"KNC" (space) message & send to 7575

صحرا کی وسعتوں میں کہیں گلستاں تو ہے

جو پڑھیے، جو سنیے، معلوم یہ ہو تا ہے کہ چاروں طرف ایک فساد ِعظیم برپا ہے۔حکومت نام کی کسی شے کو کوئی وجود نہیں۔ ہر طرف بے حس اورکرپٹ لوگوں کا راج ہے۔کہیں سے کوئی اچھی خبر نہیں آ رہی۔ کوئی محکمہ کام کر رہا ہے نہ کوئی افسر۔ ہر طرف وہ لوٹ مار مچی ہے کہ الامان و الحفیظ۔ کسی کو سزا کا خوف ہے نہ ساکھ کا۔کوئی پوچھنے والا ہے نہ بتانے والا۔ ملک کیا ہے، بس ایک بے اماں بستی ہے۔ نیرو بانسری بجا رہا ہے اور ریاست آخری ہچکیاں لے رہی ہے۔
کچھ ثقہ لوگ بھی اگریہ بات کہیں تو مان لینا چاہیے، مگر اہلِ علم کے نزدیک روایت کی قبولیت میں 'ثقاہت‘ کے ساتھ 'فقاہت‘ کی شرط بھی ہے۔ پھر 'درایت‘ بھی ایک قرینہ ہے جس کا لحاظ رکھا جا تا ہے۔ اگر ان روایات کوسنداً صحیح مان لیا جائے توبھی یہ تاویل کی متقاضی ہیں۔ بعض اوقات راوی ایک دو تجربات یا مشاہدات کو عموم کا رنگ دے دیتا ہے۔ انفرادی واقعات کو عمومیت (Generalization) کے ساتھ، ایک شہادت کے طور پر قبول کرتے ہوئے، ایک پورے عہد پر حکم لگا دیا جاتا ہے۔ بنوامیہ کے پورے دور کے بیان میں یہی کیا گیا۔ آج کئی سو سال کی اس تاریخ میں کوئی خیر ڈھونڈنے کو نہیں ملتا۔ اس سے، میراخیال ہے کہ بچنا چاہیے۔ ہوا کے دوش پر لہرانے والے الفاظ شاید زیادہ اہم نہ ہوں لیکن حروفِ مطبوعہ تاریخ کا ورق بن کر محفوظ ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ایسی روایات کی صحت کو مانتے ہوئے، مجھے خیال ہوا کہ میں بھی اپنے کچھ مشاہدات میں آپ کو شریک کر لوں۔
میرے مشاہدات یکساں نہیں ہیں۔کبھی مشاہدہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس کا ایک سبب بد عنوانی بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم کچھ ایسے بھی ہیں جو ذمہ دار ہیں۔ ان کے کام کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ادارے کام کر رہے ہیں۔ حسنِ ترتیب ہے اور حسنِ نیت بھی۔ ذمہ داری کا حساس ہے اور خدا کے ہاں جواب دہی کا بھی۔ ضابطہ موجود ہے اور اس پر عمل بھی ہو رہا ہے۔ خرابی کے چند مظاہر کے ساتھ خیر بھی مو جود ہے۔کچھ دوستوں کا اضطراب قابلِ توجہ ہے مگر اب ایسا بھی نہیں کہ خیر کے سب سوتے خشک ہو چکے۔
گزشتہ ہفتہ عشرہ میں مجھے تین اداروں میں جانے کا موقع ملا۔ ایک علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ہے۔ یہاں مختلف علمی مجالس میں شرکت کے لیے میرا بارہا آنا ہوا مگر اس بار آمدکی نوعیت مختلف تھی۔ محترم جبار مرزا صاحب نے شہر کے چند کالم نگاروں اور صحافت سے وابستہ افراد کو اس ادارے کے مطالعاتی دورے کی دعوت دی۔ یوں اس کے کاموں کو سمجھنے کا موقع ملا۔ اس طرح میں تنہا ان واقعات کا راوی نہیں۔ یہ روایت کسی درجے میں تواتر کو پہنچ رہی ہے۔ سب نے یہ محسوس کیا کہ اس ادارے کا کام قابلِ رشک ہے۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی صاحب نے دو برس میں اس کی قلبِ ماہیت کر دی ہے۔ جہاں تحقیقی جرائد کی اشاعت سالوں سے منقطع ہو، وہاں اگر آٹھ تحقیقی جرائد باقاعدگی سے شائع ہو نے لگیں تو یہ معمولی تبدیلی نہیں۔ پھر جہاںطلبا و طالبات کی تعداد مسلسل زوال پزیر ہو، اگر تیزی سے بڑھتے ہوئے، دوسالوں میں ریکارڈ سطح پر چلی جائے تواس کے بعد یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں رہتا کہ ادارے کام کر رہے ہیں اور لوگوں کو ذمہ داری کا احساس بھی ہے۔
چند روز پہلے، میں یوں ہی ایک جستجو کے ساتھ، نیشنل بک فاؤنڈیشن جا نکلا۔ یہ میرے لیے ایک جہانِ نو کی دریافت تھی۔ جس طرح کتب یہاں شائع ہو رہی ہیں، جیسے ملک میں اس ادارے کی چوبیس شاخیں ان کتب کو پھیلانے میں مصروف ہیں، جیسے ڈاکٹر عطش درانی جیسے صاحبِ علم کی نگرانی میں تمام نصابی کتب کی اصلاح کی جارہی ہے، یہ سب میرے لیے بہت خوش کن تھا۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید کو میں ایک شاعر کے طور پر جانتا تھا مگر یہاں آ کر اندازہ ہوا کہ بطور منتظم انہوں نے اس ادارے کو زندہ کر دیا ہے۔ سب سے زیادہ خوشی تو مجھے میوزم دیکھ کر ہوئی۔ ایک میوزم کے لیے یہ جگہ کافی نہیں مگر ڈاکٹرانعام الحق جاوید نے جو میسر تھا، اس کوبہت ا چھے انداز میں استعمال کیا۔ اس میوزم کو دیکھ کر مجھے پہلا خیال یہ آیا کہ بچوںکو یہاں ضرور لانا چاہیے۔ یہ ادارہ ہر سال بچوں کے لیے سمر کیمپ کا بھی اہتمام کرتا ہے۔ ادارے کا سالانہ کتاب میلہ تو شہر کی سب سے بڑی علمی اور تعلیمی سرگرمی بن چکا۔ اس سال یہاں تین کروڑ روپے کی کتب فروخت ہوئیں۔ دو برس پہلے ادارے نے ایک خوب صورت غزل کیلنڈر شائع کیا۔ 365 غزلوں کا یہ انتخاب محبوب ظفر صاحب کے حسنِ ذوق کا مظہر ہے۔ اسے اب 'غزل اثاثہ‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں بھی طبع کر دیا گیا ہے۔2017 ء کے لیے نظموں کے انتخاب پر مشتمل، ایسا ہی ایک کیلنڈر،ان دنوں شائع ہوا ہے۔
دسمبر ہی میں، ایک سیرت کانفرنس میں شرکت کے لیے، میرا گجرات یونیورسٹی جانا ہوا۔ میں نے اس کے ایک شعبے، دارالترجمہ کا سرسری ذکر پہلے بھی کیا تھا۔ اس یونیورسٹی نے کھلے مقابلے میں حکومتِ پنجاب کے تمام قوانین کے اردو ترجمے کے حقوق حاصل کیے۔ میں اس شعبے کے انچارج سے ملا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ کس طرح ترجمے کو ایک سائنس کے طور پر یہاں سمجھا اور پڑھایا جا رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان میں ترجمے کی سطح پر شاید ایسا منظم کام کہیں اور نہیں ہو رہا۔ ایک دور دراز علاقہ ہونے کے باعث لوگ یہاں ٹھہرتے نہیں۔ جامعہ کے وائس چانسلرڈاکٹر ضیاالقیوم اس کے لیے سرگرداں رہتے ہیں کہ کس طرح صاحبانِ علم کو مائل کریں کہ وہ یہاں تدریس کے لیے آمادہ ہوں۔
یہ میرے چند مشاہدات ہیں۔ میں مذہب اور سماج کا ایک طالب علم ہوں۔ میری دلچسپی ایسے اداروں ہی سے ہو سکتی ہے جہاں علم، کلچر، روایت یا سماجی علوم کی بات ہوتی ہے۔ مجھے پوری طرح اندازہ نہیں کہ تجارت یا دوسرے میدانوں میں کیا ہو رہا ہے۔ میں تو اپنے مشاہدات کا ذکر کر سکتا ہوں جو بہت حوصلہ افزا ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں ہر جگہ یہی صورتِ حال ہے؟ حکومت کا ہر ادارہ اسی طرح فعال ہے؟ اگر میں اس سے یہ نتیجہ برآمد کروں گا تو یہ میری کم نگاہی کی دلیل کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ خرابیاں بہت ہیں اور میں خود بھی اس سے متاثر ہوتا ہوں۔ مجھے یہ حق نہیں کہ میں ان مشاہدات کو عموم کا رنگ دے کریہ تاثر قائم کروں کہ حکمران بہت نیک، فعال اور رحم دل ہیں اور ان میں اصلاح کی کوئی ضرورت نہیں۔ 
میں راولپنڈی میں رہتا ہوں۔ میں نے یہاں کے ہسپتال بھی دیکھے ہیں۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ شہر کے سرکاری ہسپتال 98 فیصد نجی ہسپتالوں سے کہیں بہتر ہیں۔ جو دو فیصد ان سے بہتر ہیں، وہ اتنے مہنگے ہیں کہ عوام تو کیا، بہت سے خواص بھی اس طرف کا رخ نہیں کر سکتے۔کسی کو خدا نخواستہ کسی میڈیکل ایمرجنسی کی ضرورت پیش آئے تو میں اسے سرکاری ہسپتال جانے کا مشورہ دیتا ہوں۔ میںخود بھی یہی کرتا ہوں۔ تاہم ہماری آبادی جتنی زیادہ ہے، اس کو سامنے رکھیں تو صحت اور تعلیم کے لیے کہیں زیادہ وسائل مختص کرنے کی ضرورت ہے۔ موجود سہولتیں اونٹ کے منہ میں زیرہ ہیں۔ خاص طور پر وہ لوگ ان سے محروم ہیں جو بڑے شہروں سے دور رہتے ہیں۔
جو لوگ خرابیوں کی نشان دہی کر رہے ہیں، ان کی ثقاہت میں مجھے کوئی شبہ نہیں ۔مسئلہ 'فقاہت‘ کا ہے۔ اسے عموم کا رنگ نہیں دیا جا سکتا۔ جیسے میں اپنے مشاہدات سے اگر یہ نتیجہ برآمد کروں کہ کہیں اصلاح کی ضرورت نہیں ہے تو یہ درست نہیں ہے۔ ان دوستوں کے مشاہدات کی تائید کرتے ہوئے ، میںان کی خدمت میں منیر نیازی کا ایک شعر پیش کر سکتا ہوں ؎
یوں تو ہے رنگ زرد مگر ہونٹ لال ہیں
صحرا کی وسعتوں میں کہیں گلستاں تو ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں