اُمت کا اپنے پیغمبر سے زندہ تعلق کیسے قائم ہو؟
مذہب کے پس منظر میں جب ایک امت وجود میں آتی ہے تو اس کامرکز و محور پیغمبر ہوتا ہے۔ پیغمبر سے امت کی تاسیس ہوتی ہے۔ ہر مذہب کے ماننے والے اپنے پیغمبر سے منسوب ہوتے ہیں۔ الہامی روایت پیغمبروں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتی۔ وہ انہیں ایک سلسلۃالذہب کی مختلف کڑیوں کے طور پر پیش کرتی ہے۔ ایک ہی دین ہے جس کو وہ اپنی اپنی قوم کے سامنے پیش کرتے رہے ہیں۔ اللہ کے رسولؐ نے جب انبیاؑء ما سبق کا ذکر فرمایا تو انہیں اپنا بھائی کہا۔ اس یک جہتی اور وحدت کے ساتھ، جب کسی قوم میں سے اللہ تعالیٰ ایک فرد کا انتخاب کرتے ہیں تو وہ حق کا تنہا نمائندہ اور ماخذ ہوتا ہے۔ پھر اسی کے گرد اہلِ ایمان جمع ہوتے اور یوں ایک امت کی ابتدا ہوتی ہے۔ پیغمبر اس لیے مبعوث کیے جاتے ہیں کہ وہ انسانوں کو ان کے رب کی طرف بلائیں اور ان کے سامنے یہ مثال پیش کریں کہ انہیں اپنے پروردگار کے احکام پر کس طرح عمل کرنا ہے۔گویا پیغمبر ایک آئیڈیل ہوتا ہے: اسوۂ حسنہ۔
الہامی روایت میں دین کا مرکز اللہ تعالیٰ کی ہستی ہے۔ انسان کا اصل تعارف 'اللہ کا بندہ‘ ہونا ہے۔ سیدنا مسیحؑ نے گہوارے میں کلام کیا تو اسی حیثیت میںاپنا تعارف کرایا۔ رسالت مآب ﷺ نے بھی خود کو اسی طرح پیش کیا۔ وہ اپنا دوسرا تعارف یہ کراتے ہیں کہ وہ اللہ کی طرف سے نبی بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ نبی کا مطلب ہے خبر دینے والا۔ وہ خود کو نذیر بھی کہتے ہیں: خبر دار کرنے والے۔ یہ قیامت کے برپا ہونے کی خبر ہے اور وہ اس سے انسانوں کو وقت سے پہلے خبر دار کرتے ہیں۔ پیغمبروں کی دیانت کا یہ عالم ہو تا ہے کہ وہ بار بار متوجہ کرتے ہیں کہ وہ لوگوں کو اپنی طرف نہیں، اللہ کی طرف بلا رہے ہیں۔اس کی ایک خاص وجہ ہے۔
پیغمبروں کی غیر معمولی شخصیت انسانوں کو مسحور کر دیتی ہے۔ ان کی عظمت جب لوگوں کی گرفت میں نہیں آتی تو ان کی شخصیت کا سحر ان کے مقام کو سمجھنے میں حجاب بن جاتا ہے۔ وہ اپنے عجزکا اعتراف یوں کرتے ہیں کہ عقیدت و محبت کا ایک ا یسا ہالہ ان کے گرد بُن دیتے ہیں جس سے اصل شخصیت نگاہوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ یوں دھیرے دھیرے پیغمبر کی یہ حیثیت کہ وہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کے لیے آتے ہیں اور اسوہ حسنہ ہیں، پس منظر میں چلی جاتی ہے اور اس کی جگہ ان کا ایک خود ساختہ تصور لے لیتا ہے جس میں صرف اظہارِ عقیدت ہی تعلق بالنبی کی اساس بن جاتا ہے۔ سیرت، فضائل کا بیان بن جاتی ہے اوریہ بات سرے سے فراموش کر دی جاتی ہے کہ پیغمبر تو اسوہ ہیں اور ان سے ہم نے یہ سیکھنا ہے کہ زندگی الہامی ہدایت کی روشنی میں کیسے تشکیل پائے گی؟ اللہ کے آخری رسول سیدنا محمد ﷺ نے دنیا سے تشریف لے جاتے وقت بھی اپنی امت کو اس بارے میں خبر دار فرمایا تھا۔
برادر احسن اقبال نے چند روز پہلے، ایک تقریب میںجب اس پہلو سے سیرتِ پاک کا ذکر کیا اورا س حوالے سے، ایک دائرے میں بعض حکومتی اقدامات کاتذکرہ کیا تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ ملک کی مختلف جامعات میں سیرت چیئرز قائم کی جائیں، جہاں آٹھ بنیادی تصورات پر سیرت کی راہنمائی میں تحقیق کی جائے اور اس کے ساتھ مختلف علوم کے ماہرین کی معاونت سے یہ جانا جائے کہ کیسے اسے ریاست کا لائحہ عمل بنایا جا سکتا ہے۔ ان میں اچھی حکومت، ادارہ سازی، مسلسل ترقی اور اس طرح کے دوسرے موضوعات شامل ہیں۔
