سیاسی اور صحافتی حلقوں میںترکی زیرِ بحث ہے۔ یہ اچھا شگون ہے۔ عقل مند وہی ہے جو دوسروں کے تجربات سے سیکھتا ہے،اپنی عمر تجربات کی نذر نہیں کرتا۔
نظریاتی پس منظر رکھنے والوں کا معاملہ البتہ قدرے مختلف ہو تا ہے۔کبھی سرخ انقلاب کے نمائندے چی گویرا کی تصویروں والی قمیصیں پہنے پھرتے تھے۔ جب سے ایران میںانقلاب آیا ہے، بعض شیعہ تنظیمیں ایرانی رہنماؤں کی تصاویر اٹھائے سڑک پر ہوتی ہیں۔ وہ اسے اپنی کامیابی سمجھتی ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ کوئی معاملہ ہوتا ہے تو سلفی اور دیوبندی جلوسوں سے گلی بازار آباد ہو جاتے ہیں۔ دو دن پہلے بھی مولانا فضل الرحمٰن مولانا سمیع الحق کے پہلو میں بیٹھے سعودی عرب کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کر ر ہے تھے۔ اب جماعت اسلامی والے اردوان کے حق میں بینر لگا رہے ہیں اور مٹھائیاں تقسیم کر رہے ہیں۔ اس سے ایک سوال پیدا ہو تا ہے: کیا نظریاتی سیاست کو نیشن سٹیٹ کی حدوں میں قیدکیا جا سکتاہے؟ یہ ایک دلچسپ اور اہم سوال ہے جسے میں فی الوقت کسی دوسرے کالم کے لیے اٹھارکھتا ہوں۔ سر دست تو اس بات پر اظہارِ اطمینان کرنا ہے کہ لوگ ترکی کے حالات میں دلچسپی لے رہے ہیں اور میں پُرامید ہوں کہ کچھ سیکھ بھی رہے ہیں۔
ترکی میں اردوان کی فتح کیا 'سیاسی اسلام ‘کی فتح ہے؟ یہ سوال اس وقت عالمی سطح پر زیرِ بحث ہے۔ ہمارے لیے بھی یہ سوال اہم ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ بعض اسلامی تحریکیں 'بعد ازسیاسی اسلام‘ (Post Islamism) کے عہد میں داخل ہو گئی ہیں تو ترکی میں اردوان صاحب کے حق میں اٹھنے والی اس لہر کو کیا نام دیا جائے؟ پھر جب ان کی تنقید کا رخ فتح اللہ گولن کی طرف ہے، جنہوں نے ترکی سماج کے اسلامی تشخص کو زندہ کرنے کے لیے کم و بیش پچاس سال جدو جہدکی تو یہ سوال مزید اہمیت اختیا رکر لیتا ہے۔ اگر سیکولر جماعتیں فوجی اقدام کی مخالفت میں اردوان کے ساتھ ہیں اور ایک مسلم احیائی تحریک اس سارے معاملے میں ولن ہے تو پھر حقیقتِ واقعہ کیا ہے؟
ترکی کے معاشرے میں، سیاست و مذہب کے باب میں چار طرح کے نظریات موجود رہے۔ ایک 'کمال ازم‘ ہے جو مذہب پر ریاستی کنٹرول کا علم بردار ہے۔ یہ نظریہ کہتا ہے کہ 'تبدیلی اوپر سے آتی ہے‘۔ اگر ریاست سماج کے مذہبی معاملات پر اختیار حاصل کر لے تو اجتماعی سوچ کو بدلا جا سکتا ہے۔ مصطفیٰ کمال اسی کے قائل تھے۔ ان کی جماعت پیپلز ریپبلکن پارٹی 1923ء سے1950ء تک ترکی کی حکمران رہی اور یہ کوشش کی کہ ریاست کی قوت سے مذہب کو سیاسی و اجتماعی معاملات سے دیس نکالا دیا جائے۔ اسے سیاسیات کی زبان میں (Laicism) کہا جا تا ہے۔ دوسرا نظریہ سیکولرزم ہے۔ یہ ریاست پر مذہب کی حاکمیت قبول نہیں کرتا مگر ریاست کو بھی یہ حق نہیں دیتا کہ وہ لوگوں کی مذہبی آزادی کو سلب کرے۔ ترکی کی بعض موجودہ سیاسی جماعتیں اس کی علم بردار ہیں جن میں اردوان صاحب کی 'اے کے پی‘ کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ تیسرا نظریہ 'سیاسی اسلام‘ ہے۔ یہ ریاستی و سیاسی اداروں کی،اسلامی تعلیمات کی روشنی میں صورت گری کرنا چاہتا ہے۔ نجم الدین کی ملی نظام پارٹی یا رفاہ اس کے علم بردار تھے۔ چوتھا نظریہ 'سماجی اسلام‘ ہے۔ یہ اسلام کو ایک روحانی اور تہذیبی روایت کے طور پر قبول کرتا ہے۔ یہ ریاست و سیاست کے معاملات سے لاتعلق رہ کر فرد اور سماج کو ایک نظام ِاقدار کے تابع کرتا ہے جس کی اساس اسلام کی تعلیمات ہیں۔ تصوف کے سلاسل، فتح اللہ گولن کی تحریک اور اس سے پہلے سعید نورسی بھی اسی کے علم بردار تھے۔
اوپر سے تبدیلی کا نظریہ، 'کمال ازم‘ ناکام ہوگیا۔ سماج کے رگ و پے میں دوڑتے اسلام کو دیس نکالا نہیں دیا جا سکا۔ 'سیاسی اسلام‘ کو مقبولیت ملی اور اس کا ظہور اس وقت ہوا، جب نجم الدین اربکان وزیراعظم بن گئے۔ تاہم یہ مقبولیت اتنی توانا نہیں تھی کہ وہ اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھ سکتے۔ 'سماجی اسلام‘ سب سے کامیاب رہا۔ آج اسلام ترکی کے تہذیبی وجود کا جزوِ اعظم ہے۔ مساجدِ اورخانقاہیں آباد ہیں۔ 2002ء میں 'سیاسی اسلام‘ اور 'سماجی اسلام‘ کا ایک امتزاج وجود میں آیا جس نے جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کو جنم دیا۔
