''نوازشریف کے جرائم ثابت کرنے کے لیے کسی عدالت یا اس کے فیصلے کی ضرورت نہیں۔‘‘
یہ تحریکِ انصاف کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین صاحب کا تازہ ترین ارشاد ہے۔ یہ جملہ اس جماعت کے تصورِ سیاست اور لائحہ عمل دونوں کی بھرپور ترجمانی کر رہا ہے۔ اس سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ ان کے نزدیک عدالت کی کیا اہمیت ہے اور اگر عدالت کا فیصلہ ان کے خلاف آیا تو ان کا ردِ عمل کیا ہوگا؟ اس اعلان کے بعد، کیا عدالتی عمل کی کوئی حیثیت باقی ہے؟ اس سوال کا جواب معزز دانش وروں پر چھوڑتے ہوئے، میں اس سیاست کے ایک اہم تر پہلو کو موضوع بنانا چاہتا ہوں۔
دنیا میں تبدیلی کے دو ہی ماڈل ہیں۔ ایک آئینی اور جمہوری اور دوسرا انقلابی۔ جمہوریت میں ایک فرد یا گروہ کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنا نقطہ نظر بیان کرے۔ اگر اس کا میدان سیاست ہے تو وہ عوام کے سامنے اپنا موقف رکھے۔ ابلاغ کے ممکنہ ذرائع استعمال کرتے ہوئے، ان کو قائل کرنے کوشش کرے اوراس کے بعد یہ حق عوام کو سونپ دیا جائے کہ وہ اسے قبول کرتے ہیں یا نہیں۔ یہ حق ظاہر ہے کہ ایک سے زیادہ جماعتیں استعمال کرتی ہیں۔ اب یہ فیصلہ کیسے ہو کہ عوام کسے چاہتے ہیں، اس کے لیے انتخابات کو بطور طریقہ اختیار کر لیا گیا ہے۔ اس سے کسی تصادم اور جان و مال کے ضیاع سے بچتے ہوئے، عوام کی رائے کے مطابق لوگ ایوانِ اقتدار میں آتے اور رخصت ہوتے ہیں۔
انقلابی ماڈل اس پر یقین نہیں رکھتا۔ اس کے مطابق جمہوریت اور انتخابات دراصل وہ ڈھکوسلے ہیں جوایک مرعات یافتہ طبقے نے ایجاد کر رکھے ہیں تاکہ دھوکہ دہی سے اپنا اقتدار قائم رکھے۔ یہ طبقہ ریاست کے قانون اور اداروں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ عدالتیں اسی طبقے کی محافظ ہیں اور قانون ساز ادارے اسی کے مفاد میں قانون بناتے ہیں۔ معاشرہ دراصل دوطبقات پر مشتمل ہے۔ عوام یا محروم طبقہ اوربرسرِ اقتدار طبقہ۔ عوام کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ اس طبقے سے اقتدار چھین لیں۔ یہ کام اداروں کی مدد سے نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ تو ہیں ہی اس طبقے کے مفادات کی نگہبانی کے لیے۔کسی کو کرپٹ ثابت کرنے کے لیے کسی عدالتی فیصلے کی ضرورت نہیں۔ اِن کے محلات، ٹھاٹ باٹ، پرتعیش رہن سہن، یہ سب ثبوت کیا کافی نہیں ہیں کہ انہوں نے یہ سب عوام کے حق مار کرجمع کیے ہیں؟ ان شواہد کی مو جودگی میں مزید ثبوت یا عدالتی فیصلے کی ضرورت نہیں۔ عوام یہ فیصلہ براہ راست اپنی طاقت سے کریں گے کہ ملک پر کون حکومت کرے گا۔
یہ موقف عوام میں ہمیشہ مقبول رہا ہے، خاص طور پر ان معاشروں میں جہاں سماجی و معاشی تفاوت زیادہ ہے۔ جدید تاریخ میں، سب سے پہلے کمیونزم نے تبدیلی کے اس ماڈل کو 'سائنسی بنیادوں‘ پر استوار کیا۔ تاریخی عمل کی ایک طبقاتی تعبیر کی اور معاشرے کو بورژوا اور پرولتاریہ، دوطبقات میں تقسیم کیا۔ بعد میں اسلام پسندوں نے بھی اس ماڈل کو اختیار کر لیا،اس فرق کے ساتھ کہ انہوں نے اس کی سائنسی کے بجائے،ایک الہیاتی اور مابعد الطبیعاتی تعبیر پیش کی۔ دونوں میں بعض باتیں مشترک ہیں۔ ایک یہ کہ مقصد کے حصول کے لیے پہلے سے مو جود نظام سے تصادم ناگزیر ہے۔ دونوں اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ چونکہ وہ انقلابی تبدیلی کے نقیب ہیں،اس لیے لازم ہے کہ 'سٹیٹس کو‘ کی قوتیں ان کا راستہ روکیں۔ اس لیے اس عمل میں خون کے بہنے کو،ایک ناگزیر نتیجے کے طور پر قبول کیا جائے گا۔ اس کی وجہ فیض صاحب نے شاعرانہ اسلوب میں بتا دی کہ ع
ہر راہ جو اُدھر کو جاتی ہے مقتل سے گزر کر جاتی ہے
اسی طرح دونوں کے نزدیک 'سٹیٹس کو‘ سے بغاوت بھی لازم ہے۔ اشتراکی اپنی اصطلاح میں اسے بورژوا طبقہ کہتے ہیں اور اسلام پسند ان کے لیے مذہبی اصطلاح 'طاغوت‘ استعمال کرتے ہیں۔
