جنگل کا معاملہ دوسرا ہے۔ ایک مہذب معاشرے میں افراد دن دہاڑے گم ہونے لگیں تو یہ پوری قوم کے لیے تشویش کی بات ہونی چاہیے۔کیا یہ بھی کوئی ایسا مسئلہ ہے جس میں ایک سے زیادہ آراء ہو سکتی ہیں؟
داد دیجیے اس معاشرے کو کہ اس مسئلے میں بھی وہ گروہی تقسیم نمایاں ہے جس میں سب اپنے اپنے دھڑے کے ساتھ کھڑے ہیں۔کوئی مذمت بھی کرتا ہے تو اس بکری کی طرح جو دودھ دیتے وقت، اس میں مینگنیاں ڈال دیتی ہے۔گروہی عصبیت جب خود حق و باطل کا معیار بن جائے تو پھر یہی ہوتا ہے۔کچھ لوگ غائب ہوئے جو سیکولر خیالات رکھتے تھے۔ اس پر صرف وہ طبقہ پریشان ہے جو ان سے فکری ہم آہنگی رکھتا ہے۔ انہوں نے شاید وہ خبر نہیں پڑھی جس میں بتایا گیا ہے کہ تحریکِ ختم نبوت سے تعلق رکھنے والا ایک آ دمی بھی غائب ہوا ہے۔ ختم ِنبوت والوں تک ابھی یہ خبر نہیں پہنچی کہ اسی طرح کچھ سیکولر خیالات کے حامل افراد بھی غائب ہو چکے۔ معلوم یہ ہوا کہ ہمیں اس پر اعتراض نہیں کہ لوگ غائب کیوں ہوتے ہیں، ہمار اعتراض یہ ہے کہ ہمارے لوگ کیوں غائب ہوتے ہیں؟
سچ گروہوں کی ملکیت نہیں ہوتا۔ سچ کا تعلق اکثریت اور اقلیت سے بھی نہیں ہوتا۔ سچ کے عشاق اسے تلاش کر لیتے ہیں جہاں پاتے ہیں۔ میں ایک مذہبی آدمی ہوں۔ میرے مذہب نے مجھے بتایا ہے کہ میرے پروردگار کو اپنے بندے سے یہ مطلوب ہے کہ وہ حق کا سچا طالب بنے۔ اس سفر میں اگر منزل تک پہنچنے سے پہلے، اسے موت آجائے تو بھی وہ کامیاب شمار ہوگا۔ اسی سے میں نے یہ جانا کہ حق انسانی طبقات سے ماورا ہے۔ یہ سچ ہے جس کے پیمانے پر گروہوں کو پرکھا جائے گا نہ کہ گروہی موقف کی بنیاد پر حق کا تعین ہو گا۔
میں سوشل میڈیا کی بدعت سے ممکن حد تک دور رہتا ہوں۔ بالواسطہ خبر ملتی ہے کہ آج کل کیا مباحث جاری ہیں۔ ایک دو ویب سائٹس دیکھ لیتا ہوں۔ پچھلے دنوں معلوم ہوا کہ چلغوزے کا بہت ذکر ہے۔ دوستوں سے پوچھا تو پتا چلا کہ اس کا پس منظر کیا ہے۔ لوگ غائب ہوئے تو 'بھینسے‘ کا ذکر سننے کو ملا۔ اس باب میں قیاس آرائیوں کو کچھ لوگ مصدقہ خبر کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ میں کسی بھینسے کو جانتا ہوں اور نہ ہی اس کے خیالات سے واقف ہوں۔ اتنا معلوم ہوا کہ اس کی باتیں توہینِ مذہب کے دائرے میں آتی ہیں۔ اگر یہ سچ بھی ہو تو کیا اس کی بنیاد پر لوگوں کو غائب کر نے کا لائسنس مل جاتا ہے؟ اس صورت میں بھی مقدمہ قائم کرنا اور اسے عدالت میں ثابت کرنا ہوگا۔ بہر حال یہ سوشل میڈیا کی برپا کردہ ہنگامہ آرائی ہے۔ میں اس کے رازوں سے واقف نہیں، البتہ یہ جانتا ہوں کہ اصل مسئلہ انسانی رویے کا ہے۔
یہ واقعات ہمیں بتا رہے ہیں کہ ہم جمہوری رویوں سے کتنے دور ہیں اور جمہوریت کی ہمیں کتنی ضرورت ہے۔ اختلافِ رائے ایک زندہ معاشرے کی پہچان ہے۔ مفتی محمدشفیع مرحوم کے الفاظ میں غبی اور مفاد پرست ہی ایک دوسرے سے اختلاف نہیں کرتے۔ ذہنی طور پر بیدار اور مخلص لوگ لازماً ایک دوسرے سے اختلاف کریں گے۔ ہم انہیں اختلاف سے روک نہیں سکتے۔ اس میں صرف دوباتوں کی ضمانت لی جانی چاہیے۔ ایک یہ کہ بات دلیل کے ساتھ کی جائے۔ دوسرا یہ کہ شائستگی کے ساتھ۔ اس کے علاوہ ہم لوگوں سے کوئی تیسرا مطالبہ نہیں کر سکتے۔
ان دو حدود کے ساتھ ریاست کی حکمت علمی سے لے کر دوسروں کے مذہبی و سماجی نظریات تک، ہر موضوع پر بات ہو سکتی ہے اور میرا خیال ہے کہ کسی کو اس سے روکا نہیں جا سکتا۔ جو آدمی ان حدود کا خیال رکھتا ہے، اس کی آواز کو بزور دبانا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور ایسی ہر حرکت کی مزاحمت کی جانی چاہیے۔
