ریاست کا مزاج بدلا ہے نہ حریت پسندوںکا۔ توکیا مقبوضہ کشمیر میں انسانوں کا لہو یوں ہی بہتا رہے گا؟جمہوری انقلاب اور انسان کے فکری ارتقا کا اہلِ کشمیر کو کیا فائدہ پہنچا؟
اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں کشمیریوں کے لیے کچھ نہیں۔یہ ایک سراب ہے۔ معلوم نہیں کیوں لوگ جانتے بوجھتے اسے پانی قرار دینے پر مصر ہیں۔ ان قراردادوں کے مطابق کشمیر پاکستان اوربھارت کا باہمی تنازع ہے۔ اقوامِ متحدہ اسی وقت مداخلت کر سکتی ہے جب دونوں فریق چاہیں۔ اب بھارت کیوں چاہے گا؟ ان قراردادوںکا جس شیڈول سے تعلق ہے، اس کے مطابق اقوامِ متحدہ مشرقی تیمور یا سوڈان کی طرح براہ راست مداخلت نہیں کر سکتی۔ ہم اس فورم سے وہ مطالبہ کر رہے ہیں جو موجودہ صورتِ حال میںاس کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ اقوام ِ متحدہ تو کشمیریوں کو فریق نہیں مانتی۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت دنیاکی عدالت میں کشمیر کا وکیل کون ہے؟
پاکستان؟ پاکستان خود ایک فریق ہے اور وہ اس مسئلے کو اپنے تناظر میں دیکھتا ہے۔ بطور ریاست پاکستان کے کچھ مفادات ہیں۔ اس کی ترجیح کشمیر نہیں پاکستان ہے۔ اہلِ کشمیر سے اس کا قلبی تعلق فطری ہے۔ اہلِ کشمیر کی ایک بڑی تعداد پاکستان سے محبت کرتی اور اسے اپنا مددگار سمجھتی ہے۔کشمیر کا ایک حصہ پاکستان کے پاس ہے۔ یوں پاکستان کی طرف اہلِ کشمیر کا رجحان فطری ہے۔ پھر بھارت نے جس طرح کشمیریوں کو ہمیشہ غیر سمجھا اور ان کے ساتھ ایک قابض ملک کا سلوک کیا،اس کے بعد پاکستان ہی ان کاانتخاب ہو سکتا ہے۔ اس کے باوجود، پاکستان کشمیر کو اپنے مفادات کے تناظر میں دیکھے گا۔ بطور ریاست، یہ اس کی مجبوری ہے۔
ایک مثال سے بات واضح ہو جائے گی۔ اہلِ کشمیر کی موثر مدد کا ایک طریقہ وہ ہے جو 1948ء اور پھر 1990ء کی دہائی میں اختیار کیا گیا۔ رضا کارکشمیری حریت پسندوں کی مدد کریں۔ پاکستان میں غیر ریاستی گروہوں اورتنظیموں کو یہ ذمہ داری سونپ دی جائے۔ یوں ان کی معاونت سے، مقبوضہ کشمیر میں ایک داخلی مزاحمتی تحریک اٹھادی جائے جو ایک مسلح بغاوت کا روپ دھار لے۔ یہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کشمیر میں بھارت کو ایسی سٹریٹیجک مشکل میں ڈال دیا جا ئے کہ وہ پاکستان کی شرائط پر معاملہ کرنے پر مجبور ہو جائے۔ یہ مشرف صاحب نے کارگل میںکرکے دیکھ لیا۔ چند روز پہلے میجر جنرل خالد نعیم ایک ٹی وی شو میں میرے ساتھ تھے۔ انہوں نے آن ریکارڈ بتایا کہ خود فوج کی قیادت کے نزدیک یہ فیصلہ
بے بصیرتی کا مظہر تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نوازشریف صاحب جنرل مشرف کے کہنے پر امریکہ گئے اور مدد کی درخواست کی کہ پاکستان کو اس مشکل سے نکالا جائے۔
یہ دونوں تجربات بتا رہے ہیںکہ بطور ریاست ہمارے پاس کشمیریوں کی براہ راست مدد کا راستہ موجود نہیں ہے۔ اب وہ دن بھی نہیں ہیںکہ مقبوضہ کشمیرکے لوگ بڑی تعداد میں ہجرت کریں اور پاکستان اس صورت حال سے اس طرح فائدہ اٹھائے جیسے بھارت نے مشرقی پاکستان کے حالات کو بہانہ بناتے ہوئے، مشرقی پاکستان میں اپنی فوج داخل کر دی تھی۔ آپریشن جبرالٹر کے بعد، یہ واضح ہو چکا کہ جنگ کے محاذکو ہم اپنی خواہش کے مطابق محدود نہیں رکھ سکتے۔ جنگ پھیل سکتی اور نتیجتاً ہمارے قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔ پاک بھارت جنگ ایک بھیانک خواب ہے جس کی تعبیر سے ہر ذی عقل کو خوف زدہ ہونا چاہیے۔
