عظمت ایک انسان پر اس طرح ٹوٹ کر برسی کہ خدا کی زمین جل تھل ہوگئی۔ ایک تن ِخاکی میں ایسا کیا تھا کہ خدا نے انسانوں کے دل اس کی طرف پھیر دیے؟
یہ ان کے بے غرضی تھی۔ اجر کی پروا نہ تمنا۔ انہوں نے اولادِ آدم کی بے لوث خدمت کی۔ انسانوں کو بلا تفریقِ مذہب و نسل خدا کا کنبہ سمجھا۔ ان کے لیے خود کو وقف کیے رکھا اور بدلے میں کچھ نہیں چاہا۔ میں اپنی تاریخ میں صرف ایک آ دمی کو جانتا ہوں جو ان جیسا تھا۔ یہ سر سید احمد خان تھے۔ اپنی ذات سے بے نیاز۔ سراپا خدمت۔ قوم کی بہتری کے لیے اپنے وجود کو مٹا ڈالا۔ سر سید کوقوم کے لیے بھیک مانگنا پڑی تو کشکول اٹھا لیا۔ سفید داڑھی کے ساتھ ناچنا پڑا تو ان کا نحیف بدن لہرا اٹھا۔ بے غرضی کا عالم یہ تھا کہ دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے کھاتے میںاتنے پیسے نہ تھے کہ کفن خریدا جا سکتا۔ چندہ جمع ہوا اور قوم کے محسن کو کفن ملا۔ اس طرح کا آدمی ہم نے اگر پھر دیکھا تو عبدالستار ایدھی کے روپ میں۔ بے لوث کا مطلب اگر کوئی جاننا چاہے تو اسے سر سید کی تصویر دکھا دینی چاہیے یا پھر ایدھی کی۔
یہی بات ایدھی کو معاصرین میں ممتاز کرتی ہے۔ انہوں نے انسانی خدمت کو کسی صلے سے آلودہ نہیں ہو نے دیا۔ اس معاشرے میں اس طرح کی اور بہت سے کوششیں ہوئیں۔ یہ تمام کوششیں، الا ماشااللہ، ابتدا میں یا بعد میں، کسی پس پردہ مقصد سے جوڑ دی گئیں۔کسی نے اس سے اسلامی انقلاب برپا کرنا چاہا۔ کسی نے اس کو مجاہدین کی تلاش کے لیے استعمال کیا ۔کسی نے اس کی بنیاد پر قوم سے ووٹ مانگے۔ کسی نے چاہا کہ ہسپتال کے بدلے میں اسے وزارتِ عظمیٰ کا منصب عطا کر دیا جائے۔ میں نے دیکھا کہ جب تک یہ کوششیں کسی خواہش سے آلودہ نہیں تھیں، عوام نے ان کو بھی وہی پزیرائی بخشی جو ایدھی صاحب کو ملی۔
عمران خان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ قوم نے اُن کی امانت اور دیانت پر اندھا اعتماد کیا۔ ہر کسی نے ان کی آواز پرلبیک کہا۔ مسلم لیگ کی حکومت نے لاہور میں جگہ دی۔ پشاور کا رخ کیا تو اے این پی کی حکومت نے بھی جگہ دے دی۔ ہسپتال غیر متنازع قومی منصوبہ قرار پایا۔ اس میں شبہ نہیں کہ عمران نے اس اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچنے دی۔ ہسپتال کے معاملات سے خود کو ہر طرح سے الگ رکھا۔ پھر دوسرا دور آیا جب انہوں نے سیاست میں قدم رکھا۔ جب ہسپتال بن رہا تھا تو اس طرح کا کوئی خیال ان کے ہم رکاب نہیں تھا۔ دوسرے دور میں انہوں نے ہسپتال کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کیا۔ یوں عمران خان، سرسید اور ایدھی کے دائرے سے باہر نکل گئے۔ اب وہ متنازع ہوئے تو ہسپتال بھی اس کی زد میں آ گیا۔
ایدھی صاحب کو بھی ایک مرحلے پر سیاست کا خیال آیا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ انہوں نے جلد رجوع کر لیا، ورنہ ہم ایسی عظیم الشان مثال سے محروم ہو جاتے۔ انہوں نے خدمت کو کسی دوسرے اچھے یا برے مقصد سے آلودہ نہیں ہو نے دیا۔ انہوں نے خدا کے بندوں کا ذمہ اٹھایا اورپھر ان کی عزت، رزق اور دوسرے معاملات کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے اٹھا لیا۔ یہ اس کا وعدہ ہے۔ بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ اللہ کے آخری رسول سیدنا محمد ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگا رہے گا تو خدا اس کی ضرورت پوری کرنے میں لگا رہے گا اور جو کسی مسلمان کی کسی مصیبت کو دور کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کی مصیبتوں میں سے کسی مصیبت کو اس سے دور کرے گا‘‘۔ پھر یہ بھی ارشاد ہوا: اللہ اپنے بندے کی مدد میں اس وقت تک لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔(ترمذی)
