مذہب پر گفتگو کیوں مشکل ہوتی جا رہی ہے؟
اخباری کالم علمی مباحث کے متحمل نہیں ہوتے۔ حالات حاضرہ پر ہلکا پھلکا تبصرہ ہی پسند کیا جاتا ہے اور کالم نگار بالعموم اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ میرا کہنا یہ ہے کہ جب رائے سازی کا بوجھ بڑی حد تک صحافت کے کندھوں پر آ پڑا ہے تو پھر اخباری کالم کو اپنے روایتی پیرہن سے نکلنا ہو گا۔ مقبولیت کو قربان کرتے ہوئے ، لکھنے والوں کو موضوعات میں تنوع لانا ہو گا۔ عوامی ذوق کی تعمیر بھی تو صحافت کی ذمہ داری ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں سطحیت کا غلبہ ہے اور نیم خواندگی کو دانش کے نام سے پیش کیا جا رہا ہے۔ ا س کا نتیجہ عوامی ذوق کی مسلسل پستی ہے۔ معاشرہ جب اس راہ پر چل نکلے تو پھر علم کے گل و لالہ کے بجائے جہل کے جھاڑ جھنکاڑ پر لپکتا ہے۔ یوں سیاست ہو یا مذہب ، اس کا انتخاب نیم خواندہ افراد ہوتے ہیں۔ معاشرے کی سیاسی و مذہبی قیادت جب ایسے لوگوں کو منتقل ہو جاتی ہے تو معاشرتی زوال کو روکنا ممکن نہیں رہتا ۔ اس فضا کو اگر بدلنا ہے تو پھر رائے سازاداروں اور طبقات کو روایتی دائرے سے نکلنا ہو گا۔ قوم کو درپیش مسائل کا سنجیدہ تجزیہ کرنا ہو گا یہاں تک کہ سیاسی و مذہبی قیادت اعلیٰ درجے کے افراد کو منتقل ہو جائے۔
مذہب پر گفتگو اگر مشکل ہوتی جا رہی ہے تو اس کا بنیادی سبب ایک ہی ہے۔ مذہب عقل اور اپنے مقصد ِحقیقی، تزکیۂ نفس سے کٹ کر جذباتی اور سیاسی عصبیت بن گیا ہے۔ عقل سے جدائی کے بعد مذہبی مباحث میں دلیل بے معنی ہو گئی ہے۔ اب جذبات اور تاثرات حاکم ہیں۔ تزکیۂ نفس سے کٹنے کا نتیجہ یہ ہے کہ مذہب، اخلاقیات سے بھی غیر متعلق ہو گیا ہے۔ مذہبی حلقوں میں تہمت تراشی، بلا تحقیق باتوںکی تشہیر اور بہتان سازی روزمرہ بن چکے ہیں۔ افسوس در افسوس یہ ہے کہ لوگ اسے گوارا کرنے لگے ہیں۔ اب غیرت ایمانی یا دینی حمیت کا معیار علم و اخلاق نہیں، محض یہ ہے کہ کوئی مذہبی عصبیت میں کتنا بلند آہنگ ہے۔
مذہب جب دلیل اور عقلی استدلال سے غیر متعلق ہوا ہے تو اس کے چند نتائج ناگزیر ہیں۔ سب سے بڑا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ مذہب اور مذہب کے سماجی مطالعہ(Sociology of Religion) کے فرق کو نظر انداز کرتے ہیں۔ مذہب اور مذہب کے سماجی و سیاسی کردار پر لکھنے والوں میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو اس فرق کو ملحوظ رکھتا ہو۔ آج اگر مذہب پر گفتگو مشکل ہوتی جارہی ہے تو اس کا بڑا اور اہم ترین سبب یہی ہے۔
مذہب اور مذہب کا سماجی مطالعہ دو مختلف علوم ہیں۔ مذہب ایک اللہیاتی مقدمہ رکھتا ہے۔ اس مقدمے کی تفہیم کے اپنے آداب ہیں۔ اگر مذہب سے مراد اسلام ہو تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اسلام کے مطالعے کے لیے اسلام کے بنیادی ماخذ تک رسائی ناگزیر ہے۔ قرآن و سنت کا علم اس کی پہلی ضرورت ہے۔ یہ علم دینی متون سے لے کر ، ان کی تفہیم پر مبنی صدیوں کی روایت تک رسائی پر محیط ہے۔ تفسیر، علمِ حدیث، علم فقہ اصل ہیں پھر علوم آلیہ ہیں۔ یعنی وہ علوم جو ان ماخذ تک رسائی کے لیے آلات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسے عربی زبان کے قواعد، صرف ونحو،جرح و تعدیل کے اصول اور بہت سے علوم جو آج بھی دینی تعلیم کے اداروں میںپڑھائے جاتے ہیں۔اسلام کیا ہے، ضروریات دین سے کیا مراد ہے، تفسیر کے اصول کیا ہیں،حدیث وسنت میں کیا فرق ہے،روایت اور درایت سے کیا مراد ہے،استنباطِ احکام کے اصول کیا ہیں،شوافع اور احناف میں اختلاف کی نوعیت کیا ہے،جو آ دمی ان امور کا علم رکھتا ہے، وہی یہ حق رکھتا ہے کہ مذہب پر گفتگو کرے۔جو ان علوم سے واقف نہیں،اس کا پورا امکان ہے کہ وہ دین کے باب میں گفتگو کرتے وقت ٹھوکر کھا جائے۔
