کیا دنیا ایک عالمگیر حکومت کی طرف بڑھ رہی ہے؟ قومی ریاست کا تصورکیا اب قصۂ پارینہ ہے؟
تبدیلی کا عمل اس تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے کہ اسے کسی نظری ڈھانچے (Discourse) میں بدلنا آسان نہیں۔ کم و بیش ایک سو امریکی کمپنیاں صدر ٹرمپ کے اس اندازِ نظر کے خلاف متحد ہو گئی ہیں جو انہوں نے تارکین وطن کے باب میں اختیار کیا ہے۔ سرمایہ اگر سیاست و معاشرت کی صورت گری کرے گاتو پھر ریاست کو اس کے مفادات کے تابع ہونا پڑے گا۔ ٹرمپ جو خود ایک سرمایہ دار ہیں، انہیں یہ بات سمجھ نہیںآ رہی۔ سرمائے نے اپنے بارے میں یہ طے کر رکھا ہے کہ اس کی کوئی سرحد نہیں ہے۔ اسے پرواز کے لیے کھلی فضا چاہیے۔ ریاست کا بند ماحول اس کے لیے ساز گار نہیں۔ سرمائے کی اسی نفسیات نے گلوبلائزیشن اور لبرل ازم کے تصور کو جنم دیا۔ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ تاریخ کا پہیہ اب الٹا چلنے لگے۔
آج معیشت کے حاکم غیر ریاستی عناصر ہیں۔ انہوں نے پہلے ریاست کو کمزور کیا۔ اوپن مارکیٹ اکانومی کا تصور دیا اور سرمائے کے لیے یہ حق تسلیم کیا کہ وہ اپنا راستہ خود متعین کرے۔ سرمایہ دار کم لاگت اور زیادہ منافع کی بنیاد پر کاروبار کو آگے بڑھاتا ہے۔ اس سوچ کے تحت امریکی سرمایہ دار نے اپنی کمپنیاں، امریکہ سے چین اور دوسرے ترقی پذیر ممالک میں منتقل کیں۔ دوسری طرف تیسری دنیا کے لوگ اچھی تعلیم اور روزگار کی تلاش میں امریکہ جیسے ترقی یافتہ معاشروں تک پہنچے۔ انہوں نے اپنی محنت اور صلاحیت سے جگہ بنائی۔ سرمایہ دار نے ان کی مدد سے اپنے سرمائے کو بڑھایا۔ ساتھ ہی ترقی پذیر ممالک کی افرادی قوت کو،کم معاوضے پر استعمال کیا، جیسے بھارت میں ایک 'سلیکان ویلی‘ وجود میں آ گئی۔ عالمگیریت کا معاملہ یک طرفہ نہیں ہو سکتا۔ ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں ایک باہمی عمل جاری ہے۔ اسے اب روکا نہیں کیا جا سکتا۔
یہی وہ سبب ہے جس نے گوگل اور ایپل جیسی کمپنیوں کو ٹرمپ کے مدِ مقابل لا کھڑا کیا ہے۔ ٹرمپ کو یہ اندازہ نہیں کہ غیر ملکیوں نے امریکہ کی علمی و سائنسی ترقی میں کیا کردار ادا کیا ہے۔ اس سے یہ مفروضہ (Myth) بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے کہ امریکہ میں یہودی لابی بہت موثر ہے۔ مسئلہ یہودی یا غیر یہودی کا نہیں، سرمائے کا ہے۔ سرمائے کی باگ ڈور یہودیوں کے ہاتھ میں تھی تو وہ اسے اپنے مفاد کے لیے استعمال کر سکتے تھے۔ اب ان کی اجارہ داری اس طرح باقی نہیں رہی کہ افرادی قوت کا منبع یہودی نہیں، بھارت جیسے ممالک ہیں۔ گوگل اب یہودی یا امریکی شناخت کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہ عالمگیر شناخت رکھتا ہے، اس لیے کسی قومی ریاست کا پابند نہیں ہے۔
میں جب ان واقعات پر غور کرتا اور پھر نظری و فکری مباحث پر نظر ڈالتا ہوں تو ذہن میں ایک اہم سوال اٹھتا ہے: یہ افکار ہیں جو کسی عہد کی صورت گری کرتے ہیں یا تاریخ کا جبر اور فطری اور قدرتی عوامل ہیں جو سماج کے دھارے کا رخ متعین کرتے ہیں؟ کیا دانشور اور فلسفی ارتقا کے جاری عمل کو سمجھتا ہے اور پھر اس کی بنیاد پر واقعات میں مماثلت تلاش کرکے اسے ایک نظامِ فکر (Discourse) میں بدلتا ہے؟ اگر یہ درست ہے تو ایک سماجی عالم (Social Scientist) کا کردار، فطری طور پر طبعی علوم کے عالم ( سائنس دان) سے مختلف نہیں۔ دونوں دراصل تخلیق کے بجائے، 'دریافت‘ کا کام کرتے ہیں۔ طبعی علوم کا ماہر فطرت کے قوانین دریافت کرتا ہے جس کی بنیاد پر تحقیق کا عمل آگے بڑھتا ہے، جیسے نیوٹن نے کچھ قوانین دریافت کیے اور یوں ان کی بنیاد پر تسخیر کائنات کادروازہ کھل گیا۔ سماجی علوم کا ماہر بھی یہی کرتا ہے۔ وہ سماجی ارتقا اور تشکیل کے عمل کو سمجھتا اور ان قوانین کو دریافت کرتا ہے جو اس کے نزدیک سماجی ڈھانچے کی تشکیل اور ارتقا پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ پھر اسے کسی نظامِ فکر (Discourse) کی صورت میں بیان کر دیتا ہے۔ اس عمل کی نوعیت بھی ایک تھیوری کی ہے جو غلط ہو سکتی ہے اور درست بھی۔ یہ انسانی تجربہ اور عقل ہے جو اس کی عدم اور عدمِ صحت کا فیصلہ سناتا ہے۔
اس عمل سے انبیا مستثنیٰ ہیں۔ وہ دعویٰ کی بنیاد پر اپنا مقدمہ پیش کرتے ہیں نہ کہ کسی تجزیہ یا تھیوری کی اساس پر۔ اس حوالے سے ایک اور بات بھی پیش ِنظر رکھنی چاہیے۔ مذہب بالعموم ان معاملات کے بارے میں کوئی رائے نہیں دیتا جن کا تعلق سماجی ارتقا سے ہے۔ یہ اس کا اصل موضوع نہیں۔ جیسے ریاست قومی ہونی چاہیے یا عالمگیر؟ اس کا موضوع یہ ہے کہ فرد ہو یا اجتماع ، وہ جس سماجی پس منظر میں زندہ ہیں،انہیں اپنے خلاقی وجود کی حفاظت کرنی اور خدا کا بندہ بن کر رہنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پیش نظر آخرت کی زندگی ہے نہ کہ دنیا کا سود و زیاں۔ لوگ جب مذہب کی بنیاد پر 'نظام‘ پیش کرتے ہیں تو دراصل مذہب کو ایک ایسے دائرے میں لے آتے ہیں جو اس کا موضوع نہیں۔ یوں اسے ایک ایسی بات کے دفاع کی ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے جس کا وہ دعوے دار ہی نہیں۔
تبدیلی ایک سماجی عمل ہے۔ اس کی تفہیم ایک ماہرِ سماجیات کا کام ہے۔ مذہب کا ایک عالم یہ بتا سکتا ہے کہ کہاں انسان نے اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کو نظر انداز کیا اور اس کی وجہ سے اسے نقصان اٹھانا پڑا۔ مثال کے طور پر سرمائے کا حصول فی نفسہ کوئی قابلِ مذمت فعل نہیں ہے۔ انسان کو صرف یہ خیال رکھنا ہے کہ سرمایہ کسی کے استحصال کی بنیاد پر یا کسی کا حق چھین کر جمع نہ کیا جائے۔ اس کے ساتھ اسے اپنی سماجی ذمہ داری نبھانی ہے۔ پھر یہ کہ معاشی عمل آزاد ہونا چاہیے جس میں سب کے لیے مساوی مواقع مو جود ہوں۔ یوں معاشی حکمتِ عملی ایک ریاست کی سطح پر طے ہو یا عالمگیر سطح پر، اس اصول کو بہر حال پیش نظر رکھا جا ئے گا۔
امریکہ میں در اصل وہ عمل تیزی کے ساتھ شروع ہو گیا ہے جو عالمگیریت کا ناگزیر نتیجہ تھا۔ لازم تھا کہ ایک سطح پر پہنچ کر سرمایہ ریاست کے مفاد سے ٹکرائے۔ یہ بات سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ریاست کیوں وجود میں آئی۔ یہ انسانی سماج کو فساد سے بچانے کے لیے قائم ہوئی تاکہ کوئی فرد یا گروہ اتنا منہ زور نہ ہو جائے کہ دوسروںکے حقوق پامال کرنے لگے۔ سرمایہ منہ زور ہو چکا۔ عالمگیرت اس کی ناگزیر ضرورت ہے۔ اب یہ کسی ایک ریاست کے شہریوں کے مفادات کا پابند نہیں ہے۔ ٹرمپ یہ چاہتے ہیں کہ امریکی سرمایہ امریکہ میں لگے اور امریکی شہری مستفید ہوں۔ سرمایہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کے بڑھوتی تارکینِ وطن کی مرہونِ منت ہے یا چین جیسے ممالک کی، جہاں کم اجرت پر مزدور میسر ہیں۔
فتح ریاست کی ہوگی یا سرمائے کی؟ اس کا فیصلہ اب ہونا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ریاست فرد کا تحفظ کرے گی یا سرمائے کا؟ سرمایہ اب ایک عالمگیرسیاسی نظم چاہتا ہے لیکن اپنی شرائط پر۔ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بعد از قومی ریاست (Post Nation State)کے دور میں داخل ہو چکی۔ عالمگیر نظم، کیا انسان کے مفادات کا تحفظ کر سکے گا؟ یہ آج کا اہم سوال ہے۔ امریکہ میں جاری کشمکش شاید کسی حد تک اس سوال کا جواب فراہم کر سکے۔