اردو صحافت کا ایک دبستان ہے جو جناب الطاف حسن قریشی سے معنون ہے۔ ہم اسے ایک روایت کا تسلسل بھی کہہ سکتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اس دبستان کی معنویت اسی وقت نمایاں ہوتی ہے، جب ہم اسے ایک روایت کے تسلسل میں دیکھتے ہیں۔
مجھ پر اﷲ کے ان گنت احسانات ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ میں ایک عالمِ دین کے گھر پیدا ہوا۔ اس عہد کی روایت کے مطابق، میرے والد گرامی عالم تھے اور حکیم بھی۔ میری پیدائش سے بہت پہلے، دو رسائل باقاعدگی سے گھر آتے تھے۔ 'مولوی‘ اور 'الحکیم‘۔ ایک علم دین کا ترجمان تھا‘ اور دوسرا طب کا۔ پھر 'خدام الدین‘ اور 'چٹان‘ آنے لگے۔ یہ روایت جب میرے بڑے بھائی تک پہنچی تو اس فہرست میں 'اردو ڈائجسٹ‘ اور 'زندگی‘ بھی شامل ہو گئے۔ اسی دوران میں ممتاز ماموں 'ادارہ معارف اسلامی‘ کراچی پہنچے۔ پھر 'چراغ راہ‘ اور 'اسوہ‘ بھی آنے لگے۔ میں نے شعور کی آنکھ کھولی تو یہ روایت میرے چاروں طرف بکھری ہوئی تھی۔ یوں الطاف حسن قریشی، میرے لیے کبھی اجنبی نہیں رہے۔
میرے والد مسلکاً دیوبندی تھے۔ بایں ہمہ قدرت نے وسعت نظر سے نوازا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور اقبال سے بھی تعلق خاطر رکھتے تھے۔ میرے پاس آج بھی 'ارمغان حجاز‘ کا وہ نسخہ تبرکاً محفوظ ہے جو انہوں نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا۔ خوش خطی اس دور میں تعلیم کا باضابطہ حصہ تھی۔ اسی وسیع الظرفی کی وجہ سے مولانا مودودی کی کتابیں ہمارے گھر میں کبھی ممنوع نہیں رہیں۔ عالم اور علم کا احترام یوں میری وراثت ٹھہری۔ 'اردو ڈائجسٹ‘ اور 'زندگی‘ میرا ماضی نہیں، میرا بچپن ہے۔ یوں کہنا چاہیے کہ قریشی صاحب سے شناسائی دو نسلوں سے ہے۔ اردو ڈائجسٹ، اس روایت کا تسلسل ہے جس کا آغاز 'الہلال‘ سے ہوا۔ ایک خوش قلم نے مقصد اور اسلوب کو یوں جمع کیا کہ دونوں میں جدائی مشکل ہو گئی۔ ابوالکلام کی بات میں زیادہ کشش ہے‘ یا اسلوب میںِ، یہ طے کرنا آسان نہ تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ معاملہ نور علیٰ نور کا تھا۔ اردو صحافت کی تاریخ اسی طرح آگے بڑھی۔ پاکستان بننے کے بعد اسی روایت کو شورش کاشمیری، قریشی برادران اور جناب مجیب الرحمٰن شامی جیسے لوگوں نے آگے بڑھایا۔ ہماری نسل تک یہ روایت اردو ڈائجسٹ نے منتقل کی۔ ان حضرات نے یہ ذمہ داری جس خوبی سے نبھائی ہے اس کا اعتراف میری نسل پر واجب ہے۔
اردو ڈائجسٹ، اردو صحافت میں جہاں ایک روایت کا تسلسل ہے، وہاں دور حاضر کے رجحانات کو بھی اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ الطاف حسن قریشی صاحب نے روایت اور جدت کو جمع کر دیا۔ یوں وہ اردو صحافت کے مجتہد قرار پائے۔ اسی وجہ سے اردو صحافت کا ایک دبستان، ان سے منسوب ہو گیا۔ ان کی وجہ سے جو عصری رجحانات ہماری صحافت کا حصہ بنے، ان میں انٹرویو نگاری کی جدید روایت بھی ہے۔ اوریانافیلیسی نے 'تاریخ سے انٹرویو‘ کیا تو اس اطالوی خاتون نے انٹرویو نگاری میں ایک نئی طرح ڈالی۔ میرا احساس ہے کہ جناب الطاف حسن قریشی نے پہلی بار اس عصری تجربے کو اردو کی روایت کا حصہ بنا دیا۔ 'ملاقاتیں کیا کیا‘ انہی روایت ساز انٹرویوز کا مجموعہ ہے جو اردو ڈائجسٹ میں شائع ہوئے۔ آج بھی یہ انٹرویوز اتنے تر و تازہ ہیں کہ ان پر پرانا ہونے کا گمان نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ قریشی صاحب کا اسلوب اور عہد شناسی ہے۔
یہ انٹرویوز تاریخ ہیں اور صحافت بھی۔ ادب ہیں اور خیال بھی۔ میں نے کتاب اٹھائی تو اپنی افتادِ طبع کے زیرِ اثر، پہلے مولانا مودودی، مولانا ظفر احمد انصاری، مولانا غلام رسول مہر، ڈاکٹر سید عبداللہ، قدرت اللہ شہاب اور پروفیسر حمید احمد خان کے انٹرویوز پڑھے۔ پھر اہلِ سیاست کی باری آئی۔ ان انٹرویوز میں اس حوالے سے تنوع ہے کہ علم، ادب، بین الاقوامی سیاست، قومی سیاست اور سماجی خدمت سے متعلق نمایاں شخصیات کو جاننے اور ان کے کام سے متعارف ہونے کا موقع ملتا ہے۔ قریشی صاحب نے ان پر جو حواشی لکھے ہیں، ان سے جہاں ان کا تاریخی تناظر واضح ہوتا ہے، وہاں ان خواتین و حضرات کا دورِ حاضر سے بھی ایک رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ انٹرویو ماضی کا ایک باب ہی نہیں، ہماری علمی، ادبی اور سیاسی زندگی کی مسلسل داستان بھی ہیں۔ ایئر مارشل اصغر خان کا انٹرویو 1967ء میں لیا گیا‘ جب وہ پی آئی اے کے چیئرمین تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں وہ اسلام کی مذہبی اور تہذیبی اقدار سے کیسے وابستہ تھے۔ یہ قریشی صاحب کے حواشی سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اس کے بعد سیاست میں کیسے آئے‘ اور تحریک استقلال تک کا سفر کن مراحل سے گزرا۔ ان کی نظریاتی قلبِ ماہیت کیسے ہوئی؟ مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ جسٹس پارٹی کا نام الطاف حسن قریشی صاحب کا تجویز کردہ تھا۔
ان انٹرویوز کی ایک خاص بات قریشی صاحب کا وسعتِ مطالعہ ہے۔ انہیں یہ معلوم ہے کہ مولانا مودودی سے کیا سوال پوچھنا چاہیے‘ اور وہ کن مسائل پر خامہ فرسائی فرما چکے ہیں۔ وہ غلام رسول مہر سے ملنے سے پہلے، اس سے واقف ہیں کہ سید احمد شہید اور غالب سمیت، کن موضوعات پر انہوں نے کیا لکھا ہے۔ وہ قدرت اللہ شہاب کے انٹرویو سے پہلے ان کے ادبی کام سے واقف ہیں۔ وہ سلمان ڈیمرل سے انٹرویو کرتے ہیں تو ترکی کی تاریخ اور وہاں جاری سیاسی و نظریاتی کشمکش سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ یوں اس کتاب میں جہاں ایک عام قاری کے لیے قیمتی معلومات ہیں، وہاں نئے صحافیوں کے لیے سیکھنے کا بے پناہ سامان بھی ہے۔ اس سے یہ راز کھلتا ہے کہ اگر آج الطاف حسن قریشی ایک دبستانِ صحافت کا عنوان ہیں تو یہ محض اتفاق نہیں ہے۔ ؎
رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزہء فن کی ہے خون جگر سے نمود
ان انٹرویوز کی خاص بات قریشی صاحب کا اسلوب ہے۔ یہ اسلوب اردو صحافت اور ادب میں، مولانا ابوالکلام آزاد کے زیر اثر مقبول ہوا۔ الفاظ کا شکوہ اور بیان کا مبالغہ، اس کے اہم ترین اجزائے ترکیبی ہیں۔ الطاف صاحب نے اس روایت میں اپنی انفرادیت قائم کی۔ معاصرین اور بعد میں آنے والوں نے ان کی تقلید کرنا چاہی اور حسبِ توفیق اپنا رنگ جمایا۔ 1960ء کی دہائی میں یقیناً یہ ایک بہت مقبول اندازِ تحریر تھا؛ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ، اس تاثر میں کمی آتی گئی۔ اب تحریر کا حسن الفاظ کے شکوہ اور مبالغے سے زیادہ قوتِ ابلاغ سے پرکھا جاتا ہے۔ وہ تحریر زیادہ خوب صورت ہے جس میں ابلاغ کی قوت زیادہ ہے؛ تاہم آج بھی ایک طبقہ موجود ہے جو ایک رومانوی مزاج رکھتا‘ اور تحریر میں بھی اسی رومانویت کو پسند کرتا ہے۔ یوں اس اسلوب کو متروک کہنا مشکل ہے۔
اس سے یہ گمان نہیں ہونا چاہیے کہ قریشی صاحب کے ہاں اسلوب کو ابلاغ پر فوقیت حاصل ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ جس بات کو جس طرح قاری کو ذہن نشین کرنا چاہتے ہیں، وہ اسی طرح پڑھنے والے کی سوچ کا حصہ بن جاتی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ایک رائے ساز صحافی ہیں۔ یہ واقعہ ہے کہ قریشی برادران نے مجیب الرحمٰن شامی اور سجاد میر جیسے اہلِ قلم کے ساتھ، ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں نظریاتی معرکہ اس شان سے لڑا کہ میدان ان کے ہاتھ رہا۔ وہ آج بھی موجود ہیں لیکن صحافت میں ان کے نظریاتی حریف کہیں دکھائی نہیں دیتے۔
''ملاقاتیں کیا کیا‘‘ اس عہد کی ایک چشم دید گواہی ہے جس نے 'بعد از نوآبادیت‘ جنم لیا۔ بین الاقوامی سیاست نے کیا کروٹیں بدلیں، قومی سیاست میں کیا موڑ آئے، علم و ادب میں کن رحجانات نے جنم لیا، اگر آپ جاننا چاہتے ہیں تو انٹرویوز کے اس مجموعے سے صرفِ نظر ممکن نہیں۔ برادرم فرخ گوئندی اور ان کے ادارے 'جمہوری پبلیکشنز‘ کا شکریہ کہ انہوں نے خوش ذوقی کے ساتھ، ماضی کو حال سے جوڑ دیا۔