30 دسمبر کو ایک قومی ا خبار کے مذہبی ایڈیشن میں ایک سوال شائع ہوا: ''ہیجڑے یعنی خواجہ سرا کو غسل دینے کا شرعاً کیا حکم ہے؟ اگر ایک ہیجڑا بڑی عمر کا ہو تو اس کے مرنے کے بعد اسے غسل دیا جائے گا یا نہیں؟‘‘
ملک کے ایک نامور عالم دین نے اس کے جواب میں لکھا: ''ایسے شخص کو غسل نہیں دیا جائے گا بلکہ اس کا کوئی قریبی محرم رشتہ دار اسے تیمم کرائے گا اور اگر کوئی قریبی محرم نہ ہو تو کوئی دوسرا شخص ہاتھ پر کپڑا باندھ کر اسے تیمم کرا دے گا‘‘۔ خواجہ سرا کے غسل سے اہم تر سوال میرے نزدیک یہ ہے کہ دین سے ناواقف یا جدید پڑھا لکھا آدمی، جب اس سوال و جواب کو پڑھے گا تو اسلام کے بارے میں اس کی کیا رائے بنے گی؟ کیا ایک عالم دین کا منصب یہی ہے کہ فقہ کی کسی قدیم کتاب سے چند جملے نقل کر دے اور اسے 'شرعی حکم‘ کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کر دے؟ پھر یہ کہ جب ایک بات کسی نص میں بیان نہیں ہوئی اور وہ صرف ہمارے بعض بزرگوں کی تفہیم ہے تو کیا ہمیں اس کی حکمت پر غور نہیں کرنا چاہیے؟ کیا ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ ایک غیر منصوص معاملے میں ہم جو رائے دے رہے ہیں، وہ دین کی کیا تصویر لوگوں کے سامنے پیش کرتی ہے؟
قرآن و سنت نے ابن آدم کو تکریم کا مستحق قرار دیا ہے۔ اس میں رنگ و نسل، جنس اور مذہب کی تمیز نہیں۔ سماجی تعلقات کا تعین جنسی یا نسبی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ تاہم اﷲ کے نزدیک برگزیدہ وہی ہے جو تقویٰ اختیار کرنے والا ہے۔ ہمارا مسئلہ خدا کے ہاں بزرگی نہیں۔ یہ وہی جانتا ہے کہ کون اس کا سزا وار ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم سماجی سطح پر انسانوںکے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں۔ ہم پرمسلم شہریوں کے حقوق ہیں اور غیر مسلموں کے بھی۔ اسی طرح رشتوں کی نسبت سے بھی حقوق و فرائض کا تعین کیا گیا ہے۔ یہ بات ہر جگہ طے ہے کہ جنس کی بنیاد پر کسی سے امتیاز نہیں روا رکھا جائے گا۔
فقہ دراصل ایک عہد کے مسائل پر دینی احکام کا اطلاق ہے۔ یہ شریعت نہیں، شریعت کی تفہیم ہے۔ سماج کی نوعیت تبدیل ہوتی رہتی ہے، اس لیے غیر منصوص احکام کے اطلاق کے باب میں، قدیم تفہیم پر نظر ثانی کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔ خواجہ سراؤں کا مسئلہ ماضی میں اس اہمیت کا حامل نہیںتھا جیسا آج ہے۔ یہ فقہ کی کتب میں کم ہی زیر بحث آیا ہے۔ میں نے کالم لکھنے سے پہلے، فقہ کی ایک قدیم کتاب 'بدایۃ المجتہد‘ اور ایک جدید کتاب وھبہ الزحیلی کی' الفقہ الاسلامی و ادلۃ‘‘ ( اردو ترجمہ ڈاکٹر طفیل ہاشمی) میں متعلقہ ابواب کو بھی دیکھا۔ کہیں خواجہ سراؤں کا مسئلہ بیان نہیں ہوا۔ زحیلی نے ایک جگہ کفن کے باب میں ان کا ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب آج کے عہد میں لکھی گئی، اس لیے ضروری تھا کہ مصنف اس معاملے میںاپنی فقاہت کا مظاہرہ کرتے۔
یہ انسانی حقوق کا دور ہے۔ آج سماجی سطح پر جنسی امتیازکو قبولیت ِعامہ حاصل نہیں۔ مسلمان علماء کو بھی چاہیے کہ معاملات کو اس زاویے سے دیکھیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ نصوص میں اگر کوئی امتیاز روا رکھا گیا ہے تو عصری تقاضوں کے پیش نظر اسے بدل دیا جائے۔ تاہم پدر سرانہ معاشرے میں کئی گئی دینی تعبیرات کو قبول کرنا ہم پرلازم نہیں۔ علما کی ذمہ داری ہے کہ دور جدید کے مطالبات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی تفہیم ِنوکریں۔
