چوہدری نثار علی خان نے سارک کے وزرائے داخلہ کی کانفرنس میں جو کچھ کہا ، اس کی صدائے بازگشت دور دور تک سنائی دے رہی ہے۔انہوں نے مسئلہ کشمیر پرپاکستان کا موقف بغیر کسی الجھاؤ کے، سب کے سامنے بیان کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ کشمیر پر وزارت خارجہ کے ذمہ داران ، یہ نقطہ نظر اس صراحت کے ساتھ کیوں پیش نہیں کر سکتے؟
مجھے اس سارک کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ مشاہدہ معاملات کی تفہیم میں ، بعض اوقات کئی کتابوں کے مطالعے پر بھاری ہوتا ہے۔سفارت کاری میں ہر بات زبانِ قال سے نہیں کہی جاتی۔ بہت کچھ زبانِ حال سے بھی کہا جا تا ہے۔ اعضاء و جوارح بھی کلام کرتے ہیں اور حرکات و سکنات سے بھی اپنا موقف پیش کیا جاتا ہے۔ اس کانفرنس میں تمام وزراء داخلہ میری موجودگی میں کانفرنس ہال میں داخل ہوئے۔ میں نے سب کی آمد کو دیکھا۔ ایک شائستگی اور اس کے ساتھ آداب کا خیال۔ کسی کی آمد پر یہ گمان نہیں ہواکہ کوئی 'مختلف آدمی‘ ہال میں داخل ہوا ہے۔ اس میں صرف ایک استثنا تھا اور وہ راج ناتھ صاحب کا تھا۔ وہ کچھ اس طرح آئے کہ ایک مختلف آدمی دکھائی دیے۔ چہرہ ہر تاثر سے خالی بلکہ کسی حد تک ناگواری کے ساتھ۔ چلنے کا انداز ایسا کہ شائستگی تلاش کرنے کے لیے غیر معمولی حسنِ ظن کی ضرورت پڑتی تھی۔
ان حرکات و سکنات ( Body language) سے واضح تھا کہ وہ خود کو ایک مختلف آدمی سمجھتے ہیں۔ اگر ہم خطے میں بھارت کے رویے پر نظر ڈالیں تو یہ رویہ دراصل اسی کی تجسیم ہے۔ بھارت کا خیال ہے کہ وہ بزعمِ خویش،جنوبی ایشیا کی سپر پاور ہے۔ آبادی اور وسائل کے لحاظ سے وہ سب سے بڑا ہے۔ اس لیے علاقے کے دوسرے ممالک کو چاہیے کہ وہ بھارت کی بڑائی کو تسلیم کر لیں۔ نیپال، سری لنکا یا مالدیپ کو اس نے ڈرا دھمکا کر 'چھوٹا ‘بننے پر مجبور کر دیا ہے۔ پاکستان کے بارے میں بھی اس کی خواہش یہی ہے۔ پاکستان مگر اس پر آمادہ نہیں۔ پاکستانی برتری اس بھارتی خواہش کے راستے میں مزاحم ہے۔ اس کے اسباب تاریخی ہیں اور کچھ خطے کی سیاست بھی اسی کی متقاضی ہے۔
میں اگر پاکستانی ہونے کے بجائے، جب جنوبی ایشیا کے ایک شہری کے طور پر اس خطے کودیکھتاہوں تو بھی یہ محسوس کرتا ہوں کہ اس خطے میں مقام امن کے لیے پاکستان کا کردار ناگزیر ہے۔ تاریخ کا مطالعہ یہ کہتا ہے کہ ایک علاقے میں اگر کسی کو مطلق اقتدار مل جائے تو اس سے لازم ہے کہ استبداد پیدا ہو۔ مطلق اقتدار فرد کا ہو یا ملک کا ، اس کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ دوسروں کے لیے جینے کے امکانات کم ہوتے چلے جاتے ہیں ، الاّ یہ کہ وہ دوسرے درجے کا شہری بننا یا دوسری کی حاکمیت میں رہناقبول کر لیں۔
سوویت یونین کے خاتمے کو ہم اپنے کارناموں میں شمار کرتے ہیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ یہ ایک بڑی غلطی ثابت ہوئی۔ اس کے بعد دنیا میں امریکہ کی قوت کے راستے میں ہر رکاوٹ دور ہو گئی۔ اس سے جس استبداد اور ظلم نے جنم لیا، ہم کئی سالوں سے بچشمِ سر اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اگر جنوبی ایشیا میںبھی ایک ہی طاقت ہوتو پھر چھوٹے ملکوں کے ساتھ تو جو سلوک ہو، اس کا اندازہ نیپال اور کسی حد تک سری لنکا کے حالات سے کیا جا سکتا ہے۔
