ء کیسا ہوگا؟2017
اس سوال پر غورکا ایک زاویہ ہمارا ہے اور ایک ان کا جنہیں ہم اغیار کہتے ہیں۔ وہی جو آج دنیا کے حاکم ہیں۔ جن کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ ہم سے خوف زدہ اور ہماری تاک میں رہتے ہیں۔ ایک ایجنڈا ان کا ہے اور ایک ہمارا۔ پہلے اغیار کی بات۔
اپنی کوششوں سے وہ انسان کے تہذیبی سفر کو 'مصنوعی ذہانت‘ (Artificial Intelligence) کی منزل پر لے آئے ہیں۔ یہ کام انہوں نے بیسویں صدی ہی میں کر لیا تھا۔ اس باب میں تحقیق کا ابتدائی مرحلہ وہ تھا جب روبوٹس کو متعارف کرایا گیا۔ ظاہر ہے کہ یہ محدود پیمانے پر تھا۔ ہر تحقیق میں اگلا مرحلہ وہ ہوتا ہے جب آزمائش کے مراحل سے گزار کر ایک تحقیق کے مظاہر کو افادہ عام کے لیے پیش کر دیا جا تا ہے۔ یہ سائنس کا ٹیکنالوجی میں بدلنا ہے۔ مصنوعی ذہانت، کمپیوٹر اور موبائل فون کی صورت میں اب عوامی دسترس میں ہے۔ گوگل، ایپل اور ایمازون کو لیکن اس پر چین نہیں۔ وہ خیالات جوکبھی سائنس فکشن کا موضوع تھیں، اب ایک عملی حقیقت ہیں۔ 2017 ء میں ایک حیران کن دنیا ہمارے سامنے ہوگی۔
اس کا ایک مظہر جو سامنے آنے والا ہے، وہ گاڑیاں ہیں جو بغیر ڈرائیور کے چلیں گی۔ ایک ڈچ کمپنی نے پورے یورپ سے ایسے ٹرک کامیابی سے گزار دیے ہیں۔ اب بڑے پیمانے پر ان کی تیاری کا کام شروع ہو گیا ہے۔ اگلے آٹھ سال میں ایک تہائی ٹرک ایسے ہوں گے جو ڈرائیور کے بغیر سڑکوں پر رواں دواں ہو ں گے۔ پندرہ سال بعد، یہ کہا جا رہا ہے کہ شاید ہی کوئی ٹرک ایسادکھائی دے جس میں ڈرائیور ہو۔ پھر ایسی مشینیں بن رہی ہیں جو ایک ریاضی دان کی طرح ہوں گی۔ فرق یہ ہوگا کہ وہ ایک انسان کے مقابلے میں دس لاکھ گنا تیز رفتاری کے ساتھ کام کریں گی اور انہیںکبھی تھکاوٹ نہیں ہو گی۔ اس سال ڈرون کے کئی نئے روپ ہمارے سامنے آنے والے ہیں۔
یہ اُس دیگ کے چند دانے ہیں جسے ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کہتے ہیں۔ اس نوعیت کی بہت سی حیران کن باتیں ہیں، جن کا اب لوگوں کو سامنا ہوگا۔ اغیار جہاں اس سفر کو جاری رکھے ہوئے ہیں، وہاں ان کے سماجی علوم کے ماہرین اس سوال پر غور کر رہے ہیں کہ ان تبدیلیوں کے سماجی اثرات کیا ہوں گے؟ مثال کے طور پر دنیا میں سب سے زیادہ لوگ جس روزگار کے ساتھ وابستہ ہیں وہ ڈرائیونگ ہے۔ صرف امریکہ میں 3.5 ملین ٹرک ڈرائیور ہیں۔ جب گاڑیاں اور ٹرک، بغیر ڈرائیور کے چلیں گے تو اس کے نتیجے میں بے روزگاری بڑھے گی۔ اگر اتنے لوگ بے روزگار ہو جائیں تو ان کی معاشی کفالت کیسے ہو گی؟
یہ بحث مشینوں کی آمد کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی۔ ہمارے ہاں بھی اس پر بات ہوئی جب پرنٹنگ مشین ایجاد ہوئی۔کہا گیا کہ اگر اسے ہندوستان میں فروغ دیا گیا تو کاتبوں کا کیا بنے گا؟ ان کے روزگار کو بچانے کے لیے پرنٹنگ مشین لگانے سے انکار کر دیاگیا۔ اس کے نتیجے میں، ہم انسان کے تہذیبی قافلے سے کیسے بچھڑے، یہ ایک الگ داستان ہے۔ 'اغیار‘ کسی ایسی سوچ کو قبول نہیں کرتے۔ وہ ترقی کے سفر کو جاری رکھتے اور نئے پیدا ہونے والے مسائل کا حل تلاش کر تے ہیں۔ اس بحث میں شریک ایک گروہ کا کہنا ہے کہ نئی ٹیکنالوجی روزگار کے نئے مواقع پیدا کرتی ہے۔ پرانے ہنر اور مہارتیں متروک ہوجاتی ہیں اور نئے ہنر ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔ اس لیے سماج کو نئی مہارتیں اور ہنر مند پیدا کر نی چاہئیں۔ اسے 'علم کی بنیاد پر قائم معیشت‘ (knowledge based Economy) کا نام دیا جاتا ہے۔