مذہب کا سماجی مطالعہ، مذہب سے بالکل مختلف ایک مضمون ہے۔اس میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک معاشرے کی نظریاتی اور اداراتی تشکیل میں مذہب کا کر دار کیا ہے۔یہ اصلاً سماج کا مطالعہ ہے، مذہب کا نہیں۔ اس کے لیے یہ جاننا لازم نہیں ہے کہ فقہ حنفی کے اصول کیا ہیں یا شوافع کا ان کے ساتھ اختلاف کیا ہے۔اگر کوئی یہ سب جانتا ہے تو یہ سونے پر سہاگہ ہے۔یقیناً اس سے مذہب کا سماجی کردار سمجھنے میں مدد ملے گی،تاہم یہ اس کے بنیادی لوازم میں سے نہیں ہے۔
مذہب کے سماجی مطالعے کی روایت مسیحیت میں بہت مستحکم ہے۔درخیم کو اس علم کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔1897ء میںاس نے جب خودکشی پر معرکہ آرا تحقیق کی تو اس مسئلے کو اس زاویے سے بھی دیکھا کہ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عقیدہ رکھنے والوں میں اس کی شرح کیا ہے۔اس سے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ خود کشی کے رجحان پروان چڑھنے میں مذہبی عقائد کا کیا کردار ہے۔جرمن فلاسفر اور ماہرِ عمرانیات میکس ویبر نے اپنی غیر معمولی علمی تصنیف 'سرمایہ داری کافروغ اور پروٹسٹنٹ اخلاقیات‘ میں اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ ٹروٹسٹنٹ اخلاقیات کی مقبولیت کاسرمایہ دارانہ نظام کے عروج میں کیا کردار ہے۔مارکس اور اینجلز نے مذہب ا ور معیشت کے باہمی تعلق پر لکھاا ور جونتائجِ فکرمرتب کیے، انہوں نے مذہب کے سیاسی و اجتماعی کردار پر اثرات ڈالے۔
مسلمان معاشروں میں مذہب کے عمرانی مطالعہ کی روایت مقبول نہیں ہو سکی۔اس کی وجہ مذہب کو علمی روایت اور عقلی استدلال سے الگ کر نا ہے۔یہاں جب کسی نے مذہب کا سماجی مطالعہ کر نا چاہا اور اس کے نتیجے میں مذہب کا کوئی منفی پہلو سامنے آیا تو لوگوں نے اسے مذہب دشمنی پر محمول کیا۔یوں بہت کم لوگ اس کا حو صلہ کر پائے۔مثال کے طور پر ہمارے ہاں 1979ء میں حدود قوانین نافذ ہوئے۔آج اگر کوئی یہ مطالعہ کرتا ہے کہ ان قوانین کے نتیجے میں اخلاقی جرائم میں کمی آئی یا اضافہ ہوا،پولیس کے نظام کو ان قوانین نے کیسے متاثر کیا،سماجی نفسیات پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے، تو یہ مذہب کا سماجی مطالعہ ہوگا۔اس کا مذہبی مباحث سے کوئی تعلق نہیں۔اسی طرح اگر کوئی جائزہ لیتا ہے کہ ریاست کو مذہب سے متعلق کرنے کا نتیجہ کیا ہے تویہ بھی مذہبی سوال نہیں ہے۔اگر کوئی سماجی مطالعے کی روشنی میں یہ کہتا ہے کہ اس کا فائدہ نہیں، نقصان ہوا توکوئی دوسرا محقق اس سے اختلاف کر سکتا ہے۔وہ ان نتائج کو چیلنج کر سکتا ہے یا ان کے اسباب کو۔تاہم یہ بھی ایک سماجی مطالعہ ہوگا، مذہبی نہیں۔یہ دو الگ علوم ہیں اور ان کے اصول وضوابط بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
ہمارے ہاں جب کوئی سماجی مطالعے کی بنیاد پریہ کہتاہے کہ ریاست کو مذہب سے متعلق کرنے کا نقصان ہوا تو جواب میں اسے قرآن مجید کی آیات سنائی جاتی ہیں۔یہ خلط ِمبحث ہے۔اس سے ہم لوگوں کے جذبات مشتعل کرتے ہیں اور یوں اسے مذہبی بحث بنادیتے ہیں۔حالانکہ یہ مذہب کا نہیں سماجی مطالعے کا موضوع ہے۔اگر کوئی یہ کہے کہ ریاست کا قیام دینی فریضہ ہے تو یہ مذہبی مقدمہ ہے۔اس میں لازم ہوگا کہ اس مقدمے کے حق میں یا مخالفت میںدینی نصوص پیش کیے جائیں۔ان دنوں بھی میڈیا میں اگر مذہب کی بحث الجھ گئی ہے تو اس میں بھی بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ مذہب اور عمرانیاتِ مذہب کا فرق نظر انداز ہو رہا ہے۔
مذہب پر گفتگومشکل تر ہو تی جائے گا،اگر ہم نے مذہب کوعقل اور اخلاقیات سے جدا رکھا۔میرے لیے تویہ باور کرنا ممکن نہیں کہ اخلاقیات کے بغیر مذہب کا وجود ثابت کیا جا سکتا ہے۔