کیا عزت صرف عورت کی ہوتی ہے؟ کیا مرد کی کوئی عزت نہیں؟
قدیم جاہلیت کا ایک تصور، جدید جاہلیت کے روپ میں ہمارے سامنے ہے۔ قدیم تصور، حقوقِ نسواں کے انکار سے پھوٹا تھا۔ جدید تصور حقوقِ نسواں پر اصرار سے اُبھرا ہے۔
جب عورت کے انفرادی وجود کا انکار کرتے ہوئے، اسے مرد کے استعمال کی ایک شے سمجھا جاتا تھا تو اس کی عزت کا ایک تصور تھا۔ اگرایک غیر اخلاقی واقعے میںکسی خاتون کا ذکرآجاتا تومتعلقہ مرد، وہ باپ ہو یا بیٹا، بھائی ہو یا شوہر، اسے اپنی توہین سمجھتا تھا۔ یوں اپنی عزت کے نام پر خاتون کی جان لے لیتا اور اس کو بہادری یا غیرت سمجھا جاتا۔ اگر یہی حرکت کسی مرد سے سرزد ہوتی توکسی باپ، کسی بھائی یا بیٹے کی عزت پر کوئی حرف نہ آتا۔ اس کی غیرت کا کوئی سوال پیدا نہ ہوتا۔ گویا 'عزت‘ عورت کی ہوتی ہے مرد کی نہیں۔ عہدِ جاہلیت کا یہ تصورہمارے معاشرے میں آج بھی زندہ ہے۔کردار کا تعلق عورت سے ہے۔ مرد کے لیے یہ ایک بے معنی تصور ہے۔
اسلام مرد و زن کے اس امتیازکو قبول نہیں کرتا۔ وہ دونوں کو باعزت سمجھتا ہے اور دونوں کی 'عزت‘ کو ایک نظر سے دیکھتا ہے۔ سیدنا یوسفؑ کے قصے سے قرآن مجید نے واضح کیا کہ مرد کی عزت بھی قیمتی ہے اورکوئی زلیخا اس کی دامنِ عصمت کے درپے ہو تو اس کادفاع ہونا چاہیے۔ محض الزام سے یہ لازم نہیں آتا کہ مرد کو محض اس وجہ سے مجرم قرار دے دیا جائے کہ وہ مرد ہے۔ اسلام نے جرم وسزا کا جو تصور دیا ہے، اس میں بھی مرد و زن کی سزا میں کوئی فرق نہیں۔ گویا برائی کے امکانات دونوں طرف پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا فیصلہ کرتے وقت شواہد کو بنیاد بنایا جا ئے گا نہ کہ صنف کو۔
عزت کے قدیم تصور کے تحت، خواتین کے ساتھ جو ظلم ہوا، اس کا ردِ عمل ہو اور دنیا بھر میں ان کے حقوق کے لیے تحریکیں اٹھیں۔ خواتین کے ساتھ امتیاز صرف ہمارے معاشرے ہی میں نہیں ہوا، یورپ اور امریکہ میں بھی انہیں دوسرے درجے کا شہری سمجھا گیا۔ ان تحریکوں کو مقبولیت حاصل ہوئی جو ہونا تھی۔ ظلم کو انسانی فطرت گوارا نہیں کرتی۔ اس ردِ عمل میں، معاشرے حقوقِ نسواں کے باب میں حساس ہوئے۔ انسانی رویوں کے ساتھ قانون سازی میں بھی پیش رفت ہوئی اور خواتین کے حقوق اور عزت کے تحفظ کے لیے سنجیدہ اقدامات ہوئے۔ اس کا خیر مقدم ہونا چاہیے۔ تاہم اس خیر سے ایک شر وابستہ ہوگیا جو ایسے قوانین کے سوئے استعمال کا نتیجہ تھا۔ اسے میں جدید جاہلیت کہتا ہوں۔
بعض شہری خواتین نے ان قوانین کو اپنی کمزوریوں کے لیے ہتھیار بنا لیا۔ انہوں نے برابری کا نعرہ لگایا لیکن اگر کہیں مردوں کے مقابلے میں میرٹ پر پورا نہیں اتریں تو انہوں نے اسے صنفی امتیاز کا نام دیا۔ ان مراعات کے لیے ان کو استعمال کیا جو ان کا استحقاق نہیں تھا۔ جنسی مساوات کا مطلب تو یہ ہے کہ کسی کو مرد یا عورت ہونے کی بنیاد پر کوئی فائدہ یا نقصان نہ پہنچے۔ ہمارے ہاں جب حقوقِ نسواں کے تحفظ کے لیے قوانین بنے تو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات بھی بیان ہونے لگے۔ ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے، اس میں غالب امکان یہی سمجھا گیا کہ مرد ہی قصور وار ہوگا۔ اس لیے جب بھی کہیں ایسا
واقعہ رپورٹ ہوا، بغیر تحقیق کے یہ فرض کر لیا گیا کہ مردکا قصور ہوگا۔ بعض واقعات میںحقوقِ نسواں کے قوانین کو اس طرح استعمال کیا گیا کہ مرد کی عزت کے لالے پڑ گئے۔ میرا احساس ہے کہ یہ رویہ انصاف اور عقل دونوں کے خلاف ہے۔ اس میں درست طریقہ یہی ہونا چاہیے کہ ہر واقعے کو انفرادی حیثیت میں دیکھا جائے۔ تحقیق کے تقاضے پورے کیے جائیں اور اس کے بعد ذمہ دارکو قرار واقعی سزا دی جائے۔ اسی طرح بے گناہ کے لیے بھی برأت کا اعلان ہو۔