اس سے واضح ہے کہ جس ہنر کی ڈیمانڈ مو جود نہیں، اس کے ماہر کے لیے اس معاشی نظام میں کوئی جگہ نہیں۔ یہ دنیا اسی کو گورا کرتی ہے جس میں نئی تبدیلیوں کے ساتھ جینے کی صلاحیت ہو۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے جینے کے حق سے محروم ہو جائیں؟ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کہتی ہے کہ 'مصنوعی ذہانت‘ سے مشینیں کم از کم پچاس فیصد کام اپنے ہاتھ میں کر لیں گی جو اب انسان کر رہے ہیں۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ مشینیں نوے فیصد افراد کو بے روزگار بنادیں گی۔ اسی وجہ سے امریکہ میں ایک گروہ یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ ریاست ہر کسی کے لیے ایک بنیادی آمدن کی ضمانت دے تاکہ معاشرہ ان مسائل سے محفوظ رہے جو بے روزگاری کی دَین ہیں۔ ایک مسئلہ روایت کا بھی ہے۔ روایت انسان کو ماضی سے وابستہ رکھتی ہے۔ اگر روزگار کے ذرائع بدل جائیں تو تہذیب بدل جاتی ہے۔ پھر نئی روایات جنم لیتی ہیں۔ روایت سے کٹنے کا مطلب یادداشت کا کھو جانا ہے۔ انسان یادداشت کے بغیر کیسے زندہ رہے گا؟
یہ وہ مباحث ہیں جو اغیار کے گھروں میں ہو رہے ہیں؟ ہمارے ہاں کیا ہے؟ خلافت یا جمہوریت؟ پاناما لیکس یا اے ٹی ایم مشینیں؟ مردہ خواجہ سرا کو غسل دیا جائے گا یا نہیں؟ پیش گوئیاں اور'اہلِ نظر‘ کی تنبیہات۔ ہمارا حال تو یہ ہے کہ CPEC کا آغاز ہوتا ہے توہمارے گروہی مفادات اس کے راستے میں دیوار بن جاتے ہیں۔ آج ہمارے موضوعات دوسرے ہیں۔ ترجیحات اور ہیں۔ گویا ہم کسی اور سیارے کی مخلوق ہیں اور وہ کسی اور سیارے کی۔ سیاسی و مذہبی راہنماؤں کے خطبات اور بیانا ت میں کہیں اس بات کا گزر ہی نہیں کہ دنیا کہاں جا رہی ہے اور ہم کہاں جا رہے ہیں؟ سول سوسائٹی اور جامعات میں بھی جدید معاشرے کی تفہیم کا کوئی اہتمام نہیں۔ جامعات میںعلم کے نام پر جو سرگرمی جاری ہے، اس میں ندرتِ خیال کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ سول سوسائٹی کا ایجنڈابھی واضح نہیں۔ اس کے بعد بھی ہم اس زعم میں مبتلا ہیںکہ دنیا ہم سے خوف زدہ ہے۔ ہم خیال کرتے ہیں کہ ہیجان میں مبتلا ہجوم اکٹھا کرنے سے ملک تبدیل ہو جاتے ہیں۔
ایک بات میری سمجھ میں کبھی نہیں آ سکی۔ ہماری سیاسی اور مذہبی قیادت میں کوئی آدمی ایسا نہیں جو جدید ترقی یافتہ دنیا سے واقف نہیں۔ شریف خاندان کے لندن میں اپنے گھر ہیں اور ان کے بچے وہیں رہتے اور کاروبار کرتے ہیں۔ یقیناً وہ جانتے ہوں گے کہ مغرب آف شور کمپنیوں اور شاپنگ سنٹرز کے علاوہ بھی کچھ ہے۔ عمران خان تو وہیں پلے بڑھے۔ ان کے بچے اب بھی وہاںکی تہذیبی رنگ میں رنگی ہوئی، سب سے پُر تعیش زندگی گزارتے ہیں۔ بلاول کا تو خمیر ہی مغربی ہے۔ انہیں پاکستان کو سمجھنے کی ضرورت ہے، مغرب سے تو وہ واقف ہی ہیں۔ مذہبی راہنما بھی آتے جاتے رہتے ہیں۔ کیا ان سب کومعلوم نہیں کہ قومیں کس طرح ترقی کر تی ہیں؟ کیا یہ نہیں جانتے کہ دنیا آج کہاں کھڑی ہے؟
نئے سال میں ہمارا ایجنڈا اور ہے، اغیار کا اور۔ ہماری منزل اور ہے اور ان کی اور۔ ہمارا میڈیا جن مسائل پر گفتگو کر رہا ہے اس سے بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہماری دانش کا معیار کیا ہے؟ عالمگیریت نے فاصلوں کو مٹا دیا ہے۔ ہمیں اگر آگے بڑھنا ہے تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہمارا ایجنڈا دنیا سے کتنا ہم آہنگ ہے؟ پھر ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہماری موجودہ سیاسی و مذہبی قیادت اور دانشور کیا قوم کی راہنمائی کے اہل ہیں؟
معاشرے میں جزیرے نہیں بنتے۔ سماج حادثات اور معجزوں سے وجود میں نہیں آتا۔ یہ اجتماعی جد وجہد سے اور درست سمت میں پیش قدمی سے بنتا ہے۔ اجتماعی رویے درست نہ ہوں تو قوم ہجوم میں بدل جاتی ہے۔ علامہ اقبال اورقائد اعظم نے ایک ہجوم کو قوم بنایا۔ ہم نے قوم کو پھر ہجوم بنادیا ہے۔