یہ بیسویں صدی کی معلوم علمی اور فکری بحثیں ہیں جب دنیا میں تبدیلی کے عمل کو نظریاتی پس منظر میں دیکھا جاتا تھا۔ اس کشمکش میں اس سرمایہ دارانہ نظام کی فتح ہوئی، جس کا بڑا مظہر جمہوریت ہے۔ تجربے نے ثابت کیا کہ جمہوریت ہی موزوں ترین نظام ہے جس میں، سماج کو کسی تصادم میں مبتلا کیے بغیر،انتقالِ اقتدار ممکن ہے۔ سب نے مقامی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے،جزوی تبدیلوں کے ساتھ اسے قبول کر لیا۔ پاکستان جیسے ملکوں میں اسلام پسندوں نے بھی، بعض آئینی ضمانتوں کے ساتھ، اسے مان لیا۔ یوں دنیا سے انقلابی سیاست کا کم و بیش خاتمہ ہوگیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ جمہوریت نے اظہار رائے کی آزادی کو بڑی حد تک یقینی بنا دیا۔ یوں اس بنیاد کو ختم کر دیا جو ہمیشہ انقلاب کا سب سے بڑا سبب رہا ہے، یعنی آزادیٔ رائے پر پابندی۔
اقتدار کے ان متلاشیوں کے لیے، جو ووٹ کے ذریعے برسرِ اقتدار نہیں آ سکتے، ایک کھڑکی البتہ آج بھی کھلی رہی جسے ہم ‘پاپولزم‘ کہتے ہیں۔ یہ ایک آئینی اور جمہوری نظام کے اندر انقلابی سوچ کا ظہور ہے۔ اس میں عوامی جذبات کو کسی ایسے مسئلے پر مشتعل کیا جاتا ہے جسے حل کرنے پر ریاستی نظام قادر نہیں ہوتا۔ ضروری نہیں کہ یہ کوئی عوامی یا معاشی مسئلہ ہو۔ اس کا تعلق کسی نسلی یا مذہبی تعصب سے بھی ہو سکتا ہے۔ جہاں معاشی وسماجی تفاوت ہو، وہاںعوام کو اشتعال دلانے کا یہ عمل آسان تر ہو جاتا ہے۔
یہ عمل ترقی یافتہ مغرب میں بھی جاری ہے۔ فرید زکریا نے اپنے تازہ ترین تجزیے میں 'پاپولزم‘ کی اس تازہ لہرکو مو ضوع بنایا ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ کیسے سویڈن جیسے خوش حال معاشرے سے لے کر یونان جیسے بدحال سماج تک، عوامی جذبات سے کھیلنے کا عمل جا ری ہے۔ ٹرمپ بھی اسی 'پاپولزم‘ کو استعمال کر رہے ہیں۔کوئی امریکی حکومت مسلمانوں کو نکال سکتی ہے نہ میکسیکو کے لوگوں کو۔ ٹرمپ لیکن اسے ایک عوامی مسئلہ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ وہ امریکیوں کو یہ سبز باغ دکھا رہے ہیں کہ اگر یہ لوگ نکل جائیں تو امریکی معاشرہ زیادہ پر امن ہو جائے گا اور امریکیوں کے لیے ملازمت کے مواقع بڑھ جائیں گے۔ بنظر غائر یہ پُرکشش تصور ہے، اس لیے پاپولر ہے۔
پاکستان میں اگر تحریکِ انصاف کی سیاست کو دیکھا جائے تو وہ اسی 'پاپولزم‘ کے دائرے میں آتی ہے۔ یہ خود کو انقلابی نہیں، جمہوری کہتی ہے کہ آئین کے مطابق جاری عمل کا حصہ ہے لیکن عملاً کسی ادارے کو نہیں مانتی کہ عوامی جذبات کو مشتعل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ جہانگیر ترین کا تازہ بیان دراصل اسی کا اظہار ہے۔
'پاپولزم‘ کے یہ علم بردار لیکن ایک بات بھول جاتے ہیں۔ جدید ریاست ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ منظم ہے۔ جمہوریت نے جو ادارہ سازی کی ہے،اس میں طاقت کا مرکز ایک نہیں،کئی ہیں۔ پاکستان جیسے معاشروں میں جہاں جمہوری ادارے کم عمر ہونے کے باعث کمزورہیں، وہاں ان مراکز کے مابین اختیار کی کش مکش جاری رہتی ہے۔ جب 'پاپولزم‘ کے علم برادر، عوامی جذبات کو مشتعل کر کے، 'سٹیٹس کو‘ کے خلاف تحریک چلاتے ہیں تو اس کا فائدہ قوت کے مو جود مراکز میں سے کسی ایک کو پہنچتا ہے۔ اگر یہ عناصر نا کامیاب ہوتے ہیں تو اس کا فائدہ موجود نظام میں اس قوت کو پہنچتا ہے جو عوام یا جمہوریت کی نمائندہ ہے۔ اس طرح وہ مضبوط تر ہوکر سامنے آتی ہے۔ اگر یہ عناصر کامیاب ہوتے ہیں تو اس کا فائدہ اس قوت کو پہنچتا ہے جسے ہم غیر جمہوری کہتے ہیں اور وہ زیادہ طاقت ور ہو کر سامنے آتی ہے۔ 'پاپولزم‘ کے علم برداروں کا ہاتھ، دونوں صورتوں میں خالی رہتاہے۔
تحریک انصاف آج پاپولزم کی سیاست کر رہی ہے۔ اگر یہ ناکام ہو تی ہے تو اس کا فائدہ نوازشریف کو پہنچے گا اور وہ زیادہ طاقت ور ہو جائیں گے۔ اگر کامیاب ہوتی ہے تو اس کا نتیجہ مارشل لا ہے۔کیا تحریکِ انصاف کی صفوں میں کوئی ایک رجلِ رشید ہے جو اس پہلو سے غور کر سکے؟