پرویز رشید بہت دنوں کے بعد سینیٹ میں آئے تو ان کا والہانہ استقبال ہوا۔ سوال یہ ہے کہ پرویز رشید نے آخر کون سا ایسا کارنامہ سر انجام دیا تھا کہ سینیٹ میں ان کی پذیرائی محاذِ جنگ سے لوٹنے والے ایک بہادر سپاہی کی طرح ہوئی؟
یہ آج کا اہم ترین سوال ہے۔ اگر ہم اس کو حل نہ کرسکے تو پاکستان کو عدم استحکام کے خدشات سے نہیں نکالا جا سکتا۔ بمشکل سال گزرتا ہے کہ سیاسی نظام کا سفینہ کسی گرداب میں پھنس جاتا ہے۔ ٹی وی کی چھوٹی سی سکرین سے ایک مہم اٹھتی ہے جو پورے ملک کا احاطہ کر لیتی ہے۔ یہ سکرین چوبیس گھنٹے قوم کو اضطراب میں مبتلا رکھتی ہے۔ قلم تلوار بنتے اور بے نیام ہو جاتے ہیں۔ ایسی ہر مہم کا ہدف سیاسی قیادت ہوتی ہے۔ معاشرے کو باور کرا دیا جاتا ہے کہ اس ملک کے تمام مسائل کا سبب اہلِ سیاست ہیں، جب تک ان سے نجات کی کوئی صورت دریافت نہیں ہوتی ،اصلاحِ احوال کا کوئی امکان نہیں۔ لوگ حسبِ توفیق متبادل پیش کرتے اور ایک نسخہ کیمیا کے طور پراسے بازار میں لے آتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ ایسے لوگ اس مہم کے سرخیل بن جا تے ہیں جن پر سیاست دان کی تہمت بھی دھری ہوتی ہے۔ اتنا اہتمام بہر حال ہوتا ہے کہ سرخیل کی پاک دامنی کے قصے بھی ساتھ ہی عام ہوتے رہیں۔اب یہ بھی واضح ہو چکا کہ اصل کہانی میں ان کا کردار صرف زیبِ داستاں کے لیے ہوتا ہے۔
ایساں کیوں ہوتا ہے؟جب اصولی طور پر اس پر اتفاق ہے کہ جمہوریت ہی ہمارے مسائل کا حل ہے تو پھرمتبادل کی تلاش کیوں؟ سب جانتے ہیں کہ اس کا ایک ہی سبب ہے اور وہ ریاستی اداروں میں اختیارات کی کشمکش ہے۔ ہم آج تک یہ نہیں جان سکے کہ ریاست میںقوت کا حقیقی مرکز کون سا ہے؟ ریاست کے موجودہ نظام میں، یہ تو ممکن نہیں رہا کہ کوئی ایک ادارہ قادرِ مطلق ہو۔ یہ دنیا میں کہیں نہیں ہوتا لیکن نظام کی بقا کے لیے لازم ہے کہ پلڑا کسی ایک جانب جھکا رہے۔کسی ایک کے پاس ویٹو کا حق ہو۔ صنفی اعتبار سے مرد اور عورت میںکوئی دوسرے سے برتر نہیں، مگر یہی مرد اورعورت جب خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں تو مشاورت کے اصول کے ساتھ یہ ناگزیر ہے کہ پلڑا کسی ایک جانب جھک جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ سنایا کہ خاندان کی سربراہی اس کے لیے ہے جو معاشی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ انسانی سماج کی تاریخ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ عام طور پر مرد ہی خاندان کا ''قوّام‘‘ رہا ہے، اس لیے اسلام نے خاندان کی سربراہی مرد کو سونپ دی۔
ریاست کے باب میں پاکستان کے آئین نے یہ مسئلہ حل کر دیا ہے۔ ہم نے بطور اصول جو باتیں طے کی ہیں، ان میں سے ایک پارلیمانی نظام ہے۔ سادہ لفظوں میں ہم نے بطور قوم جس ریاستی بندو بست کو قبول کیا، اس میں اختیارات کا توازن پارلیمان کی طرف جھکتا ہے۔ اصول یہ ہے کہ طاقت کا مرکز عوام ہیں۔ ان کی نمائندگی پارلیمان کرتا ہے،لہٰذا گھر کے نظام میں جو اہمیت مرد کی ہے، وہی ریاستی نظام میں پارلیمان کی ہے۔ ماضی بعید میں ہم کسی ایک آئین پر متفق نہیں ہو پائے لیکن 1973ء کے بعد تو ہم نے اجماع سے یہ مسئلہ حل کر دیا۔ بد قسمتی سے فوجی آ مریتوں نے اس اجماع کو اپنے بوٹوں تلے روند ڈالا۔ یہ کانامہ پہلے ضیاالحق صاحب اور پھر پرویز مشرف صاحب نے سر انجام دیا۔