خواجہ سرا، مرد اور عورت کی طرح ایک انسان ہے۔ اس پر دین کے وہ تمام احکامات نافذ ہوں گے جو انسانوں کے لیے بیان ہوئے ہیں۔ اگر وہ مسلمان ہے تو اس کے لیے وہی احکام ہیں جو کسی مسلم مرد یا عورت کے لیے ہو سکتے ہیں۔ یہ بات قدیم علماء بھی بیان کر چکے کہ اگر ان میں نسوانی خصوصیات کا غلبہ ہے تو ان پر دین کے وہ احکام نافذ ہوں گے جو خواتین سے متعلق ہیں اور اگر ان میں مردانہ خصوصیات غالب ہیں تو ان پر دینی احکام کا اطلاق کرتے وقت انہیں مرد سمجھا جائے گا۔ جو احکام بلا امتیاز ہیں، وہ بھی بلا امتیاز نافذ ہوںگے۔ مثال کے طور پر وھبہ الزحیلی نے بیان کیا ہے کہ میت کے چار حقوق ہیں جو فرض کفایہ ہیں۔ یعنی مسلمانوں پر اجتماعی حیثیت میں فرض ہیں: غسل دینا، کفن پہنانا، جنازہ پڑھنا اور دفن کرنا۔ یہ مرد و عورت ہی کے لیے نہیں، خواجہ سرا کے لیے بھی ہیں۔ اگر خواجہ سرا کا جنازہ پڑھا جائے گا تو اسے غسل کیوں نہیں دیا جائے گا؟
انسان کی تکریم اسلام کے نظامِ اقدار میں بنیادی پتھر کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ مر جائے تو بھی باقی رہتی ہے۔ اسی اخبار میں، اسی دن، ایک دوسرے جید عالم کے دیے ہوئے جواب بھی شائع ہوئے ہیں۔ اس میں انہوں نے اُس عزت و تکریم کو بیان کیا ہے جو اسلام ایک مردے کو دیتا ہے۔ انہوں نے حدیث کی متعدد کتب کے حوالے سے نبیﷺ سے منسوب یہ روایت نقل کی ہے کہ ''مردے کی ہڈی توڑنا ایسا ہی گناہ ہے جیسے زندہ کی ہڈی کو توڑنا‘‘۔ جو دین تکریم آدم کے باب میں اتنا حساس ہے، کیسے ممکن ہے کہ وہ کسی فرد سے اس بنا پر امتیازی سلوک کرے کہ وہ ایک معذوری کے ساتھ پیدا ہوا ہے جس میں اس کا کوئی قصور نہیں؟
خواجہ سرا ایسے ہی ایک انسان ہے جیسے کوئی مرد یا عورت ہو سکتے ہیں۔ ایک مسلمان معاشرے کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی امتیازی رویے کا شکار نہ ہو۔ ہم نے اپنی یہ ذمہ داری ادا نہیں کی۔ سماج نے اس پر ایک مہذب شہری بننے کے امکانات کو ختم کر دیا ہے۔ اس پر تعلیم اور تربیت کا دروازہ بند ہے۔ اسے روزگار نہیں دیا جاتا۔ اس کے بعد وہ اس معاشرے کے سنگ دل لوگوں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ گھر سے ٹھوکروں کا آغاز ہوتا ہے اور پھر ہر طرف سے اسے یہی ٹھوکریں ملتی ہیں۔ میرے لیے شدید صدمے کی بات ہے اگر علما بھی انہیں ایسی ہی ٹھوکروں سے نوازیں۔
علماء کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عام لوگوں کو اخلاقی اور دینی فرائض کے بارے میں انذار کریں۔ انہیں بتائیں کہ اسلام انسانوں کی تکریم سکھاتا ہے اور اس میں جنس کو بنیاد نہیں بناتا۔ خواجہ سراؤں کو سماج کا قابل احترام رکن بنانا سب کا فریضہ ہے۔ ان کا بھی جنہوں نے خود یہ ذمہ داری قبول کی ہے جیسے علماء اور ان کا بھی جنہیں یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے جیسے حکمران۔ اس باب میں اگر دین کی قدیم تفہیم مانع ہے تو ہمیں اس پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ آج مفتی کا کام محض اتنا نہیں ہے کہ وہ فقہ کی کسی قدیم کتاب سے ایک مسئلہ نقل کر کے بیان کر دے۔ اخبارات کے کالم ہر آدمی پڑھتا ہے۔ ایک مفتی اور عالم کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اس کے جواب سے دین کی کیا تصویر لوگوں کے سامنے آ رہی ہے۔ جو شخص پہلے ہی مذہب کے بارے میں تشکیک میں مبتلا ہے، وہ جب یہ پڑھے گا کہ خواجہ سرا کی میت غسل نہیں دیا جائے گا تو اسلام کے بارے میں وہ کیا رائے قائم کرے گا؟ یہی وہ نکتہ ہے جس کے پیش نظر قرآن مجید نے دین کے داعین کو مخاطب کر کے یہ ہدایت دی ہے کہ اللہ کی طرف حکمت اور اچھے اسلوب کے ساتھ بلاؤ۔