اس پس منظر میں یہ لازم ہے کہ پاکستان محض اپنے حوالے ہی سے نہیں، اس خطے کے لیے بھی اپناایک کردار متعین کرے۔ جب میں جنوبی ایشیا کے ایک شہری کے طور پر یہ بات سوچتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نیپال یا سر ی لنکا کا ایک باخبر شہری بھی یہی سوچتاہوگا۔اس کی یہ خواہش ہو گی کہ کوئی ایسی قوت اس خطے میں موجودرہے جو طاقت کے توازن کو بر قرار رکھے۔یہ طاقت اگر اس کا اپنا ملک نہیں ہے تو کوئی ایسا ہو جس کے ساتھ اس کے مفادات کا تصادم نہ ہو۔پاکستان ایسا ملک ہو سکتا ہے جس کابھارت کے علاوہ کسی سے تصادم نہیںہے۔بنگلہ دیش میں اگر حسینہ واجد کی جگہ کوئی دوسری شخصیت حکمران ہو تو اس کے ساتھ ہمارے مفادات کا ٹکراؤ نہیں ہے۔اسی طرح افغانستان کے ساتھ فطری رشتہ دوستی کا ہے۔بد قسمتی نے کچھ لوگوں نے 'سٹریٹیجک ڈیپتھ‘ کی تلاش میں اسے دشمنی میں بدل دیا۔ تاہم یہ عارضی ہے۔اگر آج پاکستان کی حکمتِ عملی میں ایک جوہری تبدیلی آئے تویہ دشمنی پانی کی جھاگ کی طرح ختم ہو جائے۔
کشمیر کے مسئلے کو بھی جنوبی ایشا کے تناظر میں دیکھنا چاہیے؟کیا کشمیر جنوبی ایشیا کا حصہ ہے؟اگر ہے اور یقیناً ہے تو 'سارک‘ کے فورم پر اس کا نمائندہ کون ہے؟بھارت تو ہو نہیں سکتاکہ اس پر اس علاقے کوبر باد کرنے کا الزام ہے۔پھر یہ کہ بھارت کی اپنی قیادت اور عالمی برادری اسے متنازعہ علاقہ قرار دے چکے ہیں۔اب کوئی تو ہو جو جنوبی ایشیا کے فورمز پر کشمیر یوں کا مقدمہ پیش کرے۔جنوبی ایشیا کا ہر شہری جانتا ہے کہ یہ ذمہ داری صرف پاکستان ادا کر سکتا ہے۔اس کے لیے جہاں حالات کی تفہیم ضروری ہے وہاں تاریخی شعور بھی لازم ہے۔ حالات کا فہم اور تاریخی شعور پیشہ ورانہ تربیت سے نہیں آ سکتے۔ پیشہ ورانہ تربیت سے داؤ پیچ سیکھے جا سکتے ہیں ،وژن نہیں پیدا کیا جا سکتا۔محض تربیت سے باکسر پیدا ہو سکتے ہیں محمد علی نہیں۔یہی وہ حقیقت ہے جس کی بنیاد پر بر طانیہ کے ایک ذمہ دار نے یہ کہا کہ جنگ جیسا سنجیدہ معاملہ صرف جرنیلوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔
اگر یہ مقدمہ سامنے رہے تواس سوال کا جواب تلاش کیا جا سکتاہے کہ مسئلہ کشمیر پر وہ صراحت اور زور جو چوہدری نثار صاحب کی گفتگو میں سامنے آیا ہے، وہ وزارتِ خارجہ کے بیانات میں کیوں نہیں ملتا۔چوہدری نثار علی خان نے سارک کانفرنس میں جو موقف اپنا یا اور پھرجس دبنگ لہجے میں قومی جذبات کی ترجمانی کی،یہ وقت کی ضرورت تھی۔ یہ موقف اعلانِ جنگ نہیں ہے۔اس میں استدلال ہے اور اسے دنیا کے کسی فورم پر بیان کیا جا سکتا ہے۔مثال کے طور پر اس نکتے سے کون انصاف پسند اختلاف کر سکتا ہے کہ دہشت گردی ڈھاکہ میں ہو، پٹھان کوٹ میں ہو،کابل میں ہو یا پشاور اور لاہور میں ہو، یکساں طور پر مذمت کی متقاضی ہے۔ پھر یہ کہ مقبوضہ کشمیر میں اگر نہتے شہریوں کو ریاستی تشدد کا نشانہ بنایا جائے تو اس کی بھی مذمت ہو نی چاہیے۔ساری دنیا مانتی ہے کہ غیرمحرب(non combatants) کے خلاف طاقت کا استعمال جنگ میں بھی جائز نہیں۔کجا یہ کہ محض احتجاج کر نے کی پاداش میں معصوم بچوں کو اندھا کر دیا جائے۔چوہدری نثار صاحب نے اگر راج ناتھ صاحب کے جواب میں یہ باتیں کہیں تو یہ قومی جذبات اور موقف کی ترجمانی تو ہے ہی،اس کے ساتھ حق و انصاف کی بنیاد پر بھی اس پر تنقید نہیں کی جا سکتی۔
راج ناتھ صاحب نے پاکستان میں آ کر جن حرکات و سکنات کا مظاہرہ کیا اور پھر واپسی پر لوک سبھا میں جو گفتگو کی،اس کو سامنے رکھیے تو چوہدری نثار خان صاحب کی گفتگو کو صحیح تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کی صدائے بازگشت پورے خطے میں سنی گئی۔ سید علی گیلانی نے اس کی تحسین کی لیکن داد دیجیے اپنے دینی سیاسی رہنماؤں کوجن کا تبصرہ ہے کہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کوسر دخانے میں ڈال دیا۔بطور ریاست پاکستان کے مفادات بعض اوقات اس میںحائل ہوتے ہیں کہ وہ کشمیر کا مقدمہ دنیا کے سامنے رکھے۔اس لیے یہ سوال اہم ہے کہ ہم اس کے لیے کیا حکمتِ عملی اپنا سکتے ہیں؟یہ سوال ایک تفصیلی کالم کا متقاضی ہے۔