"KNC" (space) message & send to 7575

پیپلزپارٹی کا احیا؟

پیپلزپارٹی،کیا پنجاب میں اپنی عظمتِ رفتہ کو لوٹا سکتی ہے؟
پنجاب پیپلزپارٹی کی نئی قیادت سامنے آ چکی۔ اس سے بہتر انتخاب ممکن نہیں تھا۔ قمرزمان کائرہ ایک سنجیدہ آ دمی اور نظریاتی سیاست کے علم بردار ہیں۔ یہ وہ جنس ہے جو بازارِ سیاست میں مدت سے نایاب ہے۔ نظریاتی سیاست کیا ہوتی ہے اور اس نے ہمیں کیا دیا، اس سوال سے گریز کرتے ہوئے، اس کا ایک فائدہ بہر حال ہوا کہ سیاست شخصی اقتدار کا کھیل نہیں رہی۔کچھ آدرش بھی اس کا حصہ بن گئے۔ کائرہ صاحب بھی انہی لوگوں میں ہیں جو نظریہ رکھتے ہیں۔ وہ ان چند سیاست دانوں میں سے جو پارٹی سے ماورا، احترام کی نظر سے دیکھے جا تے ہیں۔ ندیم چن بھی اپنی سیاسی ساکھ کے بارے میں حساس رہتے ہیں۔ بلاول بھٹو ان دنوں بہت متحرک ہیں۔ یہ سرگرمیاںکتنی ثمر بار ہوںگی، اس کا جواب ابھی مستقبل کے پردے میں مستور ہے۔ تجزیہ اسی پردے میں جھانکنے کا نام ہے۔
کبھی پیپلزپارٹی پنجاب کی سب سے بڑی جماعت تھی۔ یہ سب لوگ آج کہاں ہیں؟
میرا احساس ہے کہ پیپلزپارٹی کے زوال کے بعد، کچھ لوگ تو وہ ہیں جو مایوس ہو کر عملی سیاست سے لاتعلق ہو گئے۔ ان کے لیے اس جماعت کا کوئی متبادل موجود نہیں تھا۔ یہ زیادہ تر وہ لوگ تھے جو بڑی حد تک نظریاتی سیاست کے علم بردار تھے۔ پاکستان میں آج بھی لبرل سیاست کا فورم یہی جماعت سمجھی جاتی ہے۔ دوسرا گروہ ان لوگوں کا تھا جو دھڑے کی سیاست کرتے اور سیاست میں زندہ رہنا چاہتے تھے۔ پیپلزپارٹی کے بعد، ان کے لیے ن لیگ کا متبادل تحریکِ انصاف ہی ہو سکتی تھی۔ انہوں نے اس جماعت کا رخ کیا۔ نوازشریف سے ان کی نفرت بہت گہری ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ پنجاب میں ابھرنے والے پہلے رہنما تھے جنہوں نے پیپلزپارٹی کے مخالفین کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیا۔اس سے پہلے مختلف جماعتیں پیپلزپارٹی کے خلاف اتحاد کرتی تھیں اور پھر بھی ناکام رہتی تھیں۔ جنرل ضیاالحق نے اس راز کو جان لیا تھا کہ پنجاب میں ایک لیڈر کی ضرورت ہے جو پیپلز پارٹی کی لبرل سیاست کے خلاف روایتی حلقوں کو جمع کر سکے۔ ان کی نظرِ انتخاب نوازشریف صاحب پر پڑی۔ اس کے بعد جو ہوا، وہ سامنے کی تاریخ ہے۔
بے نظیر بھٹو صاحبہ زندہ رہتیں تو شاید منظر ایک بار پھر بدل جاتا۔ بصیرت، جو تجربے اور عمر سے آتی ہے، ان کی شخصیت سے جھلکنے لگی توان کی زندگی کا چراغ بجھا دیا گیا۔ آصف زرداری صاحب پنجاب میں پارٹی کو منظم نہیں کر سکے۔ حیرت ہوتی ہے کہ اُن جیسے جہاں دیدہ آ دمی نے سب سے بڑے صوبے میں پارٹی قیادت کے لیے منظور وٹوصاحب کا انتخاب کیا۔ انہوں نے پیپلزپارٹی کی صفوں میں مزید مایوسی پھیلانے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا۔ اس پر مستزاد زرداری صاحب کا ملک سے باہر ہونا۔ اس فضا میں بلاول بھٹو کی آمد نے امید پیدا کی۔ راکھ سے دھواں اٹھنے لگا۔ کائرہ صاحب کی آمد سے، اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ دھواں شعلہ بنتا ہے یا نہیں۔
پیپلز پارٹی کو اپنی بھٹکی ہوئی بھیڑوں کو تلاش کرنا اور پھر ایک گلہ بنانا ہے۔کائرہ صاحب اگریہ کام کر گزرے تو پنجاب میں پارٹی کا احیا ممکن ہو گا۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ وہ لبرل سیاست کے علم برداروں کی آس کو زندہ کر دیں۔ یہ میری خواہش نہیں، تجزیہ ہے۔ میں ایک مذہبی آدمی ہوں اور انسان کو لبرل (آزاد) نہیں، خدا کا بندہ سمجھتا ہوں۔ تاہم سارا پاکستان میرا ہم نوا نہیں ہے۔ بہت سے لوگ لبرل اقدار پر یقین رکھتے ہیں۔ انہیں ایک سیاسی پلیٹ فارم کی ضرورت ہے۔ اگر پیپلزپارٹی ان کو ایک بار پھر جمع کر دے تو اس کی سیاسی ساکھ بہتر ہو سکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ وہ روایتی دھڑے کی سیاست کرنے والوں کو ایک بار پھر اپنی طرف متوجہ کرے۔ وہ اسی وقت واپس آئیں گے جب انہیں یقین ہو گا کہ ان کے ذاتی ووٹ، پارٹی ووٹ کے ساتھ مل کر انہیں کامیاب بنا سکتے ہیں۔ یہ تاثر پیدا کرنا کائرہ صاحب کے لیے سب سے بڑا امتحان ہو گا۔