دورِ جدید میں میڈیا کی بے مہار آزادی نے صدق (Truth)کے بجائے تاثر صدق (Post Truth) کو جنم دیا ہے۔ اب سچ وہی ہے جو خود کو سچ کے طور پر منوالے، یہ لازم نہیں کہ وہ سچ بھی ہو۔ ماضی میں یہ پروپیگنڈا کہلاتا تھا۔ اس کی ایک مثال قومی منظر نامے پر 'کرپشن‘ کے نام پر پھیلایا جانے والا 'پوسٹ ٹروتھ‘ ہے۔ میڈیا میں مہارت کے ساتھ بعض اہلِ سیاست کے بارے میں اسے مسلمہ حقیقت بنا کر پیش کیا گیا ہے کہ وہ کرپٹ ہیں۔ اس تاثر کو اس طرح پھیلایا گیا کہ عدالت کا فیصلہ سماجی سطح پر بے معنی بنا دیا گیا۔ اسی طرح اگر کسی نے حکومت کے بارے میں حرفِ خیر کہہ دیا تو اس کا لازمی مفہوم یہ سمجھا گیا کہ وہ لازماً ناجائز مراعات کا نتیجہ ہے۔ کچھ یہی معاملہ حقوقِ نسواں کا بھی ہے۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں بغیر تحقیق کے، محض ایک موقف کو اس طرح اچھالا جاتا ہے کہ لوگ اسے سچ شمار کر نے لگتے ہیں۔ اس سے سب سے زیادہ نقصان سچ اورمظلوم کو ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے ان دنوں ایک قومی اور باوقار ادارہ بھی اسی 'پوسٹ ٹروتھ‘ کی زد میں ہے۔ یہاں بھی جنسی طور پر ہراساں کرنے کی شکایت سامنے آئی۔ مخلوط اداروں میں ایسی شکایت کا سامنے آنا کوئی انہونی بات نہیں۔ ان شکایات کا حکومتی سطح پر نوٹس لیا گیا۔ اس پر انکوائری ہوئی۔ ذمہ دار لوگوں کویہ کام سونپا گیا۔ انہوں نے مروجہ طریقوں سے حقائق تک پہنچنے کی کوشش کی اوراپنے نتائجِ تحقیق متعلقہ افراد کو پیش کر دیے۔ اب امید یہی ہے کہ اس کی روشنی میں یہ بات سامنے آ جائے گی کہ شکایات میں صداقت تھی یا یہ محض ایک الزام تھا۔
بدقسمتی نے کچھ متعلقہ اور غیرمتعلقہ لوگوں نے فیصلے کا انتظار کیے بغیر، خود ہی مدعی اور خود ہی منصف بننے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کے لیے سوشل میڈیا کو استعمال کیا گیا اور شکایت کو امرِ واقعہ بناکر پیش کیا گیا۔ یہاں بھی میڈیا کے ایک حصے نے وہی کچھ کیا جو پامانا کیس میں ہو رہا ہے۔ عدالتی کارروائی اور فیصلے سے ماورا فیصلے سنائے گئے اور اپنے تئیں لوگوں کو مجرم بنا دیا گیا۔ اس سے اس باوقار سرکاری ادارے کی شہرت مجروح ہوئی اورظاہر ہے کہ اس کا فائدہ کسی کو نہیں ہوا۔ جن لوگوں نے ایسا کیا، انہوں نے اس ادارے کو بدنام کر نے کوشش کی، حالانکہ انتظامیہ نے شکایات کا بر وقت نوٹس لیا اور قانون کے مطابق کارروائی کی۔ اس کے بعد میڈیا میں واویلا بلا جواز تھا۔ پیپلزپارٹی نے اس صورت ِحال سے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہا اوروہ اسے پارلیمنٹ میں لے آئی۔
یہ میڈیا مہم حقوقِ نسواں کے نام پر انصاف پر اثر انداز ہونے کی ایک کوشش ہے۔ جس طرح پاناما کیس کا فیصلہ کرنے کا حق عدالت کو ہے، میڈیا کو نہیں، اسی طرح اس مقدمے کا فیصلہ بھی میڈیا کے بجائے، قانون کے تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ عزت صرف خاتون کی نہیں، مرد کی بھی ہوتی ہے۔ مرد بھی معاشرے کا ایک فرد ہے۔ اسے بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے بچوں، والدین، بیوی اور حلقہ احباب میں عزت کی نظر سے دیکھا جائے۔ جس طرح خاتون کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے، اسی طرح مرد بھی انصاف کا طالب ہے۔ میرا احساس ہے کہ ذمہ داران اس بات کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ اس معاملے کو قانون اور انصاف کے تقاضوں کے ساتھ حل کریں۔ مجھے یہ بھی امید ہے کہ ٹروتھ کی بنیادپر فیصلے ہوں گے نہ کہ میڈیا میں پھیلائے گئے 'پوسٹ ٹروتھ ‘کی اساس پر۔
میں اس موضوع پر قلم نہ اٹھاتا اگرمیڈیا میں یہ ہنگامہ آرائی نہ ہوتی۔ ہمیں حکم ہے کہ ہم اپنے علم کی بنیاد پر سچ کے گواہ بنیں۔ معاملات غلط رخ اختیار کرلیں تو بساط بھر انہیں درست رخ دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