اہلِ مذہب اور اخلاق میں بُعد پر مجھے تشویش تو تھی لیکن آج یہ ایسی وسیع و عریض خلیج بن چکی ہے کہ نا قابلِ عبور دکھائی دے، اس کا اندازہ مجھے گزشتہ چند دنوں میں ہوا۔ روایتی اہلِ مذہب کو تو چھوڑیے کہ ایک طویل تاریخ اس المیے کا بیان ہے، صالح قیادت کے علم بردار، فروغِِ کذب میں انہیں بھی مات دے دیں گے، سچ پوچھیے تو اس کا میں نے کبھی گمان بھی نہیں کیا تھا۔ اس کا ایک مظہر میرے گزشتہ کالم پر بعض حضرات کا ردِ عمل ہے۔
کالم کاموضوع تھا پیپلزپارٹی کی سیاست۔ عددی اعتبار سے کم یا زیادہ، اس ملک میں ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو لبرل اقدار پر یقین رکھتا ہے۔ پیپلزپارٹی سیاست میں ان کی نمائندگی کر تی ہے۔ یہ لبرل طبقہ 1970ء کی دہائی میں سوشلزم پر یقین رکھتا تھا۔ بھٹو صاحب نے 'اسلامی سوشلزم‘ کے نام سے اس فکر کی ایسی تعبیر پیش کی جو لبرل طبقے کے ساتھ، پاکستان کے عوام کے لیے بھی قابلِ قبول ہو۔ آج یہ طبقہ سیکولرازم کا علم برادر ہے۔ میں نے لکھا کہ اگر بلاول کے لیے کوئی سیاسی لائحہ عمل ہو سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ وہ اُس طبقے کو مخاطَب بنائے جو پیپلز پارٹی سے مایوس ہوچکا لیکن ہنوز کسی قیادت کے انتظار میں ہے۔ ماضی کی روشنی میں اگر وہ 'اسلامی سوشلزم‘ کی طرح 'اسلامی سیکولرزم‘ کے علم برادر بن کر کھڑے ہو جائیں تواس طبقے کو قیادت فراہم کرسکتے ہیں۔ یہ ایک طرح سے اصل پارٹی کا احیا ہوگا۔ میں یہ بات پہلے بھی لکھتا رہاہوں۔ مثال کے طور پر 4 اپریل2016ء کو بھٹو صاحب کی برسی پر میں نے لکھا: ''(پیپلزپارٹی)کے پاس صرف ایک راستہ ہے کہ وہ لبرل طبقے کو سیاسی قیادت فراہم کرے۔ اس ملک میں جو لوگ، معیشت سے لے کر سماج تک، لبرل اقدار کا فروغ چاہتے ہیں، ان کے پاس کوئی سیاسی فورم نہیں۔ پیپلزپارٹی ان کا فطری مرکز بن سکتی ہے‘‘۔
یہ ایک سیاسی تجزیہ ہے جس کا کوئی تعلق میرے اپنے نظریات سے نہیں ہے۔ سیاسی معاملات پر لکھنے والے، اپنے تجزیوں میں اس نوعیت کے جائزے لیتے رہتے ہیں۔ میں خود ماضی میں اس طرح کے کئی تجزیے لکھ چکا۔ ماضی قریب میں، جب نوازشریف صاحب نے لبرل ازم کی اصطلاح استعمال کی تو میں نے اسی بنیاد پر، اُن پر نقد کی تھی۔ میری دلیل یہ تھی کہ مسلم لیگ پاکستان میں تاریخی اعتبار سے جس سیاسی اور سماجی روایت کی نمائندہ ہے، وہ اصلاً مذہبی ہے، لبرل نہیں۔ پاکستان کے مذہبی طبقے نے پیپلزپارٹی کی لبرل سیاست کے خلاف انہیں اپنا راہنما مانا ہے۔ اسی وجہ سے جماعت اسلامی سے ہمدردی رکھنے والا ووٹ بینک1993ء میں جماعت سے ناتا توڑ کر ان سے آ ملا تھا۔ لہٰذا آج ان کے لیے درست لائحہ عمل یہ ہے کہ وہ لبرل بننے کے بجائے اس طبقے کی نمائندگی کریں جو انہیں اپنا لیڈر سمجھتا ہے اور وہ لبرل نہیں، جوہری طور پر مذہبی ہے، تاہم مقامی تہذیبی قدروں پر یقین رکھتا ہے۔ طویل اقتباسات سے کالم بوجھ ہو سکتا ہے۔ جو لوگ اس نکتے کو تفصیل سے سمجھنا چاہییں وہ 'دنیا‘ کی ویب سائٹ پر یہ کالم پڑھ سکتے ہیں۔ یہ اسی سال27 فروری کوشائع ہوا۔
میرے اپنے خیالات کیا ہیں، میں اس پر بیسیوں مرتبہ لکھ چکا۔ یہ عقلی طور پر ممکن نہیں کہ جومیرے کالموں کا مستقل قاری ہے، وہ میرے خیالات سے لاعلم ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زیرِ بحث کالم سے صرف ایک دن پہلے29 جون کو جو کالم شائع ہوا وہ لبرل ازم کے رد میں تھا۔ کئی لوگوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ میں نے اوریا صاحب کی حمایت کیسے کردی۔ میں نے ان پر واضح کیا کہ اس باب میں مجھے ان کی بات سے اتفاق ہے۔ رہا ان کا مجموعی فہم ِدین تو میںاُس پر تفصیل سے لکھ چکا۔ میں نے بارہا لکھا کہ میں ایک مذہبی آ دمی ہوں جو اقدار کی الہامی رویت پر یقین رکھتا ہے۔ میرے یہ تمام کالم 'دنیا‘ کی ویب سائٹ پر مو جود ہیں۔ تاہم مجھے دین کی مروجہ تفہیم کے بہت سے پہلوئوں سے اختلاف ہوتا ہے اور وہ میں دلیل کے ساتھ بیان کر دیتا ہوں۔ میری بات سے اتفاق کا جتنا امکان ہے، اتنا ہی اختلاف کا امکان ہے۔ میں لبرل ازم اور لبرل رویے میں فرق کرتا ہوں۔ لبرل ازم ایک تصورِ حیات ہے جس طرح مذہب۔ لبرل رویہ کا تقابل ہم انتہا پسند رویے سے کرتے ہیں۔ یہ فرق واضح رہے تو میری بات کی تفہیم میںکوئی مشکل نہیں رہتی۔
اس پس منظر کے باوجود ایک صاحب نے لکھا کہ میرے اس کالم نے ایک پورے مکتبۂ فکرکو بے نقاب کر دیا کہ یہ اصلاً لبرل ازم کے حامی ہیں۔ میرے نزدیک اخلاق اور خدا کے ہاں جواب دہی کا ادنیٰ احساس بھی اس تبصرے کی اجازت نہیںدے سکتا۔ اس لیے مجھے اہلِ مذہب اور اخلاق میں پیدا ہونے والے اُس بعد پر حیرت ہوئی۔ سچ پوچھیے تو صدمہ ہوا۔ رمضان کے آخری عشرے میں ایک مسلمان بھائی کے لیے کم ازکم حسن ِظن بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔ پھر یہ بھی رمضان کے آخری عشرے میں ہوا کہ ایک مذہبی آدمی نے اپنے نام کے ساتھ ایک طویل انٹرویو تراشا، اسے ایک عالمِ دین سے منسوب کیا اور پھر سوشل میڈیا کے ذریعے اس کی تشہیر کی۔ توجہ دلائی گئی تو اپنی حرکت پر اصرارکیا۔
