جب مسجد کا منبر مذہبی اور مسلکی منافرت پھیلانے کے لیے وقف ہو جائے۔ جب ٹی وی سکرین اُن مذہبی اداکاروں کے قبضے میں ہو جو ریٹنگ کے لیے مذہبی جذبات کو مشتعل کرتے اور اسے حمیتِ دین کا نام دیتے ہوں۔ جب سیاسی راہنما نوجوانوں میں ہیجان پیدا کرتے اور انہیں تعلیم دیتے ہوں کہ ملک کا قانون، آئین اور ادارے سب بے معنی ہیں۔ جب سیاسی جماعتیں اپنا موقف بیان کرنے کے لیے اُن لوگوں کا انتخاب کرتی ہوں جن کی زبانیں شعلے اگلتی ہیں۔ جب کالم نگار مسلسل حکومت اور نظام کے خلاف نفرت پیدا کرتے اورصرف بری خبروں کو موضوع بناتے ہوں۔ جب ذرائع ابلاغ میں اچھی بات خبر کہلوانے کی مستحق نہ سمجھی جا ئے۔ جب سیاسی و مذہبی اختلاف کو بڑھا کر دشمنی میں بدل دیا جائے۔جب ریاست کی سلامتی کا بیانیہ دوسروں کے خلاف نفرت پر کھڑا ہو اور قومی مفاد کے نام پرکچھ لوگوں کو بے مہار چھوڑ دیا جائے۔ جب یہ سب کچھ ہو رہا ہو تو اس کا صرف ایک ہی نتیجہ ممکن ہے: انتہا پسندی۔ جس آگ پر سب تیل ڈال رہے ہوں، اس کی شکایت کیسی اور کس سے؟
میرے ایک خالہ زاد بھائی ہیں۔ بہت پڑھے لکھے۔ 'جذباتی ذہانت‘ (Emotional Intelligence) ان کا موضوع ہے۔ اس مضمون کو انہوں نے باضابطہ طور پر پڑھا ہے اور پاکستان میں شاید وہ واحد آ دمی ہیں جو اس علم میں سند یافتہ ہیں۔ جذباتی ذہانت، سادہ لفظوں میں اس مہارت کا نام ہے کہ کیسے جذبات کو ذہن کے تابع کیا جا ئے۔کیسے اشتعال کے لمحوں میں خود کو قابو میں رکھا جائے اور اقدام سے پہلے ذہن کو اتنا وقت دیا جائے کہ وہ ایک بار پھر انسان کے وجود کو اپنی گرفت میں لے لے۔ وہ اس موضوع پر ملک بھر میں لوگوں کو تعلیم دیتے اور ان کی تربیت کرتے ہیں۔
میرے یہ بھائی جب سیاست پر گفتگو کرتے اور ملکی مسائل کا حل پیش کرتے ہیں تو یہی فرماتے ہیں کہ اس ملک کو ایک خمینی کی ضرورت ہے۔ ان کا تجزیہ یہ ہے کہ یہاں سب کرپٹ ہیں۔ کوئی ادارہ کام نہیں کر رہا۔ اس کا حل یہی ہے کہ سب کو دریا برد کردینا چاہیے یا اس نظام کو آگ لگا دینی چاہیے اور پھر اس کی خاک بھی اڑا دینی چاہیے۔ وہ ایک طرف حکمرانوں سے مثالی کردار کی توقع رکھتے ہیں اور دوسری طرف لوگوں کو تربیت یہ دیتے ہیں کہ فیصلہ ہمیشہ زمینی حقائق کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
یہ صاحب ایک نیک اورصاحبِ خیر آدمی ہیں۔ ان سے بارہا بحث ہوتی ہے۔ میں ان کی خدمت میں یہ عرض کرتا ہوں کہ وہ جس جذباتی ذہانت کی بات کرتے ہیں، اس کا اطلاق قومی معاملات پر بھی کریں۔ میں ان سے یہ بھی کہتا ہوں کہ آپ سیاسی معاملات پر جو گفتگو کرتے ہیں، وہ سیاسی انتہا پسندی ہے۔ یہ در اصل انسانی شخصیت کی باگ جذبات کے ہاتھ میں دینا ہے۔ یہ آپ کے اُس تصور کے خلاف ہے جس کی آپ تبلیغ کرتے ہیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں ان پر اس تضاد کو واضح کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکا۔ ان کا نقطۂ نظر تادمِ تحریر یہی ہے کہ اس ملک کو مشرف جیسے حکمران کی ضرورت ہے۔ جمہوریت ایک ڈرامہ ہے جو مراعات یافتہ طبقے نے اپنے مفادکے لیے رچا رکھا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اس ملک میںہر کوئی انتہا پسندی کے خلاف ہے لیکن دانستہ یا نادانستہ اس کے فروغ میں ملوث ہے۔ بالخصوص اس کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو دوسروں کی آرا یا رویوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جیسے سیاسی لیڈر، جیسے مذہبی راہنما، جیسے ٹی وی اینکر، جیسے کالم نگار۔ جب صبح و شام لوگوں کے ذہنوں میں مذہب اور سیاست کے نام پر صرف نفرت کے بیچ بوئے جائیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ شخصیت کے پودے پر برداشت اور محبت کے برگ و بارآئیں؟ جو مذہبی نفرت پھیلاتا ہے، وہ سیاست دانوں کو انتہا پسندی کا مجرم ٹھہراتا اور اس کو نظر اندازکرتا ہے کہ وہ خود کیا کر رہا ہے۔ جو سیاست کے کھیتوں میں نفرت کی فصل اگاتا ہے، وہ مذہبی انتہا پسندی پر پریشان دکھائی دیتا ہے۔ یہ سوچنے پر کوئی آمادہ نہیں کہ سب در اصل ایک ہی کام کر رہے ہیں اور وہ ہے انتہا پسندی کا فروغ۔
انتہا پسندی ایک رویہ ہے جوپورے انسانی وجود کو محیط ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک آ دمی مذہب کے معاملے میں انتہا پسند ہو اور وہ سیاست میں روا دار ہو؟ یا ایک مذہب میں روادار ہو اور سیاست میں انتہا پسند۔ انسان کی شخصیت مشین نہیں ہے۔ اسے جو سکھایا جا ئے گا، اس کا اظہار زندگی کے ہر شعبے میں ہو گا۔ اگر معاشرے کو انتہا پسندی سے نجات دلانی ہے تو سب کو انتہا پسندی سے گریز کرنا ہو گا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ سیاست میں اس کو گوارا کیا جائے اور مذہب میں یہ ممنوع قرار پائے۔ حکمران طبقے کے خلاف نفرت پھیلائی جائے اور یہ سمجھا جائے کہ اس کا اثر دیگر شعبوں پر نہیں پڑے گا۔
تین طبقوں کو بطورخاص اپنے رویے کی اصلاح کر نا ہوگی۔ سب سے پہلے ذرائع ابلاغ ہیں۔ بد قسمتی سے، ابلاغی اداروں کی اوّل و آخ رترجیح ریٹنگ ہے، الا ماشااللہ۔ وہ اس کے لیے کچھ بھی کر گزرنے پر آمادہ ہیں۔ ایک اینکر جو آج انتہا پسندی کے سب سے بڑے نمائندے ہیں ،انہیں ایک چینل نے اپنی ریٹنگ اور منافع خوری کے لیے پروان چڑھایا۔ جب وہ اس چینل سے وابستہ تھے، تب بھی ان کے خیالات اور انداز یہی تھے۔ اس وقت چینل کی نگاہ اس پر نہیں تھی کہ وہ اس انتہا پسندی سے متاثر نہیں ہو رہا تھا۔ اب وہ چینل اس کی گرفت میں ہے تو انہیں یہ اینکر انتہا پسند دکھائی دینے لگے ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے یہ کاروباری حریف جو ہتھیار دوسروں کے خلاف استعمال کرتے ہیں، وہ ایک دن واپس ان پر وار کرتا ہے۔ اس میں عبرت کا بڑا سامان ہے، اگر کو ئی جانے۔
اسی طرح سیاسی راہنما ہیں جو دوسروں کو چور اور کرپٹ کہتے اور اس پر اصرار کرتے ہیں۔ جو اپنی نمائندگی کے لیے دریدہ دہنوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ وہ مذہبی راہنماجو علمی اختلاف کی بنیاد پر شدت پسندی کو ہوا دیتے ہیں۔
انتہا پسندی سے گریز کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ حکومت یا کسی طبقے کو تنقید سے بالا تر قرار دے دیا جائے۔ یا کہیں خرابی ہے تو اس کی نشا ن دہی نہ کی جائے۔ اصلاح کی غرض سے مسائل کی نشا ندہی اور انتہا پسندی پھیلانے میں فرق ہے۔ ہمیں تنقید کر تے وقت یہ دیکھنا ہے کہ مقصود اصلاح ہے یا کسی طبقے کے لیے دوسروں کے دلوں میں نفرت پیدا کرنا۔ اب بو لنے اور لکھنے والے اتنے سادہ نہیں ہیں کہ اس فرق کو نہ جانتے ہوں یا یہ بات ان کی سمجھ میں نہ آئے کہ اصلاح کس اسلوب کا تقاضا کرتی ہے اور نفرت کیسے پیدا کی جا تی ہے۔ خطیب و ادیب سب جانتے ہیں۔
ہم اگر انتہا پسندی کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو ہم سب کو اس کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ انتہاپسندی کو ہر شعبے سے دیس نکالنا دینا ہوگا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ سیاست میں تو انتہا پسندی باقی رہے اور مذہب سے نکل جائے۔ کالم نگار تو انتہا پسندی کو فروغ دیتا رہے اور خطیب روادار ہو جائے۔ سماج کی تشکیل رویوں سے ہوتی ہے۔ یہ عالم و خطیب ہو یا ٹی وی اینکرو کالم نگار، سب کو وہ اسلوب اپنانا ہو گا جو نفرت انگیز نہیں، محبت آمیز ہو۔ اس کے بعد ہی انتہا پسندی ختم ہو سکتی ہے۔ ورنہ ہم ایک دوسرے کو الزام دیتے رہیں گے اور اس کے نتیجے میں انتہا پسندی پھیلتی رہے گی۔