اب آئیے سفارتی محاذ پر۔ ہم جانتے ہیںکہ حالات ہمارے لیے سازگار نہیں۔ امریکہ ہم سے خوش نہیں۔ افغانستان اور ایران جیسے ہمسائے بھی ناراض ہیں۔ سعودی عرب اور ترکی جیسے دوستوں کو اپنی پڑی ہے۔ چین کو اگر دلچسپی ہے تو اپنی سرمایہ کاری سے۔ وہ اسے کسی طرح ضائع نہیں ہونے دے گا۔ پاکستان اگر کشمیر کا مسئلہ سفارتی سطح پر اٹھاتا بھی ہے تو ان حالات میں مشکل ہے کہ اسے موثر حمایت مل سکے۔ پھر یہ کہ وہ اسے اپنے ریاستی مفادات کی روشنی ہی میں اٹھائے گا۔ دنیا حق و انصاف کی بنیاد پر نہیں، مفادات کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہے۔ اس وقت مجھے دکھائی نہیں دیتا کہ دنیا کو کوئی ملک بھارت کو ناراض کرتے ہوئے، پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ ہمارے کشمیری بھائیوں نے آخر کس کے بل بوتے پر، ایک بار پھر مزاحمتی تحریک اٹھائی ہے؟جب دنیا حق وانصاف کی بنیاد پر فیصلہ کرنے پر آمادہ نہیں، جب پاکستان اپنے ریاستی مفادات سے آزاد ہوکر ان کی مدد نہیں کر سکتا تو پھر یہ نوجوان بھارت کی ریاست کا سامنا کیسے کریں گے؟ 1990ء کی دہائی میں اٹھنے والی تحریک کا نتیجہ کیا رہا؟ ان گنت شہادتیں، لاکھوںگھروںکی بربادی اور اداسی کے تاریک سائے۔ میرے لیے بڑا آسان ہے کہ پاکستان کے ایک پرامن شہرکے ایک ٹھنڈے کمرے میںبیٹھ کر آزادی کے گیت لکھوں اور بطلِ حریت کہلواؤں۔ میں مگر ایسا نہیں کر سکتا۔ میں جب بھی اس کا ارادہ کرتا ہوں، برہان وانی کا خوب صورت چہرہ میری نظروں کے سامنے آ جاتا ہے اور میں سوچتا ہوںکہ اس کی قربانی کا حاصل کیا ہے؟ اب تو اس میں بہت سے دوسرے شہدا کا لہو بھی شامل ہو چکا۔ میرے پاس کیا کوئی جواز ہے کہ میں کشمیر کی ماؤںکو تحریک دوںکہ وہ بھی اپنے بیٹے اسی طرح ایک ایسی آگ میں جھونک دیں جو اس وقت کشمیریوں ہی کے گھر جلا رہی ہے؟
بھارت کی بر بریت میں اضافہ ہوا ہے۔ تشدد نرندر مودی کی گھٹی میں ہے۔ اس نے ایک انتہا پسند جماعت کے آغوش میں تربیت پائی ہے۔ اسے خبر ہے کہ آج اس کے مظالم پر کوئی احتجاجی آواز نہیں اٹھے گی۔ نہ مغرب سے نہ مسلم دنیا سے۔ تاہم اس کی ایک قیمت ہے جو بھارت کو ادا کرنی ہے۔ اس نے کشمیریوںکے دل جیتنے کا ہر موقع گنوا دیا۔ اب وہ نسل پروان چڑھ چکی تھی، تقسیم ِ ہند جس کا براہ راست تجربہ نہیں تھا۔ یوں اس کے جذبات وہ نہیں تھے جو علی گیلانی کی نسل کے ہو سکتے ہیں۔ بھارت کے پاس مو قع تھا کہ وہ اس نئی نسل کو نیا تاریخی تناظر دیتا۔ خود کواس نسل کے لیے ایک شفیق اور مہربان ریاست کے طور پر پیش کر تا۔ اس نے یہ موقع گنوادیا۔ ظلم ہیکو بطور ہتھیار استعمال کیا اور یہ چاہا کہ جبر سے ریاست کا تسلط برقرار رکھا جائے۔ اس کی وحشت اور بربریت نے نئی نسل کے رگ و پے میں بھی بھارت کے خلاف وہی نفرت بھر دی ہے جو علی گیلانی کی نسل میں تھی۔ یوں اس نے وہ تاریخی فاصلہ ختم کر دیا جس کو اسے فائدہ پہنچ سکتا تھا۔ قانونِ قدرت کے تحت بھارت کواس کی سزا ملنی ہے۔ میرے لیے مگربھارت نہیں، کشمیر کے لوگ اہم ہیں جن کا لہو مسلسل بہہ رہا ہے۔ اس کو روکنے کے لیے اہل ِکشمیر کو کسی وکیل کی ضرورت ہے۔ ایسا وکیل جو ان کا مقدمہ پیش کرے مگر ساتھ ہی برہان جیسوں کی جوانی کو بھی ظلم سے محفوظ بنائے۔
کیا یہ وکیل پاکستان ہو سکتا ہے؟ میں عرض کر چکا کہ نہیں۔ بطور ریاست اس کے اپنے مسائل اور تناظر ہے۔ تو پھر کشمیر کے جوانوں نے کس امید پرسروں پرکفن باندھاہے؟ خدا کی نصرت؟ بلاشبہ وہ مظلوموں کے ساتھ ہے لیکن وہ سنتِ الٰہی کے تحت ہی ملتی ہے۔ مجھے پریشانی ہے کہ اس وقت کی تحریک ایک وقتی ابال کے نتیجے میں، کسی واضح حکمتِ عملی کے بغیر شروع کر دی گئی ہے۔ بھارتی ریاست ہر خوف سے بے نیاز، بے دردی سے ریاستی قوت استعمال کر رہی ہے۔ اس کی قیادت جانتی ہے کہ اس وقت دنیا کی زبان پر مفادات کے تالے ہیں۔ اس کا ہاتھ کوئی نہیں روکے گا۔
اس پس منظر میں میرا سوال اپنی جگہ ہے۔ ریاست کا مزاج وہی ہے اور جذبہ حریت بھی وہی۔ اہلِ کشمیر تک انسان کے فکری ارتقا کی روشنی کب پہنچے گی؟ یہ روشنی پہچانا کس کی ذمہ داری ہے۔ اہلِ کشمیرکا وکیل کون ہے؟