آئی تو ان مو ضوعات پر مزید بات ہو سکتی ہے۔ یہ کالم محض اس لیے لکھے گئے کہ دورِ حاضرمیں دین کی تفہیم و تشریح کے باب میں، یہ اہم ترین مسائل ہیں جو مسلمانوں کو درپیش ہیں۔ میرا احساس ہے کہ یہ دین کی تعلیمات کو درست تناظر میں نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے جس سے مسلمانوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ یہ دین کے ایک طالب علم کے خیالات ہیں جن میں عدم صحت کا اتنا ہی امکان ہے جتنا صحت کا۔ اس میں اگر کوئی بات غلط لکھی گئی ہے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کہ وہ صحیح بات کی طرف میری راہنمائی کرے؛ تاہم اس پر وہی تنقید قابلِ اعتنا ہوگی جس کی اساس دلیل پر ہو۔ قرآن مجید اور اسوۂ پیغمبر کے مقابلے میں، تاریخ کی کوئی شہادت میرے نزدیک قابلِ قبول نہیں۔)