اقبال نے متنبہ کیا تھا کہ 'غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر‘۔ ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا۔ مارشل لا میں ایک نیا بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش ہوئی جس میں اس بیانیہ کو چیلنج کیا گیا جس میں جمہور کو قوت کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ ضیا الحق صاحب نے نئے بیاننے کے لیے اسلام کا سہارا لیا۔کبھی یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ اسلام میں سیاسی جماعتوں کی اجازت نہیں۔کبھی شوریٰ سازی ہوئی۔کبھی علما نے مدد کی کہ اسلامی تاریخ کا پہلا مارشل لا حضرت ابو بکر صدیقؓ نے لگا یا تھا۔ اسی بیانیے کو پرویز مشرف صاحب نے سیکولر یا غیر مذہبی استدلال کے ساتھ پیش کیا۔ اس میں 'کرپشن کا خاتمہ‘ اور 'سب سے پہلے پاکستان‘ کو نئے بیانیے کی بنیاد بنایا گیا۔ ضیا الحق صاحب کے سامنے پیپلز پارٹی 'جمہور کی آواز‘ تھی۔ اس کے لبرل تشخص کے خلاف پہلے ہی مذہب کا بیانیہ کامیابی کے ساتھ استعمال ہو رہا تھا۔ ضیاالحق صاحب نے اسی کو جاری رکھا۔ مشرف صاحب کے سامنے مسلم لیگ 'جمہور کی آواز‘ تھی۔ انہوں نے 'کرپشن کے خاتمے‘ کو اپنے بیانیے کا مرکز قرار دیا کیونکہ ا س کی قیادت کے خلاف کرپشن کے الزام پہلے مو جود تھے۔ہماری قلبِ ماہیت یوں ہوئی کہ اب جمہور مخالف بیانیہ پورے اعتماد کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔
کیا ضیاالحق صاحب نے اسلام نافذکر دیا؟ کیا انہوں نے ہمیں وہ نظام دے دیا جس نے خلافتِ راشدہ کی یاد تازہ کرد ی؟ کیا مشرف صاحب نے کرپشن کا خاتمہ کر دیا؟ کیا سب سے پہلے پاکستان کے نعرے نے ملک کو داخلی اور خارجی چیلنجوں سے محفوظ بنا دیا؟ ان سب سوالات کے جواب نفی میں ہیں۔ مجھے رتی برا بر شبہ نہیں کہ دونوں کا مقصد جمہور کے بجائے ایک دوسرے مرکزِ قوت کومستحکم کرنا تھا۔ ایک نے جمہور کی مرکزیت کو اسلام کے نام پر چیلنج کیا اور دوسرے نے کرپشن کے نام پر۔ دونوں میں ایک قدرِ مشترک یہ تھی کہ انہوں نے جمہور کے نمائندوں کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا۔ ایک نے بھٹو خاندان کوسکیورٹی رسک بنایا اور دوسرے نے شریف خاندان کو۔ قوم کا اجتماعی شعور اس بات کو کبھی قبول نہیں کر سکا کہ جس نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے عمل کا آغاز کیا اور جس نے دنیا کے سامنے اس کا اعلان کیا، وہ سکیورٹی رسک کیسے ہو سکتے ہیں؟ جو نوے ہزار فوجیوں کی رہائی کے لیے اندرا گاندھی سے مذاکرات کرتا رہا اور جو کارگل کے پس منظر میں پاک فوج پر منڈلاتے سائے کو ٹالنے کرنے کے لیے واشنگٹن میں ڈیرے ڈالے رہا، وہ دونوں سکیورٹی رسک کیسے ہو سکتے ہیں؟
اس کے باوجود سیاست دانوں کی کردار کشی کا عمل جاری رہا۔ بظاہر جمہور کی رائے سے حکمران منتخب ہوئے لیکن یہ کشمکش ختم نہیں ہو ئی کہ طاقت کا مرکز کون ہے۔ انگریزی اخبار میں ایک خبر کی اشاعت اس قضیے کو برسرِِ زمین پر لے آئی جوزیر ِزمین ہمیشہ موجود رہا۔ منتخب حکومت کی صفِ اوّ ل کی قیادت جب باجماعت راولپنڈی پہنچی تو یہ واضح تھا اب بھی کون کس کو جواب دہ ہے؟ پرویز رشید کا سینیٹ میں استقبال دراصل اسی کا جواب ہے۔ پارلیمان کا ایک ایوان زبان ِحال سے یہ کہہ رہا ہے کہ اس ملک کا سیاسی نظام پارلیمانی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمان بالا دست ہے۔ چیئرمین سینٹ نے یہ بھی کہا کہ اگر فوج اور عدلیہ کا داخلی نظامِ احتساب ہے تو پارلیمان کے ایک رکن کا احتساب بھی پارلیمان ہی کرے گی۔
گویا وہ بنیادی سوال اپنی جگہ مو جود ہے کہ پاکستان میںطاقت کا پلڑا کس جانب جھکنا ہے۔ اگر آئین پارلیمانی نظام کو بنیادی اصولوں میں شمار کرتا ہے تو پھر یہ پلڑا پارلیمان کی کی طرف جھکنا چاہیے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ دیگر ریاستی ادارے
بے وقعت ہو جائیںگے۔ فوج، عدلیہ ریاست کی ستون ہیں۔ ان کے کمزور ہونے سے ریاست قائم نہیں رہ سکتی۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم نے کس کو ریاست کا 'قوّام‘ ماننا ہے۔ اگر ہم ویٹوکا حق کسی دوسرے کودینا چاہتے ہیں تو اس پر بھی کھل کر بات کرنی چاہیے۔
مجھے معلوم ہے کہ اس مقدمے کے جواب میں لوگ سیاست دانوں کی کمزوریاں بیان کریں گے۔کہا جائے گا: وزیر اعظم خودکب پارلیمان میں آتے ہیں؟ ان کی خدمت میں پیشگی عرض ہے کہ وہ کوئی نئی دلیل لے کر آئیں۔ اس بات کا جواب بار ہا دیا جا چکا۔