میں ٹیلی وژن نہیں دیکھتا۔ اسباب ہر ذی شعور پر واضح ہیں۔ اقبال ہوتے تو میڈیا پر وہی تبصرہ کرتے جو انہوں نے مدرسہ اور خانقاہ پر کیا تھا: ع
نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ
کبھی کوئی دوست کسی پروگرام کے بارے میں متوجہ کرے تو الگ بات ہے، جیسے حمداﷲ صاحب اور ماروی سرمد صاحبہ کا مناظرہ۔ ان دنوں سحری کے وقت بالخصوص، بچے ٹی وی لگا دیتے ہیں۔ دو روز پہلے ایک چینل پر طالب علموں کے درمیان معلومات کا مقابلہ تھا۔ کچھ دیر دیکھا تو اپنی تعلیمی حالت پر شدید صدمہ ہوا۔ یہ صدمہ اگرچہ نیا نہ تھا کہ بارہا ایسے صدمے اٹھائے ہیں۔ اس پروگرام نے مگر میرے چودہ طبق روشن کر دیے۔ یہ کراچی یونیورسٹی سمیت، تین جامعات کے طلباء تھے۔ دو سوالات سے ان کی معلومات کا عالم ملاحظہ کیجیے۔ ان سے پوچھا گیا کہ لینن اور سٹالن کے ناموں سے کس ملک کا تصور ذہن میں آتا ہے؟ کوئی ٹیم اس کا جواب نہ دے سکی۔ سوال کیا گیا: برصغیر کی کس نامور سیاسی اور مذہبی شخصیت نے 'ہمدرد‘ کے نام سے اخبار جاری کیا؟ جواب ملا 'حکیم محمد سعید‘۔ اس پروگرام میں کوئی ٹیم کسی ایک سوال کا درست جواب نہ دے سکی۔ ایک ٹیم کے دو جواب درست قرار پائے، جن میں دو ناموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ قسمت نے ساتھ دیا اور ایک ٹیم نے صحیح نام بتا دیا۔ قسمت کی یاوری سے یوں ایک ٹیم 'فاتح‘ قرار پائی۔
چند روز پہلے ایسے ہی ایک پروگرام میں سکول کی ایک استانی سے پوچھا گیا: پارلیمنٹ تو اسلام آباد میں ہے، سینیٹ کہاں ہے؟ جواب ملا: فیصل آباد میں۔ میزبان نے پوچھا: فیصل آباد میں کہاں؟ بتایا گیا: گھنٹہ گھر کے بائیں طرف۔ میرا جامعات کے اساتذہ سے بھی میل جول رہتا ہے اور ان کے ساتھ پی ایچ ڈی اور ایم فل کے طلبا و طالبات سے بھی۔ واقعہ یہ ہے کہ اکثر ملاقاتوں کا حاصل صدمے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ تعلیم کا معاملہ اتنی سنگین صورت اختیار کر چکا کہ مجھے اس ملک کے بارے میں خدشات لاحق ہونے لگے ہیں۔ جن کے علم و فضل کا یہ عالم ہے، کل جب زمام کار ان کے ہاتھ آئے گا تو اس ملک کا کیا بنے گا، یہ سوچ کر ہی روح لرز جاتی ہے۔
تعلیم کا یہ حال کیوں ہوا؟ اسباب ان گنت ہیں۔ ذمہ دار کوئی ایک نہیں۔ رمضان سے چند روز پہلے پشاور یونیورسٹی کے ایک سیمینار میں، میں نے ایک سوال اٹھایا تھا: یہ تعلیم ہے جو ایک قوم کی ترجیحات کا تعین کرتی ہے یا یہ قومی ضروریات ہیں جن سے تعلیم کی ترجیحات کا تعین ہوتا ہے؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جسے ہم مخاطب نہیں بنا سکے۔ تعلیم کے بارے میں ترجیحات کا تعین ریاست کر سکی نہ معاشرہ۔ ریاست نے اسے مادی ضروریات سے وابستہ کرنا چاہا اور اس میں بھی ناکام رہی۔ سیکولر علم کی ایک مثال میں نے آپ کے سامنے رکھ دی۔ اخلاقی اور روحانی تعلیم کی ذمہ داری معاشرے نے اٹھانے کی کوشش کی۔ اس کا مظہر دینی مدرسہ ہے۔ اس کے اثرات سے آج معاشرہ اور ریاست دونوں نمٹ رہے ہیں۔ مادی تعلیم نے ہمیں ماروی سرمد اور دینی تعلیم نے ہمیں حمداﷲ دیے۔ اس کے بعد وہی کچھ ہونا تھا جو ٹی وی ٹاک شوز میں ہو رہا ہے۔
معاشرے اور ریاست کے باہمی تعلق پر بارہا بات ہو چکی۔ مکرر عرض ہے کہ معاشرہ نظام اقدار سے قائم رہتا ہے اور ریاست قانون سے۔ پھر یہ کہ ریاست معاشرے کا ضمنی ادارہ ہے۔ معاشرہ اپنی اقدار کے بارے میں حساس ہو تو ریاست کی حکمتِ عملی میں، اس کا ظہور ہوتا ہے۔ ریاست جب تعلیم کی حکمت عملی بناتی ہے تو عام طور پر دو باتوں کا لحاظ رکھتی ہے۔ یہ کہ تعلیم اس کے نظام اقدار سے وابستہ رہے اور ان کا شعور آنے والی نسلوں کو منتقل ہوتا رہے۔ دوسرا یہ کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں، معاشرے کو جتنے ماہرین کی ضرورت ہے، نظام تعلیم ان کی فراہمی کا اہتمام کرے۔ دنیا کے ہر مہذب معاشرے میں ریاست ان دو باتوں کا خیال رکھتی ہے۔ صدر اوباما آئے دن یہ کہتے ہیں کہ ہم کسی کو اپنا نظام اقدار برباد نہیں کرنے دیں گے۔ یہ نظام کیا ہے، اس سے اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن اس طرح کے بیانات سے یہ ضرور واضح ہو جاتا ہے کہ ریاست اپنی معاشرتی اقدار کے بارے میں حساس ہے۔
پاکستان میں بدقسمتی سے تعلیم کبھی ریاست کی ترجیح نہیں رہی۔ اس کے بعد وہ فکری پراگندگی ناگزیر ہے، معاشرہ اس وقت جس کا شکار ہے۔ ایک آئینی ترمیم کے بعد، تعلیم اب صوبائی معاملہ ہے۔ اس کے باوجود مرکزی حکومت اس پر مذہبی طبقات کی داد سمیٹ رہی ہے کہ قرآن مجید کی تعلیم، تعلیمی اداروں میں لازم کر دی جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ جب نصاب سازی صوبوں کا کام ہے تو مرکزی حکومت یہ کام کیسے کر سکتی ہے؟ دوسرا یہ کہ مرکز کے زیر اہتمام چند اداروں میں آپ ایسا کر بھی دیں تو اس سے معاشرے کے کتنے حصے تک یہ خیر پہنچ سکے گا؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزارتِ مذہبی امور بھی اس کا کریڈٹ لینا چاہتی ہے۔ معلوم نہیں کس حیثیت میں؟
یہ بات کہ معاشرے کا ایک نظام اقدار ہوتا ہے اور اسے باقی رکھے بغیر اجتماعی شناخت کا تعین ممکن نہیں، کسی کے پیشِ نظر نہیں۔ ریاست کا حال میں بتا چکا۔ معاشرے میں مدرسے نے مذہبی تعلیم کی ذمہ داری اٹھائی‘ جو اخلاقی اقدار کے فروغ کا روایتی اور فطری ادارہ تھا۔ آج ہم بچشمِ سر دیکھ سکتے ہیں کہ مدرسے نے معاشرے کو کیا دیا؟ فرقہ واریت، مسلکی شناخت اور مذہبی سیاسی جماعتوں کو کارکنوں کی فراہمی۔ اہلِ مدرسہ نے مسجد کو آباد رکھا‘ لیکن اسے ایک مسلکی ادارہ بنا دیا۔ مدرسہ قائم رکھا مگر اسے فرقہ واریت کا ماخذ بنا دیا۔ نظام اقدار کی بقا اور اس کا استحکام کسی تعلیمی نظام کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔
ریاست کی ناکامی اس سے واضح ہے کہ وہ تعلیم کو اقدار سے الگ کرنے کے باوجود معاشرے کو ماہرین بھی نہیں دے سکی۔ طب جیسے چند شعبوں میں ہمارا معیارِ تعلیم اطمینان بخش ہے، ورنہ عمومی طور پر وہی حال ہے جس کے ایک مظہر کا، میں نے ابتدا میں ذکر کیا۔ سماجی علوم میں حالات زیادہ خراب ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست اور معاشرہ، دونوں ان کی اہمیت کا انکار کرتے ہیں۔ ان علوم کو نظر انداز کرنے کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کا سماجی مطالعہ انتہائی ناقص ہے۔ ہمارے پاس وہ ماہرین ہی نہیں ہیں‘ جو سماجی ارتقا اور روایت کے عمل کو اپنے سماجی پس منظر میں سمجھ سکیں‘ اور پھر اصلاحِ احوال کے لیے کوئی راہ عمل دے سکیں۔ دنیا بھر میں یہ ذمہ داری عام طور پر جامعات کے پروفیسرز ادا کرتے ہیں۔ ہم نے جب سماجی علوم کو نظر انداز کیا تو اس کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ ایسے تجزیے سے پھوٹا ہوا حل کتنا پائیدار ہو گا۔ یہ تعلیم کو نظام اقدار سے جدا کرنے کا نتیجہ ہے کہ ہم وہ شہری پیدا نہیں کر سکے جو ہمارے نظامِ اقدار کا مظہر ہوں۔ سماجی علوم سے بے اعتنائی کا نتیجہ یہ ہے کہ عطائی اب قومی امراض کا علاج تجویز کر رہے ہیں۔ تعلیمی معیار کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ یہ جواب ہے کہ 'سینیٹ فیصل آباد میں ہے‘۔
اس سال کے پی کے حکومت نے اپنے بجٹ کا کم و بیش24 فیصد تعلیم کے لیے مختص کیا ہے۔ پنجاب میں یہ 15 فیصد ہے۔کے پی کے حکومت اس پر تحسین کی مستحق ہے۔ اچھا ہو گا اگر وہ اس سال نظام تعلیم کو نظامِ اقدار سے وابستگی اور معیار کی بہتری سے مر بوط کر سکے۔ یقیناً یہ ایک بڑی خدمت ہو گی۔