اہلِ اسلام کے ساتھ اصل المیہ یہ نہیں ہوا کہ ان پر دوسری اقوام غالب آگئیں۔ ہمارے ساتھ حادثہ یہ ہوا کہ ہمارا اخلاقی وجود بر باد ہو گیا۔ مذہب اور اخلاق کا باہمی تعلق باقی نہیں رہا۔ میں اپنے سیاسی وجود کے بارے میں حساس ہوں۔ اپنے تہذیبی وجود کے بارے میں حساس ہوں۔ اپنی مسلکی شناخت کے بارے میں حساس ہوں۔ اپنی مذہبی عصبیت کے بارے میں حساس ہوں۔ اگر نہیں تواپنے اخلاقی وجود کے بارے میں حساس نہیں۔ اہلِ دانش کو اس کا سراغ لگانا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا؟ میں یہاں انفرادی اخلاقیات سے زیادہ اجتماعی اخلاقیات کی بات کر رہا ہوں، اگرچہ ان کی اہمیت بھی کسی طرح کم نہیں۔ انفرادی معاملہ تو بندے اور خدا کا معاملہ ہے، اجتماعی اخلاق بر باد ہو جائیں تو سماج کا اخلاقی وجود باقی نہیں رہتا۔ پھر حسن ِظن کی جگہ
بدگمانی، محبت کی جگہ حسد، ہمدردی کی جگہ خود غرضی اور اجتماعی مفاد کی جگہ شخصی مفاد کا راج ہوتا ہے۔ اس کا اجتماعی نتیجہ فکری پراگندگی اور نفسیاتی روگ ہے۔ ہر کوئی دوسرے سے بدگمان ہوتا ہے اور انسانوں کے مابین فاصلے بڑھنے لگتے ہیں۔
ہمارے ساتھ یہ المیہ کیوں ہوا؟ میرے نزدیک اس کے دو بڑے اسباب ہیں۔ ایک وہ معاصر تعبیرات ہیں جنہوں نے ہماری ترجیحات کو بدل ڈالا۔ اسلام کا سیاسی غلبہ مطلوب ٹھہرا اوراس کا جوہر، تزکیہ ِنفس پس منظر میں چلا گیا۔ تزکیہ اخلاقی تعمیر سے ہوتا ہے۔ جب تزکیہ مقصودِ حقیقی نہ رہا تو پھر فرد اخلاقیات کے باب میں حساس نہیں رہا۔ آج میری مذہبی حساسیت کے سارے پیمانے خارجی ہیں، داخلی کوئی نہیں۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ ہمارے روایتی سماجی ادارے، خاندان، خانقاہ ، مسجد اور مدرسہ زوال کا شکار ہوگئے۔ انہوں نے اپنااصل وظیفہ چھوڑ دیا۔ ان میں تشویش ناک انحطاط آیا۔ ان اسباب سے جس المیے نے جنم لیا، اس کا بعض مظاہر کی طرف میں اس وقت اشارہ کر رہا ہوں۔
میرے نزدیک اس وقت بحث یہ نہیں کہ 'اسلامی سیکولرزم‘ کی اصطلاح درست ہے یا نہیں، بحث اس اخلاقی رویے کی ہے جو اس باب میں روا رکھا گیا۔ اس کی سنگینی ہر بحران سے شدید ترہے۔ تاہم میں چاہوں گا کہ ان اصطلاحوں پر علمی گفتگوہو۔ مذہب اور ریاست و سیاست کا باہمی تعلق اس وقت نئی تفہیم کا متقاضی ہے۔ میں اس پر ابھی غور و فکر کر رہا ہوں۔ میں انشا اللہ اپنا فہم اس کالم میں بیان کروںگا۔ تیونیسیا سے اس کا آ غاز ہو چکا۔ دیکھیے یہ کس نہج پہ آگے بڑھتا ہے۔'اسلامی سیکولرازم‘ کی اصطلاح بھی ایک پس منظر رکھتی ہے، لیکن اس پر بحث پھر کسی وقت۔
(پس تحریر: ڈاکٹرعظمیٰ صاحبہ نے مریم نواز صاحبہ سے معذرت کر لی۔ یہ ان کی اخلاقی بر تری کی دلیل ہے۔کیا عمران خان اور طلال چوہدری صاحب کو بھی یہ توفیق ملے گی؟ قوم کے راہنما تو یہ ہیں۔ مسئلہ تواس سوالیہ نشان کا ہے جوان کی اخلاقیات کے سامنے ہے۔)