ختمِ نبوت محض عقیدہ نہیں۔اس کاایک پہلو ثقافتی اور تہذیبی بھی ہے۔
علامہ اقبال نے اسے ایک خطبے میں بیان کیا ہے۔ان کاکہنا ہے کہ رسالت مآب سیدنا محمد ﷺ کی ذات والا صفات دنیائے قدیم اور جدید میں ایک واسطہ ہے۔آپ کا ماخذِ علم وحی ہے جو قدیم ہے، لیکن اس کی روح جدید ہے۔نبوت اپنے معراج کو پہنچ گئی تو اس کا خاتمہ ضروری ہو گیا۔ انسان ہمیشہ سہاروں کا محتاج نہیں رہ سکتا۔ اس کے شعورِ ذات کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ و ہ اپنے وسائل سے کام لینا سیکھے۔ اگر ہم نے ختمِ نبوت کو بطور عقیدہ مان لیا تو یہ اس کا ایک نتیجہ ہے۔ رسالت مآبﷺ کے بعد کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس کے علم کا تعلق چونکہ کسی مافوق الفطرت سرچشمے سے ہے، اس لیے اس کی اطاعت لازم ہے۔ اسی وحی کی روشنی میں آزادانہ غور و فکر کا دروازہ کھلتا ہے۔ سماجی تشکیلِ جدید گویا اب اُن انسانوں کا مذہبی فریضہ ہے جو ختمِ نبوت پر ایمان رکھتے ہیں۔
دو دن پہلے جب گجرات یونیورسٹی کی انتظامیہ نے سیرت کانفرنس کے لیے ''معاشرے کی تشکیلِ جدید۔۔۔۔سیرتِ طیبہ کی روشنی میں‘‘ کا عنوان منتخب کیا تو اس کے پیش ِ نظر ختمِ نبوت کا یہی تہذیبی اور سماجی پہلو تھا۔رسالت مآبﷺ سے اظہارِ محبت مسلم معاشرے کا امتیاز ہے اور اہلِ اسلام کے ایمان کا تقاضا بھی۔ تاہم اظہارِمحبت کے اسالیب کا تعلق افراد کی ذہنی سطح اور ذوق سے ہے۔ ایک یونیورسٹی کے لیے یہی زیبا ہے کہ وہاں سیرت پر تحقیق ہو اور تعلیماتِ پیغمبر کی روشنی میں اپنے عہد کے مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ جامعہ گجرات کے جواں عزم وائس چانسلر ڈاکٹرضیاالقیوم کو اس کا پورا احساس ہے۔ مجھے بارہا اس یونیورسٹی میں جانے کا تفاق ہوا۔ یہاں معاشرے کے زندہ مسائل سیمیناروںاورکانفرنسوںکاموضوع بنتے ہیں۔ ڈاکٹر ضیاالقیوم نے جو دارالترجمہ قائم کیا ہے، اس نے جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن کی یاد تازہ کردی۔ ڈاکٹر صاحب کی قیادت میں یہاںجس طرح علم و تحقیق کا عمل آگے بڑھ رہا ہے، اس پر کبھی تفصیل سے لکھوں گا کہ ایک یونیوسٹی کی تحقیقی صلاحیت ہی اس کا امتیاز ہوتی ہے۔ اس وقت ذکر ہے اس کانفرنس کا جس میں سیرتِ پاک کی روشنی میں ایک جدید سماج کی تشکیل پر بات ہوئی۔
مقررین کا انتخاب شیخ عبدالرشید صاحب کی خوش ذوقی کا مظہر تھا۔ ڈاکٹر خالدمسعود، ڈاکٹرخالد ظہیر اور ڈاکٹر محمد ضیا الحق، ڈائریکٹرجنرل ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کے ساتھ یہ طالب علم بھی مدعو تھا۔ محترم امین الحسنات صاحب نے صدارت کی۔ ان کا تعارف کرایا گیا کہ وہ ایک وزیر ہیں اور ساتھ پیر بھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ محض فقیر ہیں۔ ان کی تقریر میں اس کی جھلک تھی۔ انہوں نے بہت سادہ اور پراثر الفاظ کے ساتھ تذکیر کی ذمہ د اری ادا کی۔ سچ یہ ہے کہ ایک مذہبی راہنما کا اصل کام یہی ہے۔ تذکیر اور انذار۔ یہ الگ بات ہے کہ بہت کم لوگوں کو اس کا احساس ہے۔
اس موضوع نے سیرت کے باب میں تحقیق کے ایک اہم پہلو کو نمایاں کیا۔ سیرت نگاری ہمارے ہاں بالعموم غزوات کے بیان پر مرتکز رہی ہے۔ اسے پڑھ کر ایک عام قاری کو یہ گمان ہو تا ہے کہ جیسے آپ ﷺ کی تمام عمر میدان ِ جنگ میں گزری۔ کیا آپ نے کوئی معاشرہ بھی تشکیل دیا؟ اس سوال کو اُس طرح موضوع نہیں بنایا گیا، جیسے یہ اس کا مستحق تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ جنگ آپ کا کبھی انتخاب نہیں رہی۔ اسے ایک ناگزیرضرورت کے تحت لڑا گیا۔ اکثر دفاعی اور کبھی اقدامی بھی۔ یہ بھی منصبِ رسالت کا ایک تقاضا تھا۔ آپ کی اصل دلچسپی امن کے قیام اور ایک ایسے تصورِ زندگی کے فروغ سے تھی جو وحی کی روشنی میں تشکیل پائے اور آنے والے ادوار کے لیے راہنما بنے جب آسمان سے ہدایت کے نزول کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجانا تھا۔ آپ نے اس تصورِ حیات کو ایک واقعہ بنا دیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ آپ کا اسوۂ حسنہ، جدید سماج کی تشکیل کے لیے آج بھی اسی طرح راہنما ہے جیسے ماضی میں تھا۔
دو مثالیں اس بات کی تفہیم میں معاون ہیں۔ جدید ریاست کا نظریہ چند تصورات پر منبی ہے۔ جیسے آئین، عوام، سماجی اکائیوں میں وحدت۔ نبیﷺ نے مدینہ میں ریاست قائم کی تو اسے ایک تحریری آئین دیا۔ ریاست کے ساتھ اکائیوں کے معاہدے ہوئے۔ عوام اور ریاست کے درمیان مذہب کے بجائے شہریت کے جدید اصولوں پر تعلقات کا تعین ہوا۔ انہیں ریاست کا شہری ہونے کی بنا پر ایک امت قرار دیا گیا۔ اسے ہم جدید مفہوم میں 'قوم‘ کہتے ہیں۔ آپ نے شہریوں کی مذہبی آزادی کو بنیادی سماجی قدر کے طور پرمستحکم کیا۔ دنیا ان تصورات سے بہت بعد میں آگاہ ہوئی۔ روسو نے اٹھارویں صدی میں جس عمرانی معاہدے کی بات کی، وہ عہدِ رسالت میں امرِواقعہ بن چکا تھا۔
دوسری مثال بین الاقوامی تعلقات کی ہے۔ خطبہ حجۃ الوداع، مسلمانوں کے سب سے بڑے اجتماع سے آپ کا آخری خطاب ہے۔ حج کے موقع کا انتخاب بہت معنی خیز ہے۔ اس میں آپ نے ''اے لوگو!‘‘ کے الفاظ کے ساتھ کلام کیا۔ یہ بھی کہا کہ جن تک میری بات پہنچ گئی، وہ اسے ان لوگوں تک پہنچائیں جو موجود نہیں۔ اس میں آپ نے انسانوں کے درمیان تعلقات کے عالمگیر اصول بیان فر مائے۔ جیسے مذہب، نسل، رنگ اور علاقے سے ماورا وحدتِ آدم کا تصور۔ انسانی جان، مال اور آبروکی حرمت۔ خواتین کے حقوق۔ معاشی استحصال کا خاتمہ جس کا ایک بڑامظہر سود ہے۔ آج دنیا نے بین الاقوامی تعلقات کے لیے جو چارٹر اور ادارے بنائے، اس سے بہت اعلیٰ سطح پر آپﷺ نے بین الاقوامی تعلقات کے اصول صدیوں پہلے بتا دیے۔
آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ جدید ریاست کا تصور ہو یا عالمگیر اقدار کا، رسالت مآب ﷺ کی یہ حیثیت کہ آپ جدید اور قدیم میں ایک واسطہ ہیں، پوری طرح نمایاں ہوتی ہے۔ یہی نہیں، عہدِ رسالت کے مکی اور مدنی ابواب، مسلمانوں کو یہ اسوہ فراہم کرتے ہیں کہ انہیں ایک تکثیری (Pluralist) معاشرے میں کیسے جینا ہے۔ یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ اسلام نے ایک کثیر المذہبی سماج کا تصور سامنے رکھتے ہوئے اپنی تعلیمات دی ہیں۔ یہ اس الٰہی سکیم کے مطابق ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کئی مرتبہ قرآن مجید میں بیان کیا ہے۔
اس سکیم کے تحت لوگوں کے درمیان اختلاف کی موجودگی خدا کا اپنا منصوبہ ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو وہ ساری دنیا کو ایک امت بنا دیتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ یہ قانونِ آزمائش کا ناگزیر تقاضاتھا۔ اس اعتبار سے اسلام اس دنیا میں انسانوں کو مذہبی کے بجائے ایک سماجی وحدت کے طور پر دیکھتا ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ آخرت میں انسانوں کو دوگروہوں میں تقسیم کرے گا۔ ایک وہ جو کامیاب ہوا اور دوسرا وہ جو ناکام ٹھہرا۔ دنیا میں کوئی یہ تقسیم نہیں کر سکتا۔ اللہ کے رسول اگر ایسا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور اس کا تعلق بھی قانونِ اتمامِ حجت کے ساتھ ہے جو قانونِ رسالت کی ایک فرع ہے۔
سیرت کا مطالعہ اگر اس زاویے سے کیا جائے تو معلوم کیا جا سکتا ہے کہ معاشرتی تشکیلِ نو میں کیسے رسالت مآب ﷺ کی تعلیمات آج بھی مشعل ِراہ ہیں۔ گجرات یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاالقیوم اور شیخ عبدالرشیدصاحب تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایک موقع فراہم کیا جب مقررین نے یہ سب باتیں اپنے اپنے اسلوب میںبیان کیں۔ کاش اعلیٰ تعلیم کے لیے یہاں آئے طالب علموں میں سے کوئی اٹھے جو اس پہلو سے سیرت کا مطالعہ کرے۔
سماج کسی جامد وجود کا نام نہیں۔ یہ مسلسل ارتقا کے عمل سے گزرتا ہے۔ یہ ختم نبوت کی برکت ہے کہ اس نے انسانی عقل کو اس ارتقا کا ساتھ دینے کے قابل بنا دیا۔ اسی کی وجہ سے آج سیرتِ طیبہ کی روشنی میں سماج کی تشکیلِ نو ممکن ہے۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ آپﷺ آج بھی اسی طرح عالمِ انسانیت کے قائد ہیں جیسے چودہ سو سال پہلے تھے۔ قدیم اور جدید کے مابین ایک مضبوط ربط۔