"KNC" (space) message & send to 7575

مسجد سے کلیسا تک

گوجرہ سے آنے والی ایک خبر نے میری مذہبی اور قومی شناخت کو ایک احساس تفاخر سے نواز دیا ہے۔ مسلمان ایسے ہی ہوتے ہیں۔ پاکستانیوں کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔
بی بی سی کی ویب سائٹ پر یہ باتصویر کہانی موجود ہے۔ گوجرہ کی ایک نواحی بستی میں مسیحی آبادی کے لیے پہلا گرجا گھر تعمیر ہو رہا ہے۔ اس کے معمار صرف مسیحی نہیں مسلمان بھی ہیں۔ ان میں ایک اعجاز فاروق بھی ہے۔ وہ مسجد سے باجماعت نماز ادا کر کے نکلتا اور اس زیرِ تعمیر عمارت کا رخ کرتا ہے۔ اپنے ہاتھوں سے اینٹیں اٹھاتا،گارا بناتا اور کلیسا کی تعمیر میں لگ جاتا ہے۔ مسلمانوں اور مسیحیوں نے مل کر پچاس ہزار روپے جمع کیے اوراس پیسے سے اس عبادت گاہ کی دیواریں اٹھا دی ہیں۔ وہ پر امید ہیںکہ جلد 'سینٹ جوزف چرچ ‘خواب سے حقیقت میں ڈھل جائے گا۔ گوجرہ آپ کو یاد ہوگا، وہی علاقہ ہے جہاں 2009ء میں ، مسیحی آبادی ایک عذاب سے گزری تھی۔ اُن کے گھر اور عبادت گاہیں جلا دی گئی تھیں اور ان فسادات نے دس افراد کی جان لے لی تھی۔
پاکستان کی ایک تصویر وہ بھی تھی۔ ایک یہ ہے۔ کون سی بہتر ہے؟ اگر سینے میں دل اور عقل سلیم ہو تو فیصلہ کرنا مشکل نہیں۔ پاکستان کو ایسا ہی ہونا چاہیے جیسے اعجاز فاروق کی بستی ہے۔ قائداعظم نے اسی پاکستان کا خواب دیکھا تھا جہاں مذہبی بنیادوں پر کسی کے ساتھ امتیازی معاملہ نہ ہو۔ جہاں ریاست لوگوں کے مذہب کے بجائے ان کی فلاح و بہبود کی طرف توجہ دے۔ ریاست کو اس سے دلچسپی ہونی چاہیے کہ لوگ جس مذہب کو بھی مانتے ہوں، اس پہ عمل کرنے میں آزاد ہوں۔ ریاست اس بات کی ضامن ہو کہ کسی پر مذہبی جبر نہ ہو اور بنیادی حقوق کے باب میں ان کے مابین کوئی امتیاز نہ روا رکھا جائے۔
قائداعظم نے یہ کہاں سے سیکھا تھا؟ عہد حاضر کی سیکولر روایت سے نہیں،اسلام کی تعلیمات سے۔14اگست 1947ء کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے توقع کا اظہار کیا کہ پاکستان مغل بادشاہ اکبر کی جمہوری اور مذہبی احترام پر مبنی روایت کا تسلسل ہو گا۔ قائداعظم نے تصحیح کی کہ ان کے نظامِ فکر میں، ان خیالات کا ماخذ اکبر نہیں رسالت مآب ﷺ کی تعلیمات ہیں جنہوں نے تیرہ سو سال پہلے، مسلمانوں کو یہ آداب سکھا دیے تھے۔ قائداعظم کی11اگست کی تقریر بھی، معلوم ہوتا ہے کہ میثاق مدینہ کی روشنی میں لکھی گئی۔ الفاظ تک کی یکسانیت سے یہ بات یقین کے درجے کو پہنچ جاتی ہے۔
ایک زندہ معاشرے کی ایک خصوصیت یہ ہو تی ہے کہ وہ اقلیتوں کو قومی وجود کا حصہ بنا دیتا ہے۔ اُن کی اپنی شناخت برقرار رہتی ہے مگر اس طرح کہ وہ ایک اجتماعی شناخت سے متصل رہتی ہے۔ ساری دنیا میں افراد ایک سے زیادہ شناختوں کے ساتھ جیتے ہیں۔ مذہب، نسل، ملک، یہ مختلف شناختوں کے عنوان ہیں۔ لازم نہیں کہ یہ شناختیں ایک دوسرے سے متصادم بھی ہوں۔ ہمارے ہاں لوگ یہ بے معنی سوال اٹھادیتے ہیں کہ ہم پہلے مسلمان ہیں یا پاکستانی۔ اسلام ایک شناخت ہے اور پاکستان بھی۔ اسلام کی شناخت اس وقت نمایاں ہو تی ہے جب معاملہ مذہبی ہو۔ پاکستان کی شناخت اس وقت اٹھتی ہے جب معاملات کا دائرہ قومی ہو۔ پاکستان ایک قومی شناخت ہے جو مذہبی نہیں ہے۔ اس لیے مسلمان اور غیرمسلم اس شناخت کے حوالے سے ایک پرچم تلے کھڑے ہیں۔ اس میں وہ ہم راز بھی ہیں اور ہم نفس بھی۔
