جھنگ کے ضمنی انتخابات میں، مولانا حق نواز جھنگوی کے بیٹے کی کامیابی ایک اہم واقعہ ہے۔ یہ سماجی سطح پر جاری ایک بڑی تبدیلی کی نشان دہی کر رہا ہے۔
بلاول بھٹو نے اسے نیشنل ایکشن پلان کی ناکامی سے موسوم کیا ہے۔ انہوں نے اپنے اس جملے کی شرح نہیں کی۔ غالباً وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ قومی منصوبہ انتہا پسند گروہوں کو قابو کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ وہ بدستور متحرک ہیں اور نظام میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہے ہیں۔ اس رائے میں جو پہلو نظر انداز ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ مسرور نواز کی کامیابی کسی جبر کا نتیجہ نہیں۔ وہ ایک جمہوری عمل کے ذریعے منتخب ہوئے ہیں۔ سب اہم جماعتیں اس عمل کا حصہ تھیں۔ خود بلاول اپنے امیدوار کی حوصلہ افزائی کے لیے جھنگ گئے۔ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ انہیں حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ حکومتی جماعت کا نمائندہ تو پینتیس ہزار ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہا۔ یہ کامیابی سراسر ان کی اپنی ہے۔
یہ کامیابی انہیں ایسے وقت میں ملی جب ان کا گروہ ایک مشکل سے گزر رہا ہے۔ ریاست کی پالیسی اور عوامی کی رائے، دونوں اُن گروہوں کے لیے سازگار نہیں جو انتہا پسندانہ موقف کی شہرت رکھتے ہیں۔ میڈیا میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ان کے بہت سے افراد مارے جا چکے یا پھر جیلوں میں بند ہیں۔ ان ناموافق حالات میں یہ کامیابی معنی خیز اور ہمارے لیے غور و فکر کا بہت سا سامان لیے ہوئے ہے۔ ہمیں اسے ایک انتخابی یا سیاسی عمل کے بجائے، ایک سماجی عمل کے طور پر دیکھنا ہو گا۔
مسرور نواز کی کامیابی میرے نزدیک ایک مقامی سرگرمی نہیں ہے۔ اس سے یہ اظہار تو ضرور ہوتا ہے کہ جھنگ کی سطح پر اس گروہ کی ایک مضبوط عوامی بنیاد موجود ہے جو سیاست میں بھی ظہور کرتی ہے؛ تاہم اسے ایک منفرد واقعہ قرار نہیں دیا جا سکتا‘ جو ملک کے دوسرے حصوں سے غیر متعلق ہے۔ کراچی میں گزشتہ دنوں فرقہ وارانہ تشدد کے جو واقعات ہوئے، وہ بتا رہے ہیں کہ یہ عمل سرد تو پڑا ہے‘ ختم نہیں ہوا۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے بھارت ان دنوں جس منصوبے پر کام کر رہا ہے، اس میںکراچی بطورِ خاص اس کا ہدف ہے۔ لیکن بھارت اس میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا تھا جب تک اس کی مضبوط مقامی بنیادیں موجود نہ ہوتیں۔
ریاستی ادارے اور آزاد جائزے، دونوں اس پر متفق ہیں کہ آج بھی فرقہ واریت انتہا پسندی کا سب سے اہم ماخذ ہے۔ حالیہ دنوں میں مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کے زیرِ اثر اس میں اضافہ ہوا ہے۔ بلوچستان میں بھی اسی حوالے سے بدامنی پھیلائی جا رہی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ان دنوں قومیت کے بجائے، فرقہ وارانہ اختلاف، بلوچستان میں فساد کے بڑے عامل کے طور پر سامنے آیا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے بحران کو مسلکی وابستگی کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے اور بعض اطلاعات کے مطابق، پاکستان سے لوگوں کو لڑنے کے لیے یمن وغیرہ میں بھیجا جا رہا ہے۔
فرقہ وارانہ اور عالمی جہادی گروہوں کو الگ کرنا اب عملاً ممکن نہیں رہا۔ دونوں ایک دوسرے کے معاون کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاد کی علم بردار عالمی تنظیمیں واضح طور پر فرقہ وارانہ رجحانات رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر داعش کے حقیقی بانی زرقاوی شیعہ مخالف ہونے کی معلوم شہرت رکھتے تھے۔ یوں بھی ان تنظیموں کو مختلف علاقوں میں سہولت کاروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مقامی سطح پر موجود مسلکی انتہا پسند تنظیمیں یہ خدمت سرانجام دیتی ہیں۔ فرقہ وارانہ اور جہادی تنظیموں کا یہ تعلق اب کوئی راز نہیں۔ مقامی مسلکی تنظیموں کے ذریعے یہ عالمی تنظیمیں وہاں وہاں رسائی حاصل کر لیتی ہیں‘ جہاں جہاں ان کے لیے اپنی شناخت کے ساتھ کام کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
