طلبا تنظیموں کی بحالی ایک بار پھر موضوع بحث ہے۔ چند باتیں مجھے بھی کہنی ہیں۔
تعلیمی ادارہ کیوں قائم ہو تا ہے؟ ظاہر ہے کہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت کے لیے۔ یہ اِس کے وظائف میں شامل ہے کہ وہ عمر کی نسبت سے طالب علم کو پڑھائے لکھائے اور اس کے ساتھ اسے عملی زندگی کے لیے تربیت دے۔ ایک کامیاب تعلیم کا حاصل یہ ہے کہ ایک نوجوان جب اس سے آراستہ ہو کر عملی زندگی میں قدم رکھے تو جہاں اپنی تہذیب وترقی کا اہتمام کر سکے وہاں معاشرے کے لیے بھی باعثِ خیر ہو۔ ایک تعلیمی ادارے کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک طالب علم میں تین خصوصیات پیدا کرے: علم، شعورِِ حیات اور احساسِ ذمہ داری۔
اس مقصدکے لیے ایک مثالی تعلیمی ادارہ وہی ہو سکتا ہے جہاں ایک طالب علم شب و روز زیرِ تربیت رہے۔ اس کے لیے وہی تعلیمی ادارہ موزوں ہے جو 'بورڈنگ سکول‘ ہو ۔ مسلم معاشرے کی تعلیمی روایت یہی ہے۔ ہمارے مدارس در اصل اسی روایت کو لے کر آگے بڑھے ہیں۔ شاید ہی کوئی دینی مدرسہ ایسا ہو جو محض چند گھنٹوں کی تعلیم دیتا ہو۔ یہی تصور کیڈٹ کالجز میں بھی رائج ہے۔ مسیحی مشنری اداروں میں بھی ایسا ہی تھا۔ اب بوجوہ تعلیمی ادارے کی نوعیت تبدیل ہو چکی۔ وہ چند گھنٹے کی تعلیم کے لیے ہے۔ ہاسٹل کی سہولت مو جود ہے لیکن اس کی بنیادی وجہ تربیت نہیں، طالب علموں کی رہائشی ضرورت ہے۔ یہ ان طلبا کے لیے ہے جو دور دراز سے آتے ہیں اور ان کے پاس رہنے کو جگہ نہیں۔
سوال یہ ہے کہ ان چند گھنٹوں میں یہ کیسے ممکن ہے کہ طلبا و طالبات میں تینوں خصوصیات پیدا کی جاسکیں؟ اس کا سادہ جواب یہی ہے کہ وقت کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ نصاب کی تعلیم کے ساتھ ایسی سرگرمیوں کا اہتمام ہو جس میں نوجوانوں کی تربیت ہو۔ ان میں مو جود صلاحیتوں کو جلا ملے اور ان پر زندگی کے حقائق منکشف ہوں۔ ماضی میں اس کے لیے بزمِ ِادب ہوتی تھی اور یونین۔ عام طور پر اس کا اہتمام ادارے کی انتظامیہ کرتی تھی۔ پھر یہ ہوا کہ طلبا اپنے طور پر طلبا تنظیموں کی صورت میں منظم ہونے لگے۔ اس سے وہ آسیب ان اداروں میں داخل ہوا جس نے ان کی قلبِ ماہیت کردی۔ اس کے بعد ایک تعلیمی ادارے میں سب کچھ تھا، سوائے تعلیم کے۔ تربیت تھی مگر کسی اور کام کی۔
ہر طلبا تنظیم کے پیچھے کوئی فکری تحریک تھی یا سیاسی جماعت۔ تدریجاً یہ تنظیمیں ان تحریکوں یا جماعتوں کے ذیلی ادارے بن گئے، جن کا اصل کام ان کے ایجنڈے کو آگے بڑھانا تھا۔ اب طلبا تنظیمیں سیاسی جماعتوں کی گرفت میں تھیں اور تعلیمی ادارے ان تنظیموں کی گرفت میں۔ اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ یہ تنظیمیں سماج کے فکری و سیاسی اختلافات کو تعلیمی اداروں میں لے آئیں۔ فرقہ وارانہ جماعتوں نے سوچا کہ وہ کیوں پیچھے رہیں۔ پھر ان کی طلبا تنظیمیں بھی قائم ہوگئیں۔ یوں یہ تعلیمی ادارے سیاست اور فرقہ واریت کے گڑھ بن گئے۔ اب یہاں تعلیم نہیں، سیاست و فرقہ پرستی کا غلبہ تھا۔ یہاں سے اب لاشیں اٹھنے لگیں۔
میں اس کے لیے محکم دلائل رکھتا ہوں کہ ان تنظیموں نے تعلیم کو برباد کیا اور ان کے وجود سے کوئی خیر برآمد نہیں ہو سکا۔ تعلیم اور نئی نسل کو بچا نے کے لیے ناگزیر ہے کہ ان تنظیموں پر مکمل پابندی لگا دی جائے۔کسی سیاسی جماعت کو یہ حق نہ دیا جائے کہ وہ اپنے جلسوں کی رونق کے لیے قوم کے مستقبل سے کھیلے۔ ان تنظیموں کی بدولت، ان اداروں میں تعلیم نہیں، سیاست کا غلبہ ہے۔کوئی ایک دلیل ایسی نہیں جو ان تنظیموں کے حق میں پیش کی جا سکے۔ جو دلائل پیش کیے جاتے ہیں ان کی حیثیت تارِ عنکبوت سے زیادہ نہیں۔
