''ملاقاتیں کیا کیا؟‘‘ کی پزیرائی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس بار اس کا اہتمام اسلام آباد میں ہوا۔
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں اہلِ علم کی بڑی تعداد جمع تھی۔ جامعات میں ایسی تقریبات کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ پڑھے لکھے سامعین میسر ہوتے ہیں۔ یہ جنس بولنے والوں میں نایاب ہے تو سننے والوں میں کہاں ملے گی؟ ڈاکٹر شاہد صدیقی کی خوش ذوقی نے یہ نعمت ارزاں کی۔ مستفید ہونے والوں میں اس طالب علم کے ساتھ ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی، برادرم سہیل وڑائچ، جناب جبار مرزا، برادرم عمار مسعود کے علاوہ صاحبِ تصنیف اور ان کے پوتے ایقان حسن بھی شامل تھے۔
صحافت تاریخ نگاری بھی ہے۔ وقائع نگار محض واقعات ہی کو جمع نہیںکرتا، دراصل تاریخ رقم کرتا ہے۔ اس کے لیے صلاحیت کے ساتھ دیانت بھی ضروری ہے۔ واقعات نگاری کی بنیاد پر ایک دور اور اس میں بروئے کار آنے والے لوگوں پر حکم لگایا جاتا ہے۔ ماضی میںکم ہی ایسا ہوا کہ کسی ایک واقعے کا ایک ہی بیان ملتا ہو۔ بزمِ یار سے الگ الگ خبریں آتی رہیں۔ مسلمانوں میں تاریخ نگاری کا باضابطہ آغاز عباسیوں کے عہد میں ہوا۔ ماضی کا کوئی مستند ریکارڈ کم ہی محفوظ تھا۔ جو حکمرانوں نے لکھوایا یا جو کسی کی یادداشت میں محفوظ تھا، اس نے رقم کر دیا۔ آج انہی کی گواہی پر لوگ کبھی ممدوح بنتے ہیں اور کبھی مذموم قرار پاتے ہیں؛ تاہم راوی کی ثقاہت اور فقاہت متضاد واقعات میں مصدقہ واقعے کی بنیاد بن جاتی ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ فلاں راوی ثقہ ہے تو پھر اس کا بیان قابل توجہ بن جاتا ہے۔
دورِ حاضر میں تاریخ نگاری اہلِ صحافت کی ذمہ داری بن گئی ہے۔ وہ جنہیں ''حالاتِ حاضرہ‘‘ کے دائرے میں بیان کرتے ہیں، اس کی بنیاد پر ایک تاریخ مرتب ہوتی ہے۔ صحافی کی ثقاہت اور فقاہت مل کر اس کی رائے کو معتبر بناتے ہیں۔ ''ملاقاتیں کیا کیا؟‘‘ دراصل ایک عہد کی تاریخ ہے۔ ایک ثقہ اور فہیم راوی نے اپنے عہد کے ان لوگوں سے ملاقات کی جو تاریخ بنا رہے تھے۔ انہوں نے جو کچھ کہا‘ اسے ریکارڈ کر لیا گیا۔
الطاف حسن قریشی صاحب نے جن لوگوں سے گفتگو کی، وہ ان کی زندگی ہی میں شائع ہوئی۔ کسی نے ان کی تردید نہیں کی، الا شیخ مجیب الرحمٰن مرحوم؛ تاہم اس ملاقات میں موجود ایک تیسری شخصیت نے قریشی صاحب کی ثقاہت پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔ یوں یہ اپنے عہد کی مستند ترین داستان ہے۔ اس پر مستزاد ان کے حواشی ہیں۔ ان حواشی سے ایک انٹرویو‘ اور انٹرویو دینے والی شخصیت کا سیاق و سباق واضح ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے عہد سے بھی مربوط ہو گیا ہے۔ اس کا ایک اضافی فائدہ یہ ہوا کہ انٹرویو نگار کی نظریاتی شناخت نے اگر کہیں معروضیت کو متاثر کیا‘ تو ان حواشی سے بڑی حد تک اس کی تلافی کر دی۔ یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک دور کی ایسی گواہی ہے جسے بآسانی رد نہیں کیا جا سکتا۔
تاریخ کا ایک پہلو ما بعدالطبیعاتی بھی ہے۔ اسے کبھی ہم مکافاتِ عمل کہتے ہیں اور کبھی قسمت۔ یہ وہ معاملہ ہے جو عالمِِ اسباب سے ماورا کہیں ہو رہا ہوتا ہے۔ اس کی کوئی عقلی توجیہ ممکن نہیں ہوتی۔ جب تک رسولوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا، عالم کے پروردگار نے خود واضح کر دیا کہ کہاں کہاں آسمان سے فرشتے اُترتے یا مشیّت اپنی حکمت سے فیصلہ نافذ کرتی ہے۔ ان واقعات کی پہلے سے خبر بھی دے دی جاتی ہے جب اللہ تعالیٰ ایک قوم پر اتمامِ حجت کرتے ہیں۔ یہ خبر اگر پہلے نہ دی جائے تو اتمامِ حجت نہیں ہو سکتا۔ اب رسولوں کی آمد کا سلسلہ باقی نہیں رہا۔ یوں کسی واقعہ کی خبر براہِ راست آسمان سے نہیں ملتی؛ تاہم زمین پر ایسے واقعات ضرور ہوتے ہیں جو بتاتے ہیں کہ عالمِ اسباب سے ماورا بھی ایک قوت موجود ہے جو وقتاً فوقتاً فیصلہ کرتی ہے۔
کیا انسان ان سے باخبر ہوتے ہیں؟ الہامی روایت سے تو اس کی تائید نہیں ہوتی؛ تاہم بعض لوگوں کی چھٹی یا ساتویں حس تیز ہوتی ہیں اور وہ عالم اسباب سے ماورا واقعات کی کوئی جھلک دیکھ لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا تعلق کسی خاص مذہب سے نہیں ہوتا۔ یہی سبب ہیں کہ تاریخ میں ایسی لوگوں کی موجودگی کی خبر ملتی ہے جو آنے والے وقت کے بارے میں بتا دیتے ہیں۔ یہ خبر کبھی درست ثابت ہوتی ہے اور کبھی غلط۔ الطاف حسن قریشی صاحب نے جنرل ضیاالحق کے بارے میں ایسی ہی دلچسپ بات کا ذکر کیا ہے۔ وہ سید فضل نام کے ایک آ دمی کا ذکر کرتے ہیں جنہوں نے جون 1988ء میں محترم مجیب الرحمان شامی اور سراج منیر مرحوم کی موجودگی میں، زائچہ بنا کر یہ بتایا تھا کہ 17 اگست 1988ء کے بعد ضیاالحق دکھائی نہیں دے رہے۔ انہی صاحب نے 16 اگست 1988ء کو رات گیارہ بجے قریشی صاحب کو فون کیا‘ اور ان سے یہ کہا کہ وہ کسی طرح ضیاالحق صاحب کو اس پر آمادہ کریں کہ وہ صبح بہاول پور نہ جائیں۔ قریشی صاحب رات دیر تک ایوانِ صدر فون کر نے کی کوشش کرتے رہے مگر ان کی صدر صاحب سے بات نہ ہو سکی۔ ہونی ہو کر رہی۔ اس کتاب میں اس طرح کے دلچسپ واقعات بھی ملتے ہیں جو تاریخ کی ما بعدالطبیعاتی پہلو کو بیان کر رہے ہیں۔
تاریخی اہمیت کے ساتھ، اس کتاب کا انٹرویو نگاری کے فن سے گہرا تعلق ہے۔ سہیل وڑائچ صاحب نے اسے بہت عمدگی کے ساتھ بیان کیا‘ جو خود اس فن میں ملکہ رکھتے ہیں۔ میرا کہنا یہ ہے کہ اس کتاب کو اس حوالے سے ایم اے صحافت کے نصاب میں شامل ہونا چاہیے۔ ایک انٹرویو نگار میں کیا کیا اوصاف ہوتے ہیں‘ جو اس کے کام کو مورخ کا کام بنا دیتے ہیں۔ یہ ہمیں اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ مولانا غلام رسول مہر کا انٹرویو کر رہے ہیں‘ تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا تصنیفی کام کیا ہے؟ غالب اور سید احمد شہید کے بارے میں انہوں نے کیا لکھ رکھا ہے۔ تاریخ نگاری میں ان کی تصانیف کی کیا اہمیت ہے۔ یا اگر آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سے انٹرویو کر رہے ہیں تو آپ کو پہلے سے علم ہونا چاہیے کہ اسلامی فکر کی تشکیلِ جدید میں ان کا کیا کردار ہے؟ وہ معاصر اہلِ علم سے کیسے ممتاز ہیں؟ اسی طرح ایک سیاست دان کے انٹرویو کے لیے اس کی شخصیت کے ساتھ اس کے عہد کی سیاست سے واقفیت بھی ناگزیر ہے۔
اس تقریب میں کتاب کے مرتب ایقان حسن سے ملاقات کا خوش گوار تاثر ابھی تک باقی ہے۔ تقریب کے بعد اور پھر رات کھانے پر بھی ان سے ملاقات رہی۔ ان کے پاس بہت سے سوالات تھے اور وہ ان کے جواب کی تلاش میں تھے۔ مذہب کی تعبیر سے لے کر تاریخ کی الجھاؤ تک، وہ بہت کچھ جاننے کے خواہش مند تھے۔ اس طالب علم کی تحریروں نے بھی کہیں مہمیز کا کام کیا۔ یوں ان کے سوالات کا رخ میری طرف تھا۔ ان کا یہ تجسس اور جستجو میرے لیے خوش گوار حیرت کا باعث تھی۔ مجھے اندازہ ہوا کہ الطاف حسن قریشی صاحب کی علم دوستی، زود فہمی اور واقعات کی تہہ میں جھانکے کی صلاحیت تیسری نسل کو منتقل ہو چکی۔ مجھے امید ہے کہ ان کی یہ صلاحیت اور جستجو کا وفور انشااللہ ایک بڑے امکان کی صورت میں ظہور کرے گا۔