پیپلز پارٹی کا سیاسی احیا، کیا اس کے نظریاتی احیا سے مشروط ہے؟
تبدیلیٔ مذہب کے باب میں ،سندھ اسمبلی کے ایک بل سے، ایک بارپھریہ بحث اٹھی ہے۔ لوگ بھٹو صاحب کے دور ِاقتدار کے کچھ فیصلے نقل کر رہے ہیں جب ریاست کے اسلامی تشخص کو نمایاں کرنے کی شعوری کوشش ہوئی۔جیسے جمعہ کی ہفتہ روزہ چھٹی یا پھر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینا۔ اس سے بعض لوگوں نے یہ نتیجہ بھی بر آمد کیا کہ بلاول بھٹو یا موجودہ پیپلز پارٹی کی سیاست، خود بھٹو صاحب کے نظریات سے انحراف ہے۔ اسی ضمن میں یہ سوال بھی پیداہوا تھا کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کو ایسے اقدامات کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
پیپلز پارٹی ، اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ لبرل خیالات رکھنے والی نیشنلسٹ جماعت ہے۔جب یہ جماعت قائم ہوئی توہمارے ہاں لبرل خیالات رکھنے والوں کا مقبول نظریہ اشتراکیت تھا۔ سرمایہ داری اور اشتراکیت میں یہ قدر مشترک رہی ہے کہ دونوں ایک ایسے سماجی نظام کے قائل ہیں جو غیر الہامی ہے۔ کم از کم سماجی سطح پر ، دونوں انسان کی مطلق آزادی کے علم بردار ہیں۔ ترقی پذیر معاشروں کا سماجی ڈھانچہ روایتی ہی رہا ہے جسے چیلنج کرنا آسان نہیں ہوتا۔ تاہم سیاست میں جب لوگوں کے بنیادی مسائل کو موضوع بنایا جاتا ہے تو غربت اور محرومی سے ستائے ہوئے لوگ، ایسے نظریے میں کشش محسوس کرتے ہیں۔ بھٹو صاحب نے اس وقت کے نظری ماحول کو سامنے رکھتے ہوئے، 'سوشلزم ہماری معیشت ہے‘کا نعرہ دیا۔ یوں اس لبرل سماجی نظام کی تائید کی جو اشتراکی تعبیر رکھتا تھا۔
بھٹو صاحب، تاہم اس بات سے باخبر تھے کہ وہ جس معاشرے میں یہ نعرہ بلند کر رہے ہیں، وہ اپنی ساخت میں مذہبی ہے۔ اس کے پیش نظر انہوں نے ' اسلام ہمارا دین ہے‘ کا نعرہ بھی بلند کیا۔ یہ تصورات جس نظری وحدت میں ڈھلے اسے ' اسلامی سوشلزم‘ کا نام دیا گیا۔ بھٹو صاحب ، مسلم نیشنلسٹ تھے۔ وہ مسلمانوں کے مسائل کے حل میں دلچسپی رکھتے تھے۔ ان کا عمومی خیال یہی تھا کہ مذہب کا قدیم تصور ترقی کے راستے میں حائل ہے۔ مسلمانوں کو اگر اپنی مذہبی شناخت پر اصرار کرنا ہے تو پھر انہیں کسی جدید تعبیر کی ضرورت ہے جو بنیادی انسانی حقوق اور جمہوریت کے مغربی تصورات سے ہم آہنگ ہو۔ معیشت کے باب میں تاہم وہ سرمایہ داری کے مقابلے میں سوشلزم سے قریب تر تھے۔ یہ پیپلز پارٹی کا پہلا نظریاتی دورہے۔
بے نظیر بھٹو صاحبہ کے عہد میں پیپلز پارٹی ان معنوں میں نظری تشکیل نو کے عمل سے گزری کہ اس نے معیشت کے حوالے سے بھی کھلی مارکیٹ کے تصور کو قبول کیاجو سرمایہ دارانہ نظام پیش کر رہا تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ عالمی سطح پر اشتراکیت اپنا وجود منوانے میں ناکام رہی۔ سرمایہ داری نے اشتراکیت کے چیلنج کے پیش نظر ویلفئیر سٹیٹ کا ایک تصور دیا جسے ترقی پذیر ممالک نے قبول کر لیا۔ یہی پیپلز پارٹی نے بھی کیا۔ ساتھ ہی اس نے معاشرتی سطح پر لبرل اقدار کی ترجمانی جاری رکھی۔ بے نظیر صاحبہ نے اپنی کتاب'مفاہمت‘(Reconciliation )میں اس کو موضوع بنایا ہے۔ انہوں نے تہذیبوں کے تصادم ، کے تصور کویکسر مسترد کر دیا، کیونکہ ان کے نزدیک مسلم معاشروں میں انسانی حقوق، جمہوریت اور اوپن مارکیٹ اکانومی کے تصورات کو قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ تاہم ان کا خیال یہ ہے کہ اس ضمن میں مسلم معاشروں کو جدیدیت پسند( Modernist)مسلم اہل علم کی تعبیرات کو قبول کرنا ہو گا۔
بے نظیر بھٹو اس ضمن میں پاکستان کے ڈاکٹر فضل الرحمٰن، ڈاکٹر خالد مسعود، انڈونیشیا کے نور خالص مجید،ایران کے عبدالکریم سروش اور الجزائر کے محمد اروکون جیسے مسلم سکالرز کے افکارپیش کرتی ہیں جن کی دینی تعبیرجدیدسیاسی و سماجی تصورات سے ہم آہنگ ہے۔وہ علامہ اقبال کو بھی اسی فہرست میں شامل کرتی ہیں۔ان کا کہنا یہ ہے کہ مسلم اقوام کواسلام کی وہ تعبیر اختیار کرنی چاہیے جواُنہیں اقوامِ عالم میں اجنبی نہ ہونے دے۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پیپلزپارٹی لبرل اقدارسے وابستگی کی ایک تاریخ رکھتی ہے۔ اس تناظر میں اگر ہم موجود ہ پیپلزپارٹی کی حکمتِ عملی کو دیکھیں تو یہ پارٹی کی روایت سے متصادم نہیں ہے۔
رہی بھٹو صاحب کے مذہبی اقدامات کی بات تو اس کی حقیقت کائرہ صاحب نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں بتا دی۔وہ مذہبی طبقات کو خوش کرنے کے لیے اٹھائے گئے تھے۔تاہم ایک قدم ایسا ہے جس کے بارے میں یہ شواہد ہیں کہ بھٹو صاحب اس کو اپنا کارنامہ سمجھتے تھے۔انہوں نے اسے قومی اسمبلی کے خطاب میں اسی طرح بیان کیا۔یہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینا ہے۔بھٹو صاحب کا یہ اقدام میرے لیے آج تک ناقابلِ فہم ہے۔ایک سیکولر خیالات کے آ دمی نے کیسے ریاست کے اس حق کوقبول کیا بلکہ اس کا وکیل بن گیا ہے کہ وہ لوگوں کے مسلم یا غیر مسلم ہو نے کا فیصلہ کرے؟ یہ تو سیکولرزم کے پہلے درس ہی سے متصادم ہے۔بعض لوگوں کے نزدیک اس کے محرکات دینی سے زیادہ سیاسی تھے۔ان کو خیال ہوا کہ قادیانی ان کے اقتدار کے درپے ہیں۔واللہ اعلم۔
اگر پیپلزپارٹی کی یہ تاریخ پیشِ نظر رہے توپیپلزپارٹی کے سیاسی احیا کے لیے،اس کا نظریاتی احیا ضروری ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ پیپلزپارٹی کی قیادت میں نظری سطح پراس کا ادراک کتنا ہے لیکن وہ یقیناً اس کے سیاسی پہلو پر نظر رکھتے ہوں گے۔یہی وہ مقام ہے جو پاکستان کی سیاست میں، پیپلزپارٹی کی مستقل جگہ کو یقینی بناتا ہے۔اس لیے میرے نزدیک یہ تنقید بے معنی ہے کہ پیپلزپارٹی لبرل اقدار کی وکالت کیوں کرتی ہے۔اس سوال پر تو بحث ہو سکتی ہے کہ پاکستان کی معاشرتی شناخت کیا ہو نی چاہیے مگرمجھے یہ کہنے کاکوئی جواز دکھائی نہیں دیتا کہ پیپلزپارٹی لبرل کیوں ہے؟
سماجی روایات کا یوں بھی سیاسی اقتدار سے کم تعلق ہوتا ہے۔سماجی روایات برسوں کے تعامل کا نتیجہ ہو تی ہیں۔پاکستانی معاشرے کی شناخت اس وجہ سے اسلامی نہیں ہے کہ یہاں حدود آرڈیننس نافذ ہے۔اس قانون کا نفاذ1979ء میں ہوا۔کیا معاشرہ اس سے پہلے اسلامی نہیں تھا؟یہ بات البتہ درست ہے کوئی ایسا قانون نہیں بننا چاہیے جو ایک معاشرے کی اکثریت کے لیے قابلِ قبول نہ ہو یااجتماعی نظام ِاقدار سے متصادم ہو۔میرا خیال ہے کہ ایک جمہوری معاشرے میں اس کا امکان نہیں ہو تا۔ تاہم یہ امکان مو جود رہتاہے کہ جس بات کوہم اسلامی کہہ رہے ہیں،ممکن ہے دوسرے کے نزدیک وہ اسلامی نہ ہو۔پیپلز پارٹی کا لبرل ازم میرے نزدیک اتنا ہی ہے کہ مذہبی معاملات میں ایک جدید تر تعبیر کو اختیار کیا جا ئے۔کم از کم بے نظیر صاحبہ کے ہاں تو یہی دکھائی دیتا ہے۔
مجھے معلوم نہیں کہ بلاول یا پیپلزپارٹی کی قیادت میں سے کسی نے بے نظیر بھٹو صاحبہ کی کتاب 'مفاہمت‘ پڑھی ہے یا نہیں۔اگر وہ سیاسی ارتقا کے سفر میں نظریاتی احیا کو بھی شامل کررہے ہیں تو لازم ہے کہ قیادت کی سطح پر اس کا شعور موجود ہو۔ورنہ یہ امکان مو جود ہے کہ لبرل ازم سماجی اقدار سے بے نیاز ہوکراباحیت میں تبدیل ہو جائے۔یہ مذہب ہویا لبرل ازم،ایک سماج میں اسی وقت جگہ بنا سکتا ہے جب سماجی روایات سے ہم آہنگ ہو۔پاکستانی معاشرے میں اباحیت کے لیے جگہ نہیں ہے۔