مثال کے طور پر یہ کہا جاتا کہ ان تنظیموں نے فلاں فلاں سیاسی راہنما دیے۔ میں ان کے پورے احترام کے ساتھ یہ سوال کرتا ہوں کہ یہ حضرات اگر نہ ہوتے تو ہماری سیاست میں کون سا خلا واقع ہو جاتا؟ میں یہ بتا سکتا ہوں کہ اگر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور نواب زادہ نصراللہ خان نہ ہوتے تو ہماری سیاست شائستگی سے محروم رہتی۔ ذوالفقار علی بھٹو نہ ہوتے تو عوامی قوت امرِ واقعہ نہ بنتی۔ لیکن میں کسی ایسے 'سابق طالب علم راہنما‘ کو نہیں جانتا جو ہمارے سیاست کا حصہ نہ ہوتے تو پاکستان کسی بڑے خیر سے محروم رہتا۔ میں البتہ اس کے برعکس مثالیں دے سکتا ہوں۔ میں نے اپنی طالب علمانہ زندگی میں طلبہ سیاست میں بھرپور حصہ لیا ہے۔ آج علیٰ وجہ البصیرت یہ عرض کرتا ہوں کہ اس کا حاصل ایک احساسِ زیاں کے سوا کچھ نہیں۔
سوال یہ ہے کہ ان تنظیموں کے بغیر،کیا نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت کی کوئی صورت ہو سکتی ہے؟ میرا جواب اثبات میں ہے۔ اس کے لیے میری ایک تجویز ہے جس کے چند نکات ہیں:
1۔ طلبا یونینز کو چندشرائط کے ساتھ فوراً بحال ہوجانا چاہیے۔ یہ کام ادارے کی انتظامیہ کے اہتمام میں ہو۔ سیاسی جماعتیں مکمل لاتعلق ہوں۔ انتخابات کے لیے ایک ضابطۂ اخلاق ہو۔ طلبا کی تمام غیر نصابی سرگرمیوں کی تنظیم، یونین کا کام ہو۔
2۔ اس بات کا پورا لحاظ رکھا جائے کہ تعلیمی عمل کسی صورت میں متاثر نہ ہو۔
3۔ طلبا پر ملکی سیاست میں حصہ لینے پر مکمل پابندی ہو۔ تاہم ان کو یہ حق ہو کہ وہ معاصر ملکی و عالمی سیاست سے واقف ہوں۔ اس کے لیے سیمینارز اور لیکچرز وغیرہ کا اہتمام کیا جائے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین کو بھی بلا امتیاز لیکچرز کے لیے بلایا جائے۔ اس کے آداب مقرر ہوں، جیسے راہنما کسی جلوس کے ساتھ نہیں آئے گا اور اس کے ساتھ چار سے زیادہ افراد نہیں ہوں گے۔
4۔ تعلیمی ادارے میں کسی ہڑتال یا جلوس وغیرہ کی اجازت نہ ہو۔ تاہم طلبا کو اگر انتظامیہ سے کوئی شکایت ہو تو اس کو دور کرنے کی کوئی صورت تجویز کی جا سکتی ہے، جیسے عدالتوں میں خصوصی بنچ بنائے جا سکتے ہیں جو مقررہ دنوں میں فیصلہ دینے کے پابند ہوں۔ اس معاملے میں ترقی یافتہ ممالک سے بھی سیکھا جا سکتا ہے۔
5۔ طلبا کے کسی گروہ کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی مرضی کا کلچر، مذہب یا نظریے کی بنیاد پر دوسروں پر مسلط کرے۔
6۔ انتظامیہ کو اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ ادارے کی چاردیواری میں کوئی ایسا کام نہ ہو جو نئی نسل کے اخلاق کے لیے مضر ہو۔
7۔ اس باب میں بننے والے قوانین کا اطلاق، سرکاری اور نجی، دونوں طرح کے تعلیمی اداروں پر یکساں طور پر ہو۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ سرکاری اداروں میں جہاں غریب اور عام شہری کے بچے پڑھتے ہیں، اسے سیاسی جماعتوں کی چراہ گاہ بنا دیا جائے اور ان اداروں کو اس سے محفوظ رکھا جائے جہاں خواص کے بچے پڑھتے ہیں۔ اگر یہ خیر ہے تو سب تک پہنچنا چاہیے اور اگر شر ہے تو سب کو اس سے بچنا چاہیے۔
اگر تعلیمی ادارے نئی نسل کی تعلیم و تربیت کے لیے ہیں تو لازم ہے کہ ان سے متعلقہ قوانین میں تعلیم کو ترجیح ہو۔ دیگر فوائد ضمنی ہیں۔ تعلیم تقاضا کرے تو ان فوائدکو قربان کیا جا سکتا ہے۔ تعلیم کا مقصد سیاسی راہنما پیدا کرنا نہیں ہے۔ سیاسی راہنما ایک فطری مطالبے کے تحت پیدا ہوتے ہیں۔
پاکستان کا مستقبل تعلیم سے جڑا ہوا ہے۔ تعلیم کو ہر آزمائش سے بچانا ہمارا قومی فریضہ ہونا چاہیے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ طلبا تنظیموں سے بڑھ کر، تعلیم کے لیے کوئی آزمائش نہیں ہے۔