ایدھی کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ انہوں نے سماج میں موجود نیکی اور بدی کے خود ساختہ پیمانوں کو بدلا۔ ہمارے معاشرے میں ان بچوں کو برا سمجھا جاتا ہے جومرد و زن میں کسی معاہدہ نکاح کے بغیر دنیا میں آتے ہیں۔ ایک مرد اور عورت کے جرم کی سزا ایک معصوم کو دی جاتی ہے۔ ایدھی نے اپنے عمل سے سمجھایا کہ سزا کا حق دار بچہ نہیں، والدین ہیں۔ بچہ نفرت کا نہیں، ہمدردی کا مستحق ہے۔ وہ اسی طرح معصوم ہے جس طرح ہمارے گھروں میں پیدا ہونے والے بچے۔ ان کی ذمہ داری معاشرے کو اٹھانی چاہیے۔ انہوں نے لوگوں کو زباِن حال سے تلقین کی کہ ایک جرم کے بعد دوسرا جرم نہ کرو جو اس سے سنگین تر ہے۔ یہ انسانی جان کا قتل ہے۔ انہوں نے ایسے بچوں کی کفالت کا ذمہ لیا اور یوں نیکی اور بدی کے ان پیمانوں کی اصلاح کرنا چاہی جو ہم نے بنا رکھے ہیں، خدا اور رسولؐ کی کسی سند کے بغیر۔
ایدھی نے یہ بھی سکھایا کہ مدد کا تعلق مستحق ہونے سے ہے، مذہب و نسل سے نہیں۔ جب انسان کی مدد کی جاتی ہے تو یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس کا رنگ کیسا ہے، اس کا علاقہ کون ساہے، اس کا تعلق کس مذہب سے ہے۔ جو بات قابلِ توجہ ہے وہ اس کی ضرورت ہے۔ ایدھی معروف معنوں میں ایک مذہبی آ دمی نہیں تھے مگر ان کی ذات اور کاموں سے مذہب کی روح نمایاں ہوتی ہے، جیسے دنیاوی آسائشوں کو مطمح ِنظر نہ بنانا۔ دنیاوی لذتوں سے بے نیازی۔ اسی طرح ان کے کاموں میں بھی مذہب کی روح ہے۔ مثال کے طور پر مذہب نے بھی مدد کو ضرورت سے وابستہ کیا ہے، مذہب اور نسل سے نہیں۔ قرآن مجید نے زکوٰۃ کے مستحقین کا ذکر کیا تو اسمائے صفات استعمال کیے، جیسے فقیر، مسکین، مسافر۔ اب ان کا تعلق کسی بھی نسل اور کسی بھی مذہب سے ہو سکتا ہے۔ اسی طرح پڑوسی کے حقوق بیان کیے تو مذہب یا رشتہ داری کی قید نہیں لگائی۔
ایدھی صاحب اگر چہ سادہ مزاج آ دمی تھے مگر یہ بات اچھی طرح سمجھتے تھے کہ سماجی کارکن کو سیاست سے دور رہنا چاہیے۔ سیاست متنازع بناتی ہے۔ سماج کی خدمت کے لیے ضروری ہے کہ خود کو تنازعات سے دور رکھا جائے۔ ہمارے ہاں یہ نظریہ مقبول رہا ہے کہ جو لوگ اپنی سماجی خدمت کے باعث معاشرے میں عزت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں، انہیں ملا کر سیاسی جماعت بنائی جائے تو اسے کامیابی ملے گی۔ عوام ٹوٹ پڑیں گے۔ سیاسی جماعتیں بھی یہ خیال کرتی ہیں کہ اگر ہم اس طرح کی شہرت رکھنے والوں کواپنی پارٹی میں لے آئیں اور انتخابات میں کھڑا کر دیں تو اس سے زیادہ ووٹ مل سکتے ہیں۔ یہ سیاسی حرکیات سے بے خبری کی دلیل ہے۔ اس سے سیاسی فائدے کا تو کوئی امکان نہیں، البتہ اس سے معاشرے کو اس فلاحی کام سے ضرور محروم کیا جا سکتا ہے جو جاری ہے۔
ایدھی صاحب کے ایک انٹر ویو سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں نے انہیں بے نظیر حکومت کے خاتمے کے لیے استعمال کرنا چاہا۔ انہوں نے انکار کیا اور یہ فیصلہ ان کی دانش کی دلیل ہے۔ اس سے پہلے پیپلز پارٹی نے حکیم محمد سعید مرحوم کو بھی اسی طرح استعمال کرنے کی کوشش کی جب 1977ء میںانہیں مجبور کیا گیا کہ وہ قومی اتحاد کے مقابلے میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات میں کھڑے ہوں۔ پیپلزپارٹی کو اس سے کیا فائدہ ہونا تھا، حکیم صاحب کی شہرت کو البتہ ضرور نقصان پہنچا۔ ضیاالحق صاحب نے بھی اسی طرح بہت سے نیک لوگوں کو مجلس شوریٰ کا حصہ بنا کر خراب کیا۔
ایدھی آج اگر انسانوں کی محبت کا محور ہیں تو اس کی وجہ ان کا بے لوث ہونا اور تنازعات سے دور رہنا ہے۔ انہوں نے خدا کی شان ربوبیت سے فیض اٹھایا۔ جس طرح وہ بلا امتیاز رنگ و نسل اور علاقہ و مذہب، انسانوں کی کفالت کرتا ہے، ایدھی صاحب نے چاہا کہ وہ بھی خدا کا بندہ بن کر بلا امتیاز سب کی خدمت کریں۔ وہ خدا کے بندوں کی خدمت میں لگے رہے اور خدا نے لوگوں کے دلوں کو ان کی محبت سے بھر دیا۔