بلاول کو ابھی سیاست میں بہت کچھ سیکھنا ہے۔انہیں جو ابتدائی اتالیق میسر آئے، میرا خیال ہے کہ انہوں نے بلاول کو ڈھنگ کا سبق نہیں پڑھایا۔ اپنے باپ کی عمر کے لوگوں سے انہوں نے جس لب و لہجے میں کلام کیا، یہ ہماری روایت میں پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا۔ یہی نہیں، جو اسلوبِ سیاست اختیار کیا، وہ بھی اب متروک ہو چکا۔ ان کے کندھوں پر اپنے بڑوںکے کردہ اور ناکردہ اعمال کا بوجھ تھا۔ انہیں یہ تاثر دینا تھا کہ وہ پیپلزپارٹی کا نیا چہرہ ہیں۔ وہ اپنی روایت سے سب کچھ نہیں، وہی کچھ لے رہے ہیں جو قوم کے لیے قابلِ قبول ہے۔ وہ اپنے نئے پن کو زادِ راہ بناسکتے تھے۔ افسو س کہ وہ ایسا نہ کر سکے۔ انہیں اُس روایت سے الگ کر کے نہیں دیکھا گیا جو پیپلزپارٹی کے زوال کا باعث بنی تھی۔
بلاول اگر ایک نئے چہرے (fresh look) کے ساتھ سامنے آتے تو پیپلزپارٹی کے ان لوگوں کو واپس لا سکتے تھے جو ان کے والد یا کسی دوسری وجہ سے پارٹی سے نالاں تھے۔ وہ نئی نسل کو بھی متاثر کر سکتے تھے کہ صحیح معنوں میں وہی جواں سال لیڈر تھے۔ نیا چہرہ نئے پیغام کے ساتھ سامنے آتا توان کی پزیرائی کا امکان کہیں بڑھ جاتا۔ بھٹو عصبیت ابھی زندہ ہے۔ بے نظیر صاحبہ اسی کی بنیاد پر آگے آئیں لیکن انہوں نے اپنی الگ شناخت بھی بنائی۔ بلاول کے لیے بھی یہی راستہ تھا۔ استاد کے غلط انتخاب نے ان کی آمد کو اتنا متاثر کن نہیں رہنے دیا جتناکہ وہ ہوسکتی تھی۔
پیپلزپارٹی کے پاس ابھی موقع ہے۔ بلاول بھٹو نے جو چار مطالبات پیش کیے ہیں، ان میں سے تین ایسے ہیں جن سے ہر معقول آدمی کو اتفاق ہوگا۔ اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ قومی سلامتی پرپارلیمان کی کمیٹی بنائے جائے یا CPEC پر کل جماعتی کانفرنس کی قرارداد پر عمل کیا جائے یا ایک کل وقتی وزیرخارجہ کا تقرر کیا جائے تواس میں کون سی بات غلط ہے؟ ان کے تینوں مطالبات جائز ہیں اور حکومت کو چاہیے کہ وہ انہیں تسلیم کرے۔ چوتھا مطالبہ البتہ ایسا ہے جس سے اتفاق مشکل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاناما پر پیپلزپارٹی کے اس مسوہ قانون کو منظور کیا جائے جو انہوں نے سینیٹ میں پیش کر رکھا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مجوزہ قانون یک طرفہ ہے جس سے جزوی احتساب ہو سکتاہے،کلی نہیں۔ اس کے مقابلے میں حکومت کی طرف سے جو بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے، وہ زیادہ جامع ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ مطالبہ اُس وقت غیر متعلق ہو گیا جب قومی اسمبلی نے پاناما پر تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
پیپلزپارٹی اپنے احیا کے سفر پر نکل پڑی ہے۔ پنجاب میں قیادت کے لیے ایک بہتر انتخاب اس کے لیے نیک شگون ہے۔ تاہم یہ ایک مشکل کام ہے کہ سیاست میں خلا نہیں رہتا۔ پیپلزپارٹی نے جو اثاثہ گنوایا، اس نے نئی جگہ تلاش کر لی ہے۔ وہاں مایوسی اور یہاں امید کا راج ہو گا تو وہ لوٹ سکیں گے ۔یہ بات البتہ واضح ہے کہ ایک چھوٹے صوبے میں قوت کی اساس رکھنے والی جماعت کا پنجاب میں مضبوط ہونا، وفاق کے لیے نیک شگون ہے۔
مجھے احساس ہے کہ بہت سے لوگوں کو اس تجزیے سے اتفاق نہیں ہو گا کہ میں اُس سیاست کے احیا کی بات کر رہا ہوں جسے ان کے خیال میں مر جانا چاہیے۔ ان کی خدمت میں یہی عرض ہے کہ سیاست کی اپنی حرکیات ہیں۔ یہ ہماری خواہش کے تابع نہیں ہوتی۔ اس وقت ملک میں صرف روایتی سیاست ہو رہی ہے۔ اس کو بدلنے کے لیے قوم کو ایک شعوری تبدیلی سے گزرنا ہے۔ اُس وقت تک سیاست موجود حقائق ہی کی ترجمانی کرے گی۔ ایک تجزیہ نگار کی نگارشات عام طور پر دو دائروں کو محیط ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ کیا ہونا چاہیے۔ دوسرا یہ کہ کیا ہو رہا ہے ۔اس تجزیے کا تعلق دوسرے دائرے سے ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں