مسلم معاشرے اور جمہوریت کے باہمی تعلق کو آج ہم باندازِ دگر دیکھتے ہیں۔
دو نکات اہم ہیں۔ ایک یہ کہ معاشرہ ایک جامد شے نہیں ہے۔ ہر زندہ وجود متحرک ہوتا ہے۔ بقا کے تقاضے اسے متحرک رکھتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ وقت ایک اکائی ہے جسے ہم اپنی تفہیم کے لیے ماضی، حال اور مستقبل میں تقسیم کرتے ہیں۔ زندگی ان دونوں نکات سے عبارت ہے۔ حرکت اور تصورِ وقت بطور اکائی۔ حرکت سے ایک زندہ وجود ان چیلنجوں کا مقابلہ کرتا ہے جو ہر روز نئے ہوتے ہں۔ جب ہم وقت کو ایک اکائی کہتے ہیں تو اس سے روایت جنم لیتی ہے۔ گویا ماضی، حال اور مستقبل سے وابستہ ہو جاتا ہے۔ ایک زندہ معاشرہ متحرک ہوتا ہے اور اس کے ساتھ روایتی بھی۔ مسلم معاشرہ اگر زندہ ہے تو اسے بھی اسی اصول کے مطابق اپنی زندگی کا ثبوت فراہم کرنا ہے۔
انسانی معاشرے کا عمومی سفر انفرادی دانش سے اجتماعی دانش کی طرف ہے۔ میرے نزدیک زندگی کے دونوں نظریے، الہامی بھی اور غیر الہامی بھی، اسی ارتقا کو مانتے ہیں۔ الہامی روایت میں ختم نبوت اور غیر الہامی روایت میں اختتامِ تاریخ (End of History) کے نظریے کا نتیجہ یہی ہے۔ میں فوکویاما کے نظریے کا اطلاق پوری غیر الہامی روایت پر کر رہا ہوں۔ دونوں روایات کے مقدمات مختلف ہیں۔ میں نتائجٔ فکر میں ہم آہنگی کی بات کر رہا ہوں۔ الہامی روایت کو ماننے والوں نے ختم نبوت کو محض عقیدے کا مسئلہ سمجھا، اس کے سماجی مضمرات پر کم غور کیا۔ میرا کہنا یہ ہے کہ یہ دراصل انسان کا انفرادی دانش سے اجتماعی دانش کے عہد میں داخل ہونے کا اعلان ہے۔ اس کے بعد اب کوئی عہد نہیں۔ الہامی روایت کے مطابق اس کا اختتام قیامت پر ہونا ہے جو زیادہ دور کی بات نہیں۔ غیر الہامی روایت میں، جب تک زندگی باقی ہے، جو فیصلے کرنے ہیں، وہ اجتماعی دانش ہی نے کرنے ہیں۔
اس یکسانیت کے باوجود یہ واضح ہے کہ دونوں روایات کے ماننے والوں میں اجتماعی دانش کا ظہور ایک طرح سے نہیں ہو گا۔ الہامی تصورِ زندگی ظاہر ہے کہ ایک روایت میں آگے بڑھا ہے اور اسی طرح غیر الہامی روایت میں بھی۔ 'اختتامِ تاریخ‘ کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ وقت چونکہ ایک اکائی ہے، اس لیے ضروری ہو گا کہ دونوں کے ہاں ماضی‘ حال اور مستقبل سے وابستہ رہے۔ اجتماعی دانش کا ایک مظہر جمہوریت ہے۔ اب دونوں روایات جمہوریت پر متفق ہونے کے باوجود، یہ ضروری نہیں کہ جمہوریت کے مظاہر میں بھی متفق ہوں۔
مسلمانوںکے ہاں انسان کو ایک سماجی وجود کے طور پر سمجھنے کی روایت مستحکم نہیں ہوئی۔ اسے ایک مذہبی وجود سمجھا گیا یا سیاسی۔ فقہ کی روایت انسان کو ایک مذہبی وجود سمجھتے ہوئے آگے بڑھی۔ حالانکہ فقہ ایک سماجی موضوع تھا۔ انسان کو ایک سماجی وجود مانتے ہوئے، مذہب کا اطلاق نہیں ہوا بلکہ مذہب کی بنیاد پر اس کے سماجی رویے کا تعین ہوا۔ اس روایت میں صرف ایک استثنا ہے، وہ امام ابو حنیفہ کا ہے‘ جنہوں نے مذہب کو اپنے عہد کی سماجی روایت کی روشنی میں سمجھنے کی طرح ڈالی۔ دوسری طرف حکمرانوں کے زیر اثر جب علمی روایت آگے بڑھی تو انہوں نے اپنے سیاسی وجود کے حق میں مذہبی دلائل تلاش کیے۔ یہ ان کی سیاسی ضرورت تھی کہ وہ خلیفۂ وقت کو 'ظل اللہ فی الارض‘ ( زمین پر اللہ کا سایہ) ثابت کریں۔ عباسیوں نے اپنی خلافت کے اثبات کو خطبۂ جمعہ کا حصہ بنا دیا۔ دلچسپ بات ہے کہ ہماری مساجد میں آج بھی یہی خطبہ پڑھا جاتا ہے۔ آج بھی حضرت عباسؓ اور ان کی اولاد کے لیے خصوصی دعا ہوتی ہے۔
اسی رویہ سے انسان کا مطالعہ بطور سماجی وجود، ہماری علمی روایت میں بنیادی موضوع نہ بن سکا۔ یوں یہ حقیقت نظروں سے اوجھل رہی کہ انسان کا سماجی سفر انفرادی سے اجتماعی دانش کی طرف بڑھ رہا ہے۔ رسالت مآبﷺ نے جس طرح مشاورت کی روایت کو مستحکم فرمایا اور جس طرح خلافت راشدہ میں اس کا ظہور ہوا، وہ دراصل اسی حسن تربیت کا مظہر تھا۔ کیا یہ غیر معمولی بات نہیں کہ خلافت راشدہ میں مسائل کے حل کے لیے مسلمانوں کی مجلس مشاورت کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔
عہد صحابہ میں ختم نبوت کی تفہیم ہر دور سے بہتر تھی۔ رسالت مآبﷺ نے اپنی سیاسی جانشینی جیسے اہم ترین مسئلہ پر کوئی ہدایت دینے کے بجائے اسے مسلمانوں کی اجتماعی دانش پر چھوڑ دیا۔ یہ دراصل انہیں بتانا تھا کہ اب دنیا میں وہ ہستی موجود نہیں رہی جو خدا کے اذن سے کلام کرتی اور خدا کی بات انسانوں تک پہنچاتی تھی۔ اب ان کی دی ہوئی روشنی ہے یا پھر وہ روشنی جس کا چراغ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں جلا دیا ہے۔ بعد کے ادوار میں، یہ روشنی آگے نہیں بڑھی۔ عباسیوں کے عہد میں جب علمی روایت منظم ہونے لگی تو اس کی جو صورت سامنے آئی، میں اس کا ذکر کر چکا ۔
غیر الہامی روایت میں سماجی علوم کا فروغ ہوا۔ گویا انسانی اجتماعیت کو سماجی پہلو سے سمجھا گیا۔ اس کے نتیجے میں انفرادی دانش سے اجتماعی دانش کی طرف پیش قدمی ہوئی۔ علم البشریات کی روایت وہیں پنپ سکتی تھی جہاں انسان کو ایک سماجی وجود سمجھتے ہوئے اس کا مطالعہ کیا جاتا۔ ہماری روایت میں آج بھی صرف ابن خلدون کا نام پیش کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تفسیر، علمِ حدیث، فقہ اور کلام کی روایت آگے بڑھی مگر ابن خلدون کا کوئی جانشین سامنے نہیں آیا۔
جمہوریت اجتماعی دانش کا سیاسی مظہر ہے۔ جمہوریت پر جو سوالات اٹھتے ہیں، وہ دراصل خلطِ مبحث کا نتیجہ ہیں۔ جمہوریت ایک سماجی رویہ ہے۔ یہ فصلِ نزاع کا ایک طریقہ ہے۔ یہ مکالمے کی ایک روایت ہے۔ سب میں مشترک نکتہ یہ ہے کہ اجتماعی دانش زیادہ سے زیادہ بروئے کار آئے۔ علمی مجلس میں جمہوریت کا مطلب یہ نہیں ہو تا کہ ایک مقدمہ پیش ہوا اور پھر اس پر رائے شماری ہو گئی۔ ہر مقدمہ دلائل کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ ان دلائل کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ یہ جائزہ متفرق آرا کو سامنے لاتا ہے۔ اس مشق سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ ابتدائی مقدمہ اپنی اصل صورت میں باقی نہ رہے۔
سیاست میں بھی ایک جمہوری عمل کے نتیجے میں، جب کسی فرد کا انتخاب ہوتا ہے تو انتخابی مہم کئی مد و جزر سے گزرتی ہے۔ آرا بنتی اور بگڑتی ہیں اور اس کے بعد غلط فیصلے کا امکان کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ جمہوریت کا یہ مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اکثریت کا فیصلہ ہمیشہ درست ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ فصل نزاع کے لیے اس سے بہتر طریقہ اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ غلطی کا امکان ظاہر ہے کہ ہر صورتِ واقعہ میں باقی رہتا ہے۔ امکان کی موجودگی، کسی عمل کے غلط ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ اگر اسے بطور اصول مان لیا جائے تو کوئی فیصلہ قابلِ تنفیذ نہیں رہتا کہ غلطی کا امکان ہر صورت میں موجود رہے گا۔ کیا ایک جج کا فیصلہ غلطی کے امکان سے خالی ہوتا ہے؟ بادشاہوں کی مشاورت اور جمہوریت میں جوہری فرق یہ ہے کہ جمہوریت میں اکثریت کی رائے فیصلہ کن ہوتی ہے۔ بادشاہوں کی مشاورت میں یہ حق فردِ واحد کے پاس ہے کہ وہ چاہے تو اجتماعی رائے کو مسترد کر دے۔
مسلم معاشرہ آج انسان کے عمومی ارتقائی سفر سے بچھڑ گیا ہے۔ اس کی وجہ سے اس کے ہاں انسان کی سماجی تفہیم کی روایت مستحکم نہ ہو سکی۔ آج مسلم سماج کا اس قافلے سے جڑنا لازم ہے۔ اسے سمجھنا ہے کہ انسان انفرادی سے اجتماعی دانش کے عہد میں داخل ہو چکا ہے۔ مسلمان معاشرہ اگر ختمِ نبوت کا سماجی حوالے سے مطالعہ کرے گا تو اسے یہ روشنی اپنی روایت میں ملے گی۔ جب ہمارا سماج اس مرحلے سے گزر جائے گا تو اسے اندازہ ہو گا کہ جمہوریت کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کی بحث کتنی غیر متعلق اور بے مصرف ہے۔ میں یہ عرض کر چکا کہ مسلم سماج میں جمہوری عمل اس کی اپنی روایت کے تسلسل میں آگے بڑھے گا۔ اس کے لیے لازم نہیں ہے کہ جمہوری ہونے کے بعد، وہ ہر اس نتیجہ فکر سے بھی اتفاق کرے جو کسی غیر الہامی روایت میں سامنے آ یا ہے۔