مجھ جیسے لوگ یہ خواہش کرتے رہے کہ تحریکِ انصاف اپنا مقدمہ پارلیمنٹ میں پیش کرے۔ خیال یہ تھا کہ ملک کو ڈی چوک کی اُس سیاست سے نجات ملے گی جس نے عوام کے ایک طبقے کو ہیجان میں مبتلا کر کے، اسے عقل و خرد سے بیگانہ کردیا ہے۔ کیا خبر تھی کہ اس کے نتیجے میں پارلیمنٹ ہی ڈی چوک بن جائے گی ؎
میں نے پھولوں کی آرزوکی تھی
آنکھ میں موتیا اتر آیا
دنیا بھر میں پاپولزم ایک غالب سیاسی عمل کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ امریکہ میں رونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے، اُن اہلِ سیاست کی امیدیں وابستہ ہو گئی ہیں جو عوامی جذبات کا ستحصال کر سکتے ہیں۔ امریکی تجربے سے یہ معلوم ہوا کہ اگر اچھی حکمتِ عملی کے ساتھ اس کو اپنایا جائے تو کامیابی ممکن ہے۔ پاکستان میں یہ سیاست پہلے سے جاری ہے۔ اسے کامیابی بھی ملی مگر جزوی۔ یہ ایک ملک گیر عمل نہیں بن سکا۔ ٹرمپ کی کامیابی نے اسے مہمیز دے دی ہے۔ ہیجان کا معاملہ یہ ہے کہ اسے زیادہ عرصہ برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ اس لیے عجلت پاپولزم کی سیاست کا ناگزیر حصہ ہے۔ ٹرمپ کی انتخابی مہم اگر ایک آدھ مہینہ مزید جاری رہتی تو ممکن ہے کہ عقل بروئے کار آ جاتی۔ کیا یہ بات حیران کن نہیں کہ انتخاب سے حلف برداری تک، یعنی نومبر سے جنوری تک، محض دو ماہ میں ان کی مقبولیت کا گراف مزید گر گیا ہے۔
زندگی سر تا پا آ زمائش ہے۔ اس میں خواب تو پنپ سکتا ہے، تعبیر نہیں۔ زندگی کہیں بھی آئیڈیل نہیں ہو تی۔ امریکہ میں بھی نہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کا تو ناگزیر نتیجہ، چند ہاتھوں میں وسائل کا اتکاز ہے۔ چند دن پہلے 'آکسفیم‘ (Oxfam) کی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جو بتاتی ہے کہ دنیا کی نصف آبادی،3.2 بلین افرادکے پاس جتنی دولت ہے، اس سے زیادہ دولت صرف آٹھ افراد کے پاس ہے۔ ان میں سے چھ کا تعلق امریکہ سے ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے محرومی میں اضافہ ہوتا ہے۔ محرومی ایک موضوعی (subjective) معاملہ ہے۔ امریکہ میں اس کا پیمانہ اور ہے، ایک ترقی پزیر میں اور۔ شکایت ہر جگہ موجود ہے۔ یہی محرومی کی شکایت پاپولزم کوجنم دیتی ہے۔ ایک آدمی اٹھتا اور محرومی کے جذبات کو مخاطب بناتا ہے۔ یوں اس پرعوام کی محبت کا دروازہ کھل جاتا ہے۔
محرومی کوئی فرضی معاملہ نہیں ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانوں کا استحصال ہوتا ہے اور ایک طبقہ اس کا مجرم ہوتا ہے۔ اسے بیان کرنا اور اس محرومی کودور کر نے کی خواہش کرنے میں کوئی برائی نہیں۔ تاہم پاپولزم اس سے مختلف عمل ہے۔ پاپولزم مسائل کے سنجیدہ حل سے زیادہ، عوامی جذبات کے استحصال کا نام ہے۔ زیادہ تر لوگ اس محرومی کو سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتے اور یوں اپنے لیے اقتدار کے راستے ہموار کرتے ہیں۔ پاپولزم اور تبدیلی کی حقیقی خواہش میں وہی فرق ہے جو سٹالن اور مارکس میں ہے۔
مارکس نے اس انسانی دکھ کو محسوس کیا جو سرمایہ داری کی دَین تھا۔جاگیر دار اور سرمایہ دار نے جس طرح کسان اور مزدور کا استحصال کیا، اس نے ایک بڑے انسانی المیے کو جنم دیا۔ مارکس نے اسے محسوس کیا۔ اسے سمجھنے کی کوشش کی۔ انسانی تاریخ کو جانا اور پھر محرومی کے اس عمل کو ایک نظامِ فکر (discourse) میں بدل دیا۔ اُس نے تاریخی عمل کو طبقات کی کشمکش کا نتیجہ قرار دیا۔ اس کو تبدیل کرنے کے لیے ایک انقلابی حکمتِ عملی تجویزکی۔ اس فکر نے انسانوں کی ایک بڑی تعدادکو متاثر کیا۔ یہاں تک کہ سرمایہ داری کو بقا کے بحران میں مبتلا کر دیا۔ اس پاپولر تصور کوسٹالن جیسے لوگوں نے پاپولزم میں بدل دیا۔ انہوں نے اس نظریے کی مقبولیت کا فائدہ اٹھایا۔ محرومی اپنی جگہ رہی اورکمیونسٹ پارٹی کے نام پر ایک نیا استحصالی طبقہ وجود میں آگیا۔