رمضان میں فردکی ایک شناخت نمایاں ہوتی ہے، اگر وہ مسلمان ہے۔ دسمبر میں، اس پر ایک مذہبی شناخت کا غلبہ ہوتا ہے، اگر وہ مسیحی ہے۔ پاکستان کی شناخت ان دونوں میں حائل نہیں۔ میں تو بطور مسلمان اسے اپنی مذہبی شناخت کا حصہ سمجھتا ہوں کہ میرا وجود ایک مسلم اور غیر مسلم، دونوں کے لیے بلا امتیاز باعثِ خیر ہو۔ اعجاز فاروق جب باجماعت نماز کے بعد ایک گرجا گھر کی تعمیر میں شریک ہوتا ہے تو اس کا خیر کا وہ سفر جو مسجد سے شروع ہوا،گرجے تک اس کے ساتھ جاری رہتا ہے۔ اس کے لیے مسجد میں اجر ہے اور گرجے میں بھی۔ وہ پوری بستی کو مسجد بنا دینا چاہتا ہے جہاں سب کے لیے امن ہو۔
خدا کی سکیم یہ ہے کہ اس زمین پر عبادت گاہیں قائم رہیں۔ اس کا ناگزیر نتیجہ ایک سے زیادہ مذاہب کا وجود ہے۔ مذاہب ہوںگے تو عبادت گاہیں بھی ہوںگی۔ اہلِ فساد چاہتے ہیں کہ عبادت گاہیں بر باد ہو جا ئیں۔ خدا کا قانون مگر ان کے راستے میں حائل ہو جا تا ہے۔ جب ایک قوم حد سے تجاوزکرتی اور عبادت گاہوں کو برباد کر تی ہے تو اللہ تعالیٰ اقتدار اس سے چھین کر، اسے دوسری قوم کے حوالے کر دیتا ہے۔ ''اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا تو خانقاہیں، گرجے، معبد اور مسجدیں، جن میں کثرت سے اللہ کا نام لیا جا تا ہے، سب ڈھادیے جاتے‘‘۔(الحج22:40)۔ جو لوگ عبادت گاہوں کی تعمیر اور آبادی میں حصہ دار بنتے ہیں وہ گویا اللہ تعالیٰ کی سکیم میں شریک ہیں۔
ایسی خوش کن خبروں کے ساتھ مگر تکلیف دہ اطلاعات بھی آ جا تی ہیں، جیسے اٹک میں ایک قادیانی ڈاکٹر کا قتل۔ غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے بعد، ہم قادیانیوں کو قومی وجود کا حصہ نہیں بنا سکے۔ اُن کے لیے بھی مناسب یہی تھا کہ وہ اجتماعیت کا فیصلہ کم از کم قانونی سطح پر قبول کرتے۔ اگر انہیں اعتراض تھا تو وہ ایسا راستہ اختیار کرتے جس کی قانون میں گنجائش ہے۔ جب وہ آئین کو ماننے سے انکار کرتے ہیں تو پھر معاملے کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ تاہم اس کے باوجود، ان کا خون مباح ہوتا ہے نہ ان کا مال۔ اگر اکثریت اپنا دل کھلا کرتی تو انہیں قومی وجود میں سمو سکتی تھی۔ ان کے ساتھ صحت مندانہ مکالمہ ہوتا اوران کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہوتا تو شاید ان کی نئی نسل آج اپنی پاکستانی شناخت پر فخر کر رہی ہوتی۔ امریکہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ امریکہ کو melting potکہا جاتا ہے۔ ایک ایسا پیالہ جس میں سب اپنے وجود کو گم کر دیتے ہیں۔ وہاں ہر اقلیت مو جود ہے مگرایک قومی وجود کا حصہ ہے۔ اس کے ساتھ اس کی انفرادی شناخت بھی باقی ہے۔
ہمیں جہاں ریاست اور مذہب کے باہمی تعلق پر نئے سرے سے غور کی ضرورت ہے وہاں ہمیں اپنے سماجی رویوں پر بھی نظر ثانی کرنا ہوگی۔ اگر معاشرے میں جان ہو تو وہ بہت سے مسائل پرقابو پانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سماجی کی مضبوطی، سماجی روایات کی مضبوطی سے وابستہ ہے۔ مذہبی رواداری ایک سماجی قدر ہے۔ یہ مسلم روایت کا حصہ ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس باب میں جو اسوہ چھوڑا ہے، اس میں ہمارے لیے بہت روشنی ہے۔ قادیانیوں کے مسئلے کے قانونی پہلو سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، ہم معاشرتی قوت کی بنیاد پر،کیا انہیں اپنے سماج کا حصہ نہیں بنا سکتے؟ کیا ہم انہیں خوف کی اس فضا سے نکال نہیں سکتے جس میں وہ اس وقت رہ رہے ہیں؟
گوجرہ کے مسلمانوں نے ہمیں ایک راستہ دکھایا ہے۔ یہ راستہ مسجد سے نکلتا اور کلیسا تک جا تا ہے۔ ہم چاہیں تو اسے دوسری عبادت گاہوں تک بڑھا سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ منزل آ جائے جب پاکستان بھی ایک ایسا پیالہ بن جائے جس میں سب انفرادی شناخت کے ساتھ شامل ہوں لیکن ایک دوسرے سے خوف زدہ نہ ہوں، ایک دوسرے کے لیے باعثِ خیر ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں