سیاست کے بکھیڑوں میں ایک اہم خبر نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
اس سال سی ایس ایس کے امتحانات میں9643 نوجوان شریک ہوئے۔ صرف 202 تحریری امتحان میں کامیاب ہو سکے۔کامیابی کا تناسب 2.09 فیصد ہے۔چند دن پہلے جب یہ خبر پڑھی تو ہاتھ بے اختیار سرہانے رکھی ایک کتاب کی طرف اٹھا۔ یہ ڈاکٹر شاہد صدیقی، وائس چانسلر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی نئی تصنیف ہے: Education Policies in Pakistan...Politics,Projections and Practices یہ پاکستان کی تعلیمی پالیسیوں کا ایک ہمہ جہتی جائزہ ہے۔ مجھے خیال ہوا کہ اس کتاب میں ممکن ہے میری تشویش کا کوئی علاج ہو۔کم از کم یہ تو معلوم ہو کہ اس تعلیمی زوال کے اسباب کیا ہیں۔ میں نے کتاب کیاکھولی، حیرت کا باب کھل گیا۔ معلوم یہ ہوا کہ یہ محض ایک دن کی کمائی نہیں ہے۔ تعلیم کو ہم نے روزِ اوّل سے جس طرح نظر انداز کیا، یہ اس کا ناگزیر نتیجہ ہے۔
یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ اعلیٰ تعلیم، بنیادی تعلیم، مذہبی تعلیم، خواتین کی تعلیم، نصاب سازی اور تربیتِ اساتذہ جیسے بنیادی تعلیمی مسائل پر ریاست کی سطح پر کیا سوچا گیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ہماری حکومتوں نے کسی اپنی بنائی ہوئی پالیسیوں کوبھی در خور اعتنا نہیں سمجھا۔ سفارشات دھری کی دھری رہ گئیں۔ سی ایس ایس کے امتحانات کا یہ نتیجہ در اصل اعلیٰ تعلیم کے میدان میں ہمارے حسنِ کارکردگی کا ایک بیان ہے۔ اس امتحان میں وہی نوجوان بیٹھ سکتا ہے جس کی کم از کم تعلیم بی اے ہو۔ پاکستان میں یہ اعلیٰ تعلیم شمار ہوتی ہے۔ ابتدا میں ثانوی درجے کی تعلیم بھی اعلیٰ تعلیم میں شمار کی جاتی تھی۔ اس کااہتمام بھی یونیورسٹیوں کے ذمہ تھا۔ 1954ء میں 'پنجاب یونیورسٹی ایکٹ‘ میں ترمیم کی گئی اور ثانوی تعلیم کے لیے بورڈز بنائے گئے۔
پاکستان بنا تو ہمارے حصے میں صرف دو یونیورسٹیاں آئیں، پنجاب یونیورسٹی اور ڈھاکہ یونیورسٹی۔ سندھ یونیورسٹی1947ء میں قائم ہو ئی۔ اعلیٰ تعلیم کے کمیشن کے مطابق، اب جامعات اور اسناد جاری کرنے والے اداروں کی تعداد 177 ہو چکی ۔ 2012-13ء میں، ان میں 1.60ملین طلبہ و طالبات نے داخلہ لیا۔گویا یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ تھے۔ ان کا ایک حصہ وہ ہے جو سی اسی ایس کے امتحانات میں شریک ہوا۔ اس کی کارکرد گی ہم نے دیکھ لی۔ ان جامعات میں تحقیق کا جو عالم ہے، وہ ڈاکٹر شاہد صدیقی کے الفاظ میں 'کربناک‘ ہے۔ اس کی تصدیق دیگر بہت سے ذرائع کر رہے ہیں۔ QS برٹش رینکنگ سسٹم (2016ء) کے مطابق دنیا کی پچاس یونیوسٹیوں میں پاکستان سب سے کم درجے پر ہے۔ امریکہ کی ریٹنگ100برطانیہ کی 98.5 اور بھارت کی24 ہے۔ پاکستان کی 9.2 ۔ 1947ء کی پہلی تعلیمی کانفرنس میں، اس وقت کے وزیر تعلیم نے کہا تھا کہ یونیوسٹیاں محض اسناد بانٹنے والے ادارے نہ ہوں، یہ علم و تحقیق کے مراکز ہوں۔ تحقیق کے لیے ہم ان جامعات کو جو خام مال فراہم کر رہے ہیں، اس کی حالت ان نتیجے سے واضح ہے جو اس کالم کا نقطہ آغاز ہے۔
اس کتاب میں ایک باب مدرسہ تعلیم پر بھی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مدرسے کو عمومی تعلیم کا حصہ بنانے کی خواہش تو پہلے دن ہی سے موجود تھی لیکن ہمارے پاس اس کے لیے کوئی واضح لائحہ عمل نہیں تھا۔1947ء کی تعلیمی کانفرنس میں اس کا اظہار کیا گیا۔ ہر تعلیمی پالیسی میں اس پر بات ہوئی لیکن کوئی ایک تجویز ایسی سامنے نہیں آئی کہ ان مدارس کو کس طرح قومی تعلیمی نظام کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ 1972ء کی تعلیمی پالیسی میں یہ اعتراف کر لیا گیا کہ اس باب میں 'سٹیٹس کو‘ ہی کی حکمرانی ہے۔ ضیاالحق صاحب نے افغانستان میںان مدارس سے کام لینا چاہا تو انہیں نوازنے کا فیصلہ کیا کہ امریکہ کی خواہش بھی یہی تھی۔ مشرف صاحب کے دور میں مدارس کے بارے میں رائے تبدیل ہوئی تو انہیں ملزم بنا دیا گیا۔ اس بار امریکہ کی خواہش یہی تھی۔
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نااہلی کے ساتھ، ایک مسئلہ سیاسی ترجیحات بھی تھا جس نے تعلیم کو متاثر کیا۔ اس کتاب میں دو ابواب ایسے ہیں جن میں ان تعلیمی پالیسیوں کا سیاسی و سماجی پس منظر اور نظریاتی پہلو زیر ِ بحث ہے۔ زبان کا مسئلہ بھی ہماری تاریخ میں نزاع کا عنوان بنا۔ اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح بنگلہ زبان کو قومی اور تعلیم کی زبان بنانے کے مسئلے پر اٹھنے والے اختلاف نے ہمارے قومی وجود کی رگوں میں نفرت کا زہر گھولا۔
فروری 1948ء میں جب دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس ہوا تو یہ تجویز سامنے آئی کہ اراکینِ اسمبلی اظہارِ خیال کے لیے اردو اور انگریزی زبان کا انتخاب کریں۔ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے حزبِ اختلاف کے ایک رکن نے تجویز پیش کی کہ ان زبانوں میں بنگالی کو بھی شامل کر لیا جائے جو پاکستان کے 56 فیصد شہریوں کی زبان ہے۔ اس کی مخالفت کرنے والوں میں وزیراعظم لیاقت علی خان کے ساتھ مشرقی پاکستان کے وزیراعلیٰ خواجہ ناظم الدین بھی شامل تھے جن کا تعلق ڈھاکہ سے تھا۔ یوں یہ تجویز مسترد کر دی گئی۔ بعد میں بھی جب خواجہ ناظم الدین نے مشرقی پاکستان کا دورہ کیا تو 26 فروری 1952 ء کو پلٹن میدان میں ایک جلسے سے خطاب کیا۔ اس خطاب میں بھی انہوں نے دو ٹوک لہجے میں کہا کہ پاکستان کی قومی زبان صرف اردو ہو گی۔ یہ در اصل قائداعظم کے اس اعلان کی تائید تھی جو انہوں نے 1948ء میں ڈھاکہ میں کیا تھا۔
تعلیم صرف سیاست اور نااہلی ہی کا شکار نہیں ہو ئی، عدم توجہ کی مستحق بھی ٹھہری۔ پاکستان کی تاریخ میں صرف ایک بار،1997ء میں ہمارے تعلیم بجٹ نے جی ڈی پی کے تین فیصد کو چھوا، ورنہ یہ ہمیشہ تین فیصد سے کم رہا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کی ریاست قوم کی تعلیمی ضرویات پورا کرنے میں ناکام رہی۔ ایک ناگزیر نتیجے کے طور پرنجی شعبہ آگے بڑھا۔ ریاست اسے بھی لگام نہیں دے سکی۔ اس نے تعلیم کو سب سے زیادہ نفع بخش کاروبار میں بدل ڈالا۔ 'پاک سوشل اینڈ لیونگ سٹینڈرڈ سروے 2013-14‘کے مطابق اعلیٰ تعلیم پاکستان میں ایک مہنگا ترین عمل ہے۔ ایک عام شہری کا اگر ایک بچہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہا ہے تو اس کے بجٹ کا سب سے بڑا حصہ اس پر خرچ ہو رہا ہے۔ سرکاری سطح پر اس کا اوسط خرچ 25374 روپے ہے۔ اگر بچہ کسی نجی ادارے میں پڑھتا ہے تو یہ خرچ42704 روپے ہے۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں جہاں ٹرانسپورٹ کے بھی مسائل ہیں، یہ خرچ اس سے بھی زیادہ ہے۔
اتنے پاپڑ بیلنے کے بعد جو اعلیٰ تعلیم مل رہی ہے، اس کا بھانڈا سی ایس ایس کے امتحانی نتائج نے پھوڑ دیا۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ کارکردگی کا سب سے پست مظاہرہ جنرل نالج اور انگریزی زبان میں ہوا۔کہتے ہیں کہ فیڈرل سروسز کمیشن نے اس تعلیمی زوال کا معاملہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سامنے اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر یہ معاملہ زیرِ بحث آ رہا ہے تو اسے دو حوالوں سے مخاطب بنایا جاناچاہیے۔ ایک یہ کہ ریاستی سطح پر ہماری تعلیمی پالیسیاں کیا رہیں اور ان پر کتنا عمل درآمد ہوا۔ ساتھ یہ کہ خود ریاست کی سطح پر ان معاملات کی تفہیم کس درجے کی ہے۔ اس کے لیے ڈاکٹر شاہد صدیقی کی یہ کتاب بہت معاونت کر سکتی ہے۔ تعلیم کے مو ضوع پر ان کی دیگرکتب سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نو جوانوں میں معاملہ فہمی کی سطح کیا ہے؟ میرا تجربہ یہ ہے کہ مذہب اور سیاست کے باب میں یہ سطح بہت پست ہے۔ ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی نے گیلپ کے تحت ایک سروے کیا تھا کہ 2013ء کے انتخابات میں بی اے پاس ووٹر کا رجحان کیا تھا۔ یہ سروے بھی میرے تجربے کی تائید کر رہا ہے۔ تعلیم جب نظر انداز ہو گی تو اس کا یہی نتیجہ متوقع ہے۔