غیر جانبداری کبھی موقف میں نہیں ہوتی۔ یہ تجزیہ ہے جو دیانت، عدل وانصاف، دلیل اور غیر جانبداری کا تقاضا کرتا ہے۔ ہمارامعاملہ اس کے برعکس ہے۔ موقف دیکھنے میں غیر جانبدار، تجزیہ مگر تعصبات اور جانبداری سے مملو۔
موقف کبھی غیر جانبدار نہیں ہوتا۔ مذہب، سیاست،سماج ،ہرباب میں، ہم میں سے ہر ایک، کوئی نہ کوئی موقف رکھتا ہے۔ اس کو کسی مہذب معاشرے میں برا نہیں سمجھا جاتا۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب ہم اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے حق وانصاف کا خون کر تے ہیں۔ ایک رائے ساز بھی اس اصول سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ ایک تجزیہ کار سے ہم غیرجانبداری کا کاتقاضا کرتے ہیں تویہ تجزیے میں ہونا چاہیے، موقف میں نہیں۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ کیا وہ کسی کی محبت یا نفرت میں انصاف کا خون کرتا ہے؟ کیا وہ افواہ کو یقین کا لباس پہناتا ہے؟ کیا وہ الزام کو ثابت شدہ جرم بنا دیتا ہے؟ یہ ہے وہ دائرہ جہاں ایک تجزیہ کارکوکٹہرے میںکھڑا ہو نا چاہیے۔
موقف اور تجزیہ میں یہ فرق جب ملحوظ نہیں رکھا جاتا توکیا ہوتا ہے؟ آئیے، دیکھتے ہیں: ہم ایک جملہ لکھتے ہیں کہ حکومت کرنا اہلِ سیاست ہی کو زیبا ہے۔کسی غیر سیاسی آ دمی سے یہ کام لینا گویا بڑھئی سے جوتا بنوانا ہے۔ اس ایک جملے کے بعد ہم تجزیہ یہ کرتے ہیں کہ سیاست دان کرپٹ اور پرلے درجے کے نااہل ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی حب الوطنی ہی مشکوک ہے۔ وہ دشمن ملک کے راہنماؤں سے خفیہ ملاقاتیں کرتے اور اپنے ذاتی کاروبارکو قومی سلامتی پر ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے بعد اگلے پیرا گراف کا پہلا جملہ ہوتا ہے: اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ فوج کا امورِ سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے بعد پورے پیرا گراف میں ہم یہ ثابت کرتے ہیں کہ اگر اس ملک میں امورِ ریاست چلا نے کا اہل کوئی ادارہ باقی بچا ہے تو یہی ہے۔ ایک اچھے حکمران میں جن اوصاف کی ضرورت ہے، وہ اگر پائے جاتے ہیں تو صرف یہیں۔
یہ سب پڑھنے کے بعد کون ہوگا جویہ رائے قائم کرے گا کہ ہمیںامورِ سیاست و ریاست کے لیے اہلِ سیاست کی طرف دیکھنا چاہیے اور فوج کو ان معاملات سے دور رکھنا چاہیے۔ اب کہنے کو موقف بڑا غیر جانب دارانہ ہے لیکن تجزیہ بتا رہا ہے کہ دراصل اس کے بر خلاف مقدمہ قائم کیا جا رہا ہے۔ سمجھایا یہ جا رہا ہے کہ اگر ملک کی سلامتی چاہتے ہو تو معاملاتِ سیاست فوج کے حوالے کردو۔ آج تجزیہ نگاروںکا کام یہ ہے کہ وہ قوم کو ابہام سے نکالیں۔ انہیں بتائیںکہ انہیں کس موقف کی تائید کرنی چاہیے۔ قوم کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے یا ہمارے پاس کوئی ایسا متبادل موجود ہے جو اس سے بہتر ہے؟ اس ملک میں ایک طبقہ ایسا موجود ہے جو جمہوریت کو کفر کہتا ہے۔ ریاستوںکے وجود کو نہیں مانتا۔ مسلمانوں کے لیے ایک سیاسی حل تجویزکرتا ہے کہ ساری دنیا میں ان کا ایک خلیفہ ہونا چاہیے۔ ہم ان سے اختلاف کرتے ہیں لیکن انہیں یہ داد تو ملنی چاہیے کہ وہ اپنے موقف میں واضح ہیں۔
آج پاکستان کوکچھ مسائل کا سامنا ہے۔ یہ سماجی ہیں اور سیاسی بھی۔ ان کا تعلق قومی سلامتی کے ساتھ بھی ہے۔ ایک طبقہ یہ رائے رکھتا ہے کہ موجودہ قیادت ہی کو یہ موقع ملنا چاہیے کہ وہ ان کا حل تلاش کرے۔ اگر یہ کہیں غلطی کرتی ہے تو ہم اس پر تنقیدکریںگے، اسے مشورہ دیںگے اوراس پر نظر رکھیںگے۔ اگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوتی تو ہم اسے بدل دیںگے لیکن اس کے لیے تبدیلی کا وہ طریقہ اختیار کریںگے جو آئین میں درج ہے۔ سادہ لفظوں میں ہم 2018ء کے انتخابات کا انتظار کریںگے۔ اگر اس جماعت کی کارکردگی بہتر ہوئی تو اسے پھر موقع دیںگے ورنہ کسی دوسری جماعت کو قوم کی نمائندگی کا منصب سونپ دیںگے۔
دوسرا موقف یہ ہے کہ اربابِ اقتدارکی نااہلی واضح اور ان کی کرپشن ثابت ہے۔ انہیں فوراً اقتدار سے الگ ہو جانا چاہیے۔ اگر وزیراعظم خود الگ نہیں ہوتے تو ہم حکومت کو معطل کردیںگے اور انہیںکام نہیں کرنے دیںگے۔کوئی کمزور سے کمزور حکومت ایسی نہیں ہو سکتی کہ جو کسی گروہ کو اس کی اجازت دے کہ وہ اس کے اداروں کو معطل کردے۔ ظاہر ہے کہ و ہ اپنے حقِ حاکمیت کا دفاع کرے گی۔ اس کا لازمی نتیجہ تصادم ہے۔ عمران خان صاحب کہتے ہیں کہ حکومت روکنے کی کوشش نہ کرے۔ ہمارے لوگ بھیڑ بکریوںکی طرح مار نہیں کھائیںگے۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ مزاحمت کریںگے۔ عقلِ عام رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ اس سے تصادم ہو گا۔ تصادم اگر پھیلتا ہے تو لازماً فوج کو اس کا حصہ بننا پڑے گا۔ حکومت اسے اپنی مدد کے لیے بلائے گی۔ اگر وہ اس کی مدد کرتی ہے تو بھی تصادم اور اگر انکارکرتی ہے تو بغاوت۔ انکار کا مطلب یہ ہوگا کہ فوج اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لے۔
اس کے علاوہ کوئی منظر ممکن نہیں۔ قوم کو اب راہنمائی چاہیے کہ ان دو ممکنہ مناظر میں سے اس کا انتخاب کیا ہونا چاہیے؟ اگر کسی کا خیال ہے کہ آئین کے تحت تبدیلی آنی چاہیے اور ہمیں تصادم سے بچنا چاہیے تو انہیں ہر اس اقدام کی مخالفت کرنی چاہیے جو ملک کو مارشل لاء کی طرف لے جانا چاہتا ہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ فوج اس کی زیادہ اہلیت رکھتی ہے تو واضح لفظوں میں یہ مقدمہ پیش کرے اور فوج کو اس کی دعوت دے۔ جو کام تصادم کے بعد ہونا ہے، وہ اگر بغیر تصادم کے ہو جائے توکیا بہتر نہیں ہوگا؟کم ازکم اس سے کچھ انسانی جانیں تو بچ جا ئیںگی۔
عمران خان یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ حکومت کا خاتمہ نہیں، نوازشریف کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اس کی دو ممکنہ آئینی صورتیں ہیں۔ یہ ہے کہ قومی اسمبلی ان پر عدم اعتماد کا اظہار کردے۔ یہ کام دارالحکومت کو معطل کرنے سے نہیں ہو سکتا۔ تصادم کے بغیر نوازشریف کے اقتدار سے الگ کرنے کی دوسری ممکنہ صورت یہ ہے کہ سپریم کورٹ نوازشریف کو نااہل قرار دے دے اور پارلیمان نیا قائدِ ایوان منتخب کر لے۔ یہ کام عدالت کے سامنے اپنا مقدمہ ثابت کرنے سے ہوگا، اسلام آباد پر قبضہ کرنے سے نہیں۔گویا ایک ابہام خود عمران خان کی موقف میں بھی موجود ہے۔ ان کا معاملہ بھی وہی ہے جو تجزیہ کاروں کا ہے۔ وہ اور ان کی جماعت کے لوگ تواتر سے یہ کہہ رہے ہیں ان کا اداروں پر کوئی اعتماد نہیں۔ یہ سب نوازشریف کے ہاتھوں بک چکے۔ تحریکِ انصاف کے لوگ زبانِ حال ہی سے نہیں زبانِ قال سے بھی سے سپریم کورٹ پر بھی عدم اعتماد کااظہارکر چکے۔ اس ابہام کو دورکرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ وہ اس آئین ، اداروں اور اس نظام کے خلاف انقلاب کا اعلان کریں۔ میں ٹی وی چینلزکے بہت سے مذاکروں میں ان معززدوستوں سے عرض کرتا رہا ہوں کہ عدلیہ حکومت کا حصہ نہیں۔ آپ کا یہ موقف دراصل ریاست پر عدم اعتماد ہے۔
غلط فیصلوں کے ساتھ زندہ رہنا ممکن ہے، ابہام کے ساتھ نہیں۔ قوم کو راہنمائی کی ضرورت ہے۔ عوام کواس سوال کا دوٹوک جواب چاہیے کہ ملک کے معاملات آئین کے تحت اہلِ سیاست نے چلانے ہیں یا کسی اور نے؟ حکومت اور اہلِ سیاست کے عزل و نصب کے معاملات آئین اور قانون کے دائرے میں طے ہوںگے یا اس سے ماورا؟ اہل الرائے کی یہ قومی ذمہ داری ہے کہ وہ واضح مو قف اختیار کریں۔ غیر جانب داری تجزیے میں ہوتی ہے، مو قف میں نہیں۔