ہم پہ ایک اور بڑا حادثہ گزر گیا۔ اس وجہ سے نہیں کہ یہ واقعہ لاہور میں ہوا۔ بے گناہ وزیرستان میں ہدف بنیں یا لاہور میں، انسانی جان کی قیمت ایک جیسی ہے۔ پولیس کے افسران اور جوان بھی اس حادثے کی نذر ہوئے۔ امکانات کی ایک دنیا ہمارے دروازے پر دستک دے رہی تھی۔ اس سانحے نے ان امکانات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ افسوس کے ان لمحوں میں ہوش کا دامن تھام کر چند باتیں ہیں جو ہمیں سمجھنا ہوں گی۔
1۔ پہلی بات یہ کہ دہشت گردی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اس دعوے میں اب زیادہ جان نہیں کہ ''دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑ دیا گیا ہے‘‘ کراچی سے لاہور تک، انسانی جان و مال بدستور خطرات کی زد میں ہیں۔ ریاست ابھی اس کو ختم نہیں کر سکی۔ کامیابیوں کا تناسب بلاشبہ بہت ہے لیکن یہ واقعات بتا رہے ہیں کہ ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا کرنا چاہیے؟ اس میں ایک سے زیادہ آرا ہو سکتی ہیں۔ لازم ہے کہ 2014ء کی طرح ایک بار پھر قومی سطح پر اتفاقِ رائے وجود میں آئے اور اس نوعیت کے واقعات کو روکنے کی کوشش کی جائے۔
2۔ ان واقعات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے مراکز صرف فاٹا میں نہیں تھے۔ یہ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی قائم ہیں۔ فاٹا کی تطہیر ہو چکی لیکن واقعات اب بھی جاری ہیں۔ افغانستان میں ان مجرموں کو ایک مرکز مل چکا لیکن افغانستان کی سرحد لاہور سے نہیں ملتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ درمیان میں کوئی نیٹ ورک موجود ہے جو سہولت کار ہے۔ جو پناہ دیتا ہے اور اس کے ساتھ دھماکوں کے لیے مواد بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ سہولت کار کون ہیں اور کیسے متحرک ہیں؟ ریاست تا دمِ ایں ان تک نہیں پہنچ سکی۔ ریاست کو سوچنا ہے کہ یہ سلسلہ اگر افغانستان سے شروع ہوتا ہے تو لاہور اور کراچی تک کیسے پہنچتا ہے۔
3۔ اس حادثے کا تعلق پی ایس ایل کے ساتھ بھی ہے۔ ساری دنیا میں یہ خبر پھیل چکی کہ پاکستان اللہ کے فضل سے اپنا پاؤں پر کھڑا ہو رہا ہے۔ دہشت گردی کے اثرات ختم ہو رہے ہیں۔ سماجی اور معاشی سطح پر جاری سرگرمیوں میں تیزی آ رہی ہے۔ ساری دنیا اس کا اعتراف کر رہی ہے اور یقیناً یہ خبر پاکستان کے دشمنوں کے لیے خوش گوار نہیں۔ یہ بات قابلِ فہم ہے کہ وہ اس امن اور تاثر کو برباد کرنا چاہیں گے۔ ہمیں بطور قوم اس چیلنج کا سامنا کرنا ہو گا۔ آج لازم ہے کہ دسمبر 2014ء میں قوم نے جس وحدتِ فکر کا مظاہرہ کیا تھا، ایک بار پھر اس کا اعادہ ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ بلوچستان دہشت گردی کا اب بھی سب سے زیادہ ہدف ہے۔ سب سے زیادہ واقعات وہیں ہی ہو رہے ہیں۔ ضرورت ہے کہ سیاسی قیادت ایک بار پھر یک زبان ہو اور اسے ایک قومی چیلنج سمجھتے ہوئے اس کے خلاف کھڑی ہو۔