اگر کوئی ان حدود سے تجاوز کرتا ہے تو اس کے بعد یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ایسے افراد کے خلاف قانون متحرک ہو۔ یہ حق کسی گروہ، فرد، حتیٰ کہ ریاست کو بھی نہیں دیا جا سکتا کہ وہ لوگوں کی آزادی کو سلب کرے۔ اگر کسی کے خلاف اس طرح کی کوئی شکایت ہے کہ اس نے اختلاف رائے کرتے وقت ان حدود کا خیال نہیں رکھا تو اس کے خلاف عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ لوگوں کو اٹھا لینا یا ان کا غائب ہو جانا، دراصل پورے سماج کو خوف کا اسیر بنانا ہے۔ یہ جمہوری اصولوں ہی سے نہیں، بنیادی انسانی حقوق سے بھی متصادم ہے اور اس لیے مذہب کی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔
آج لازم ہے کہ معاشرہ اس باب میں گروہی عصبیت سے بلند تر ہو کر ایک موقف اختیار کرے۔ دو نکات کی بنیاد پر لوگوں کو جمع کیا جا سکتا ہے۔ ایک یہ کہ اختلاف رائے فرد کا بنیادی حق ہے۔ دوسرا یہ کہ وہ اس بات کا پابند ہے کہ اپنا یہ حق دلیل اور شائستگی کے ساتھ استعمال کرے۔ اس باب میں کسی کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ مذہب یا قومی مفاد کا نمائندہ بن کر کھڑا ہو جائے اور خود ہی دوسروں کے ایمان یا حب الوطنی کے بارے میں فیصلہ صادر کرے۔ یہ حق ریاست کے لیے بھی ثابت نہیں ہے۔ وہ بھی پابند ہے کہ کسی عدالت میں اپنا مقدمہ ثابت کرے۔ دوسرا یہ کہ بد تہذیبی کو گوارا نہیں کیا جا سکتا۔ انبیا تو ایک طرف رہے، اسے تو کسی عام آدمی کے خلاف بھی برداشت نہیں کر نا چاہیے۔ یہی ایک مہذب معاشرے کی پہچان ہے۔
سوشل میڈیا رطب و یابس کا مجموعہ ہے۔کچھ ایسا ہی معاملہ الیکٹرانک میڈیا کا بھی ہے۔ انہیں ارتقا کے بہت سے مراحل ابھی طے کر نے ہیں۔ سوشل میڈیا نے ہر آدمی کے لیے یہ دروازہ کھول دیا ہے کہ وہ اپنی بات کا ابلاغ کرے۔ سائبر کرائم پر ہمارے ہاں قانون سازی ہو چکی۔ ضروری ہے کہ اس قانون کا صحیح معنوں میں اطلاق ہو۔ اس کے بعد بھی یہ امکان باقی رہے گا کہ کچھ لوگ اس حق کے سوئے استعمال کے مرتکب ہوں۔ ہمیں چاہیے کہ اس معاملے میں لوگوں کی ذہنی تربیت کریں اور انہیں یہ سکھائیں کہ اختلاف کیسے کیا جاتا ہے۔ تاہم پڑھے لکھے طبقے سے لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اختلاف رائے کا اظہار کرتے وقت اس کے آداب کا خیال رکھے گا۔
کچھ لوگ لاپتہ افرادکے معاملے میں ریاست کے اداروں کی طرف انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ان اداروں پر لازم ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنا کردار واضح کریں۔ یہ ادارے در اصل شہریوں کی جان و مال کے محافظ ہیں۔ انہی کی وجہ سے عوام کو یہ اطمینان ہوتا ہے کہ ان کے جان و مال کو جرائم پیشہ افراد سے تحفظ حاصل ہے۔ اگر یہ ادارے ایسے الزامات کی زد میں ہوں تو یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔ ریاست یہ حق رکھتی ہے کہ اگر وہ کسی کو قومی مفاد کے بر خلاف کام کرتا پائے تو اسے سزا دے۔ تاہم ریاست یہ کام قانون کی دائرے میں کرے گی۔ اگر ریاست کے ادارے خود کو قانون اور دستور سے ماورا سمجھنے لگیں تو عوام کو بھی قانون کا پابند نہیں بنایا جا سکتا۔ مولانا مودودی کے الفاظ میں جس کھیت کو باڑ کھانے لگ جائے تو پھر کھیت کو نہیں بچایا جا سکتا۔ اس لیے لازم ہے کہ اس معاملے میں ریاستی ادارے اپنی پوزیشن واضح کریں۔
یہ ریاست ہو یا سماجی طبقات، ایک مہذب معاشرے کی تشکیل ہم سب کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک ایسا سماج بنانا ہے جس میں ہم ایک دوسرے سے ممکن ہے کہ مذہبی و سیاسی معاملات میں اختلاف کرتے ہوں مگر ایک دوسرے کے ساتھ اعتماد کے رشتے میں بندھے ہوں۔ ہمیں ایک دوسرے سے جان ومال کا خوف نہ ہو۔ لوگ دن دہاڑے غائب ہونے لگیں تو پھر ریاست اور عوام میں اعتبار کا رشتہ کمزور ہونے لگتا ہے۔ اگر لوگ ایسے واقعات کو گروہی وابستگی کی بنیاد پر دیکھیں گے تو یہ قومی یکجہتی کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہوگا۔