اے کے پی کا ظہور ترکی کے کئی تجربات کا حاصل ہے جن میں کمال ازم کی ناکامی، سماجی اور انفرادی سطح پر اسلام کی نمایاں مو جودگی، فری مارکیٹ اکانومی، انطولیہ میں ایک نئے متوسط کاروباری طبقے کا ظہور،گلوبلائزیشن اور اس کے نتیجے میں یورپین یونین میں شمولیت کی خواہش شامل ہیں۔ سب سے بڑھ کر طیب اردوان کی کرشماتی شخصیت تھی جس نے اسے کامیابی دلائی۔ 2002 ء میں اے کے پی کی کامیابی میں فتح اللہ گولن بھی کی حمایت و نصرت بھی شامل رہے۔ اردوان نے ابتدا میں 'سیاسی اسلام ‘ کی بات کبھی نہیں کی۔ 2003ء میں انہوں نے خود کو 'قدامت پسند جمہوری‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا: ''ہماری قدامت پسند جمہوریت خود کو سماج کے رسم و رواج سے وابستہ رکھتی ہے جس کی اساس خاندان کا ادارہ ہے۔۔۔۔ یہ جمہوری مقدمہ ہے، مذہبی نہیں‘‘(فنانشل ٹائمز،3۔ دسمبر2004ئ)۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا: ''ایک سیاسی جماعت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، مذہب فرد کا ہوتا ہے۔۔۔۔ مذہب اس سے بالاتر تصور ہے کہ اس کا سیاسی استحصال کیا جائے یا اسے(دنیاوی) فائدے کے لیے استعمال کیا جائے‘‘۔(11۔ مئی 2003ء نیویارک ٹائمز)
ایک رائے یہ رہی ہے کہ اردوان اصلاً سیاسی اسلام ہی کے علم برادر ہیں۔ انہوں نے یہ خیالات، نظریہ ضرورت کے تحت اختیار کیے۔ انہیں جب مو قع ملا، ان کے اندر کا 'سیاسی اسلام‘ ظہورکرے گا۔ مغرب کے حلقے اکثر اس خدشے کا اظہار کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ 'انٹرنیشنل نیورک ٹائمز‘ نے 19جولائی کو اردوان کی کامیابی کو سیاسی اسلام کی فتح قرار دیا ہے۔ میراخیال ہے کہ یہ محض اندیشہ ہے۔ اردوان کو اگر 'سیاسی اسلام‘ ہی کی طرف جانا تھا تو نجم الدین اربکان کی پارٹی سے راستے جدا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ وہ اسرائیل سے تعلقات کو ایک بار بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں اور یورپی یونین میں بھی شامل ہونا چاہتے ہیں۔ تاہم حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے کہ وہ کبھی کبھی خلافتِ عثمانیہ کے احیاء کے علم برادر بھی دکھائی دیتے ہیں۔
فتح اللہ گولن کے ساتھ ان کے تعلقات میں جو خرابی آئی، وہ البتہ معنی خیز ہے۔ بظاہر یہ شخصیات کا تصادم ہے جو حصولِ اقتدارکی دوڑ میں غیر متوقع نہیں۔ توکیاایک صوفی منش آ دمی، اردوان کا حریف ہے؟ اس سوال کا جواب مشکل ہے۔گولن تحریک کے اردگرد پُراسراریت کا ایک ہالہ ہے۔ 19جولائی کونیویارک ٹائمز میں ترکی کے ایک سیکولر خیالات کے حامل دانش ور مصطفیٰ اخول کا مضمون شائع ہوا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ گولن کے کردارکو ترکی کے سیکولر حلقے بھی شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور انہیں گولن صاحب کی یہ تردید قبول کرنے میں تامل ہے کہ اس بغاوت میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔ مضمون نگارکا امریکہ کو مشورہ ہے کہ وہ اردوان کی بات کو نظر انداز نہ کرے۔
اردوان صاحب کو اب پہلے سے بڑا چیلنج درپیش ہے۔ یہ ان جمہوری روایات کی پاس داری ہے، وہ جس کے نمائندہ ہیں۔ گولن تحریک سے معاملہ کرتے وقت انہیں سب سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کہ ترک عوام کا وہی طبقہ ان کی قوت کی اساس ہے جو سماجی و تہذیبی اسلام کا قائل ہے۔ یہ جذبات پیدا کرنے میں فتح اللہ گولن کی تحریک کا غیر معمولی کردار ہے۔ اگر وہ ان کے اداروں کو برباد کریںگے تو اس سے ترک معاشرے میں اسلام کو نقصان پہنچے گا۔ دوسرا یہ کہ انہیں ایسی سیکولر جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے جنہوں نے جمہوریت کی اس جنگ میں ان کا ساتھ دیا۔ اگر وہ ترک عوام میں ایک وسیع تر اتفاق رائے پیدا کر نے میں کامیاب رہے تو اس سے ترکی مستحکم ہوگا اور اس کے ساتھ ان کی قیادت بھی۔