4۔ احتجاج کا حق مسلمہ ہے اور ایک جمہوری معاشرے میں کسی کو اس سے روکا نہیں جا سکتا؛ تاہم لازم ہے کہ اب اس کے آداب طے ہو جائیں۔ دوا فروش سراپا احتجاج تھے جب یہ واقعہ ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اجتماعات بدستور خطرات میں گھرے ہوئے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو بھی ضروری ہے کہ احتجاج کے اس کلچر کو ختم کیا جائے‘ جس نے ہمارے معاشرے کو ہمہ وقت ایک عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ احتجاجی کلچر نے امن و امان کے علاوہ بھی بہت سے مسائل پیدا کر رکھے ہیں۔ ہمیں اس کی بھی اصلاح کرنا ہے۔
5۔ اس حادثے میں پولیس کے بہت سے لوگ مارے گئے۔ یہ حادثہ یاد دلاتا ہے کہ پولیس کو اس معاشرے کی اخلاقی مدد کی ضرورت ہے۔ ان سے ہمیں شکایتیں ہیں اور بہت‘ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی امرِ واقعہ ہے کہ یہ لوگ ہمارے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے ہیں۔ جب سے دشمن نے ہمیں اندر سے نقصان پہنچانے کی حکمتِ عملی اپنائی ہے، پولیس نے وطن کے دفاع کے لیے کسی دوسرے ریاستی ادارے سے کم قربانیاں نہیں دیں۔ ایسے حادثات کے بعد ضروری ہے کہ عوامی سطح پر پولیس کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کیا جائے۔ اس ملک میں سول سوسائٹی کی سطح پر ایک تحریک اٹھنی چاہیے‘{ جس میں پولیس عوام اتحاد کی بات ہو۔ پولیس کو یہ پیغام ملنا چاہیے کہ قوم اس کی قربانیوں کو قدر کی نظر سے دیکھتی ہے۔
6۔ ریاست اور عوام دونوں کو یہ سوچنا ہو گا کہ ملک میں دہشت گردی کا یہ کچر کیسے پھیلا۔ ریاست کا کام ہے کہ وہ قومی سلامتی کے اس بیانیے پر ایک نظر پھر ڈالے جس نے ہماری دشمنی کا دائرہ بھارت سے افغانستان تک پھیلا دیا ہے۔ حکومتی اور ریاستی اداروں کی طرف سے یہ کہا جانا کافی نہیں کہ آخری دہشت گرد تک جنگ جاری رہے گی۔ ریاست کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اس وقت تک ہم کتنے شہریوں کی قربانی دے چکے ہوں گے۔ ضرورت ہے کہ قومی سلامتی کا بیانیہ پارلیمنٹ میں زیرِ بحث آئے۔ یہ پاناما سے زیادہ سنجیدہ معاملہ ہے لیکن اہلِ سیاست کو اس کا کوئی خیال نہیں۔
7۔ اسی طرح عوامی سطح پر بھی وحدتِ فکر ناگزیر ہے۔ قوم میں جو نام نہاد نظریاتی تقسیم ہے، اس سے بالاتر ہو کر ہمیں اپنے مسائل کو حل کرنا ہو گا۔ مجھے اندازہ ہے کہ اس حادثے کے بعد بھی مذہبی اور لبرل یا شیعہ سنی کی تقسیم اپنا رنگ دکھائے گی۔ یہ بات ہمیں سمجھنا ہو گی کہ دہشت گردی کا ہدف سب پاکستانی ہیں۔ اس لیے سب کو مل کر اپنے اس مسئلے سے نمٹنا ہو گا۔
دہشت گردی مسلک کا مسئلہ ہے نہ سیاست کا۔ ہماری بدنصیبی ہو گی اگر ہم اس سے سیاسی یا مسلکی فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ انسانی جان کی حرمت بطور قدر جب تک مستحکم نہیں ہوتی، ہم اس طرح کے خطرات سے نمٹ نہیں سکتے۔ ہمیں ایسی اقدار پر قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہے۔ جس دن یہ کام ہم نے کر لیا، دہشت گردی کا فروغ مشکل ہو جائے گا۔ جان کی حرمت اسی وقت قائم ہو گی جب اس پر اتفاق کر لیں کہ کسی کی جان لینے کا حق صرف نظم اجتماعی کو ہے اور وہ بھی اس قانون اور آئین کی پابند ہے جو قوم کا متفقہ عمرانی معاہدہ ہے۔ جب ہم طے کر لیں گے کہ مذہب، ریاست یا کسی اور عنوان سے کسی کو کسی کی جان لینے کا حق نہیں تو ان دہشت گردوں کو کوئی سہولت کار نہیں مل سکے گا۔