تاہم مارکس ازم چونکہ ایک سنجیدہ عمل تھا، اس لیے اس کے اثرات غیر معمولی اور دیر پا تھے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اکابر کو اندازہ ہوگیا کہ اگر سرمایہ دار اپنے منافع کی شرح میں ایک حد تک کمی پر آمادہ نہ ہوا تو اسے سب کچھ کھونا پڑے گا۔ اگر وہ پہلے سو روپے کی سرمایہ کاری پر سو روپے کماتا تھا تو اسے باور کرایا گیا کہ وہ اسی روپے کمائے اور بیس روپے مزدور پر خرچ کرے تاکہ وہ اس کے خلاف بغاوت نہ کرے۔ عوام کو فیصلہ سازی میں شریک کرے ورنہ اس کا یہ نظام باقی نہیں رہے گا۔ سرمایہ دار کو یہ بات پسند آ گئی۔ اس نے اپنے حیلے تبدیل کیے۔ اس کے نتیجے میں فلاحی ریاست اور جمہوریت کا تصور سامنے آیا اور اس طرح معاشروں کو قدرے ثبات اور قرار ملا۔
گزشتہ چند دہائیوں سے سرمایہ دار کی حرص پھر حدود سے تجاوز کرنے لگی ہے۔ اس پر پھر زیادہ منافع کمانے کا بھوت سوار ہے۔ اس نے ایک نئی محرومی کو جنم دیا ہے۔ اب محرومی کی تعریف بھی بدل گئی ہے۔ انیسویں صدی میں نانِ جویں کا مل جانا کافی تھا۔ اب ایک خاص طرح کے معیار زندگی کا نہ ہو نا محرومی ہے۔ اکثریت چونکہ اس معیارِ زندگی سے محروم ہے، اس لیے ایک بار پھر اضطراب ہے۔ اس اضطراب نے ایک مقبول سیاسی نعرے کی صورت اختیار کر لی ہے جو پاپولزم کی صورت میں آج ہمارے سامنے ہے۔
امریکہ اور پاکستان سمیت، محرومی کا یہ تصور کسی سنجیدہ غور و فکر کا نتیجہ نہیں۔ آج کی محرومی، جسے بعد ازمارکس (Post Marx) دور کی پیداوار کہنا چاہیے، ایک نظام ِفکر (discourse)کی صورت اختیار نہیں کر سکی۔ جن لوگوں نے اس محرومی کو سیاسی تحریک میں بدلنا چاہا، انہوں نے حالات کا کوئی معروضی مطالعہ نہیں کیا۔ اگر ہم ان کی دیانت پر شک نہ کریں تو بھی ان کی بصیرت ضرور مشکوک ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں، پاپولزم کی موجودہ لہر میں جس بات کو نظر انداز کیا گیا وہ جمہوریت ہے۔ انیسویں صدی میں جب مارکس یا ماؤ نے تبدیلی کے لیے انقلابی جد و جہد کی بات کی تھی تو اس وقت دنیا میں انسانی حقوق کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ آزادی رائے پر پابندی تھی۔ اس فضا میں انقلابی جد وجہد کے لیے کم ازکم عملی سطح پر ایک جواز مو جود تھا۔ میں یہاں اخلاقی جواز کی بات نہیں کر رہا۔ آج جمہوریت ہے۔ آزادی رائے کو ایک قدر کی حیثیت حاصل ہے۔ اس میں انقلابی جدوجہد کی ضروت باقی ہے نہ س کے لیے کوئی جگہ ہے۔
پاکستان میں پاپولزم کی سیاست کرنے والے چونکہ غور و فکر کے کسی عمل سے نہیں گزرے، اس لیے ان کی حکمتِ عملی میں اس بات کا کوئی ادراک موجود نہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہ پارلیمنٹ اور ڈی چوک کے فرق کو نہیں سمجھ رہے۔ وہ ٹی وی ٹاک شو اور ایوانِ عدالت کے فرق سے بھی بے خبر ہیں۔ ان کے نزدیک ڈی چوک میں جو نعرے لگ سکتے ہیں ،انہیں پارلیمنٹ میں بھی روا رکھا جا سکتا ہے۔ جو دلیل اور لب و لہجہ عوامی جلسے میں اختیار کیا جاتا ہے، اسی دلیل اور لب و لہجے سے عدالت کو بھی مطمئن کیا جا سکتا ہے۔ جب ایسا نہیں ہوتا تو پھر ان کے نزدیک پارلیمان اور عدالت دونوں بے معنی قرار پاتے ہیں۔
یونان اور فرانس میں اشتراکیت کے علم برداروں نے یہ کوشش کی ہے کہ وہ پاپولزم کی اس لہر کو اپنے خوابوں کی تعمیر کے لیے استعمال کریں۔ اس لیے وہاں پاپولزم کی افادیت کسی حد تک نتیجہ خیز ہو سکتی ہے۔ امریکہ میں ایسا نہیں ہے۔ اس لیے وہاں ناکامی ٹرمپ کا مقدر ہے۔ پاکستان میں بھی اس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ جمعرات کو پارلیمنٹ میں جو کچھ ہوا ور عمران خان نے جس طرح اس کا دفاع کیا، اس سے ایک بار پھر واضح ہو گیا ہے کہ 'پاپولزم‘ کتنا نقصان دہ عمل ہے۔ یہ مسائل میں اضافہ تو کر سکتا ہے،کمی نہیں۔کاش تحریکِ انصاف کی حکمتِ عملی میں بصیرت کے لیے کوئی جگہ ہوتی۔ شہر یار آفریدی اور علی محمد خان جیسے لوگوں کا اس طرح ضائع ہونا ایک قومی المیہ ہے۔