مو لانا محمد احمد لدھیانوی ان لوگوں میں سے ہیں‘ جو مسلکی عصبیت کے قائل تو ہیں مگر اس کے نام پر تشدد کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کوشش کی کہ وہ اپنے گروہ کو مقامی اور عالمی تشدد سے دور رکھیں‘ اور اپنی سرگرمیوں کو دعوت و تبلیغ کے دائرے تک محدود کر دیں۔ انہیں اس کا اندازہ ہو چکا ہے کہ تشدد سے مسلک کی کوئی خدمت ممکن ہے‘ نہ ہی یہ معاشرے کے لیے خیر کا باعث ہے۔ انہوں نے حکمت کے ساتھ اپنے گروہ کو تشدد کے دائرے سے نکالنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اس بات کے لیے بھی شعوری جدوجہد کی کہ ان سے وابستہ لوگ کسی طرح عالمی تنظیموں کے سہولت کار نہ بنیں۔ اس مشن میں مولانا حق نواز جھنگوی اور مولانا ضیاالرحمٰن فاروقی کے بیٹوں اور وابستگان نے ان کا ساتھ دیا۔
واقعہ یہ ہے کہ تشدد اور اشتعال انگیزی سے رجوع کا آغاز کئی سال پہلے ہو گیا تھا۔ 2003ء میں مولانا اعظم طارق کے قتل سے چند ماہ پہلے، یہ فیصلہ کر لیا گیا تھا کہ اس تنظیم کے جلسوں میں دوسرے مسلک کی تکفیر کا نعرہ نہیں لگے گا۔ بعد میں اس پر عمل ہوا۔ یہ بھی ہوا کہ جلسے میں کسی نے نعرہ لگایا تو سٹیج سے اس کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ یہ سابق موقف سے اعلانیہ رجوع تھا۔ مولانا لدھیانوی نے اس قلبِ ماہیت کے لیے بہت محنت کی۔ ان کی شب و روز کی مساعی کے باعث یہ ممکن ہوا کہ آج مولانا حق نواز جھنگوی کے صاحب زادے اُس حکمتِ عملی کے حامی نہیں رہے جو 2003ء سے پہلے اختیار کی گئی‘ اور جس کا نتیجہ سماجی فساد کے دوطرفہ عمل کی صورت میں ہمارے سامنے آیا۔ مولانا لدھیانوی اور مسرور نواز کے خلاف کوئی ایسی شہادت موجود نہیں ہے کہ وہ فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں ملوث ہیں۔
جھنگ کے ضمنی انتخابات کا ایک حیران کن پہلو یہ ہے کہ جھنگ شہر کے کم از کم پندرہ پولنگ سٹیشن ایسے ہیں جہاں بسنے والوں کی اکثریت شیعہ ہے اور مسرور وہاں سے جیتے ہیں۔ مولانا اعظم طارق ہمیشہ یہاں سے ہارتے رہے ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو مسرور نواز نے جو خطبہء جمعہ دیا، اس میں انہوں نے یہ کہا کہ صوبائی اسمبلی قانونی سازی کا نہیں، عوامی مسائل کے حل کا فورم ہے‘ میں اپنے حلقے کے مسائل کو موضوع بناؤں گا اور بلا امتیازِ مسلک لوگوں کی خدمت کروں گا۔ اس میں سب لوگ شامل ہیں، وہ بھی جنہوں نے انہیں ووٹ نہیں دیا۔
یہ انتخابات دراصل اس بات کا اظہار ہیں کہ ہمارے سماج کے ایک طبقے میں انتہا پسندی کے مضر اثرات کا ادراک پیدا ہو چلا ہے۔ بعد از خرابیء بسیار سہی، لیکن یہ ایک نیک شگون ہے۔ انتہا پسندی اور تشدد غیر فطری عمل ہیں۔ کوئی معاشرہ انہیں تادیر گورا نہیں کر سکتا۔ شیعہ سنی اختلافات صدیوں سے چلے آ رہے ہیں۔ یہ سپاہِ صحابہ کے وجود میں آنے سے پہلے بھی موجود تھے۔ ہمارے ہاں یہ اختلاف اس وقت سماجی مسئلے میں ڈھل گیا جب اپنے فطری دائرے سے نکل کر، عدم برداشت کے سماجی رویے میں تبدیل ہوا‘ جس کے تحت دوسرے گروہ کے حقِ اختلاف اور وجود کا انکار کر دیا گیا۔ مولانا محمد احمد لدھیانوی نے اس اختلاف کو فطری دائرے میں واپس لانے کی کوشش کی ہے۔ یہ سعیء محمود تحسین کی مستحق ہے۔
انتہا پسندی کا ایک علاج ایسے گروہوں کو قومی دھارے میں لانا ہے جو تشدد کی راہ پر چل نکلے ہیں۔ مسرور نواز انتخابی عمل کے نتیجے میں اس دھارے میں شامل ہوئے ہیں۔ یہ عمل اگر آگے بڑھتا ہے تو اس سے سماجی فاصلے کم ہوں گے اور باہمی اعتماد کو واپسی کا راستہ ملے گا۔ یہ نیشنل ایکشن پلان کی ناکامی نہیں، کامیابی ہے۔ سماج کو فرقہ واریت کے عذاب سے بچانے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ مسلکی اختلاف کو سماجی مسئلہ نہ بننے دیا جائے۔ دوسرا یہ کہ ایسے گروہوں کو جہاد کے نام پر برپا عالمی پُرتشدد تحریکوں کا سہولت کار یا ایندھن بننے سے روکا جائے۔
سماج میں اس وقت دونوں عمل جاری ہیں۔ ہمیں سیاسی گروہ بندی سے بلند تر ہو کر، اسے ایک سماجی عمل کے طور پر دیکھنا ہو گا۔ سماج اگر کسی درجے میں اپنی ان اقدار کی طرف لوٹ رہا ہے جو باہمی احترام اور امن سے عبارت ہیں‘ تو اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