ایسا ہی ایک موضوع بین المذاہب ہم آہنگی ہے۔ آج تکثیریت (Pluralism) کا دور ہے۔ معاشرے اب یک مذہبی نہیں رہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے معاشرے میں مسلمانوں کو کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے اور اس باب میں سیرت میں کیا روشنی ہے؟ اس کے لیے پہلی چیئر پشاور یونیورسٹی میں قائم کر دی گئی ہے اور اس کی ذمہ داری ڈاکٹر قبلہ ایاز جیسی نامور اور جانی پہچانی علمی شخصیت کو سونپی گئی ہے۔ ڈا کٹر صاحب کی علمی وجاہت اور شخصی متانت مسلمہ ہیں۔ میں ڈاکٹر صاحب کو برسوں سے جانتا ہوں اور بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے ان کی خدمات معلوم و معروف ہیں۔ اس چیئر نے اپنے کام کا آ غاز کر دیا ہے۔ 6 اور7 جنوری کو پہلی ورکشاپ ہوئی جس میں ملک بھر سے اہلِ علم کو جمع کیا گیا اور اس موضوع پر تحقیق اور تدبیر کے لیے، ایک لائحہ عمل تشکیل دیا گیا۔ مجھے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالنے کی سعادت ملی۔
احسن اقبال اسی ورکشاپ کے ابتدائی اجلاس میں اپنی بات کہہ رہے تھے۔ انہوں نے اپنے اس تصورکی تفصیلات بتائیں تو بہت خوشی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اساتذہ کی ایک مجلس میں مسلسل ترقی (Continious progress) کی بات کی اور بتایا کہ جاپان میں اس پرکیسے کام ہوا۔ ساتھ ہی اس خواہش کا اظہار کیا کہ پاکستان میں بھی اسے اپنانا چاہیے۔ اس پر شرکا نے کہا کہ جاپان میں ایسا ہو سکتا ہے، پاکستان میں نہیں۔ احسن صاحب کہتے ہیں کہ اس پر میں نے انہیں حدیث سنائی کہ ''وہ شخص برباد ہو گیا جس کا آج اس کے کل سے بہتر نہیں‘‘۔ اگر ہم اس کا اطلاق عملی زندگی پر کریں تو کیا یہ 'مسلسل ترقی‘ نہیں ہے؟ اسی طرح انہوں نے پانی بچانے کی بات کی اور اس ضمن میں اس نبوی ہدایت کا تذکرہ کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ایک نہر کے کنارے بھی وضو کرو تو پانی احتیاط سے استعمال کرو۔
تشویش کی بات انہوں نے یہ بتائی کہ ان موضوعات پر وہ ملک کی دوسری جامعات میں بھی چیئرز قائم کرنا چاہتے ہیں مگر ایک سے زائد بار، اخبار میں اشتہارات دینے کے باوجود ، موزوں لوگ نہیں مل رہے۔ اہلِ علم میں ایسے لوگ ناپید ہیں جو سیرت کا علم رکھتے ہوں اور ساتھ ہی اپنے عہد کا گہرا شعور بھی۔ سماج میں مذہب سے وابستگی کا دعویٰ رکھنے والوں کو ضرور اس پر غور کرنا چاہیے۔ میرے نزدیک اس کی وجہ وہی ہے جس کا میں نے ابتدا میں ذکر کیا۔
پیغمبر سے امتی کی محبت فطری ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے باپ سے بیٹے کی محبت۔ پیغمبر سے محبت، ماں باپ سے کئی درجے بڑھ جاتی ہے۔ اس کا سبب نبی کے امتی پر احسانات ہیں جو والدین سے کہیں زیادہ ہیں۔ جو میری دائمی نجات کے لیے اپنی زندگی کا چین راحت قربان کر ڈالے، اس اندیشے سے جس کے آنسو نہ تمھیں کہ کہیں میں جہنم کی آگ کا ایندھن نہ بنوں، یہ کیسے ممکن ہے کہ میرے وجود میں اس ہستی سے محبت کا دریا موجزن نہ ہوں، الا یہ کہ میں فاتر العقل ہو جاؤں یا میری فطرت مسخ ہوجائے اور میں شرفِ انسانیت سے محروم ہو جاؤں۔ پیغمبر سے امتی کی محبت کا نہ ہونا عجیب بات ہے، ہونے میں تعجب کیسا؟ تاہم یہ محبت اگر اس تصورِ رسالت کے تابع ہو جسے قرآن مجید یا خود رسالت مآبﷺ نے بیان کیا ہے تو اس کے عملی مظاہرکچھ اور ہوں گے۔ اگر یہ محبت ہماری خود ساختہ تعبیرات کی عطا کردہ ہے تو اس کے نتائج کچھ اور طرح کے ہوںگے۔
آج اسلام ہمارے لیے عصبیت ہے اور تعلق بالرسول عقیدت کے زبانی کلامی اظہار کا نام۔ محبت ِرسولؐ کے نام پر ہم نے سماج میں جس خیال کی آب یاری کی، اس کے مظاہر ہمارے سامنے ہیں۔ ہمارا مذہبی طبقہ انہی کو حبِ رسول کی علامت بنا کر پیش کر تا ہے۔ اگر یہی ہمارے مذہبی ہیرو ہیں تو پھر احسن صاحب کی شکایت کا مداوا کیسے ہوگا؟ لازم ہے کہ اب پیغمبر اور امتی کے تعلق کی تشکیل ِنو ہو اور ان اوّلیں نقوش کی روشنی میں، جو عہدِ رسالت و صحابہ میں پائے جاتے ہیں۔