سرمایہ آج بھی صورت گرِ حیات ہے۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ سرمایے کے خلاف اٹھنے والی آوازیں بھی اسی سرمایے کی مرہونِ منت ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کا کمال یہ ہے کہ اس نے اپنے ناقدین کو بھی اپنے آغوش میں لے رکھا ہے اوران کے نان نفقے کا اہتما م کر رہاہے۔چند مثالوں سے بات واضح ہوجائے گی۔
ان دنوں پاکستان سپر لیگ کا چرچا ہے۔سرمایے کی نفسیات یہ ہے کہ وہ مسلسل اضافہ چاہتا ہے۔وہ ایسے امکانات کی تلاش میں ہوتا ہے جو اس کی نشو و نما کا باعث ہوں۔کرکٹ بھی ایسا ہی ایک امکان ہے۔سرمایے نے مختلف طبقات کو جمع کیا،انہیں قائل کیا کہ کیسے اس لیگ کے ساتھ ان کے مفادات وابستہ ہیںاور یوں ان کواپنی تائید میں ایک صف میں لاکھڑا کیا۔کھلاڑیوں کو جنس ِ بازار بنایا۔ان پر سرمایہ کاری کی اور یوں اس عمل سے منافعے کووابستہ کردیا۔کھیل کے نام پر سفارت کاری کا تصوردے کر،اس میں حکومتوں کوشریک کیا ۔کر کٹ کنٹرول بورڈ کو بظاہر منتظم بنادیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ منتظم اعلیٰ وہ صاحب ہیں جو ایک دور میںسرمایہ داری کے بڑے ناقد اور بزعمِ خویش اشتراکیت کے علم بردار تھے۔صحافی اس کے ناقد ہوسکتے تھے۔سرمایے نے انہیں بھی اس عمل کا حصہ بنادیا۔ان دنوںجس اہم اور قابلِ ذکر صحافی کا ذکر کیجیے، معلوم ہوگا کہ وہ دبئی اور شارجہ میں ہے۔کوئی ایک ٹیم اس کو سپانسرکررہی ہے۔تنقید وہی کر رہے ہیں جنہیں بلا یا نہیں گیا۔سرمایہ دار کا کمال یہی ہے کہ وہ ناقدین کو کچھ دے دلاکر اپنے ساتھ شامل کر لیتا ہے۔یوں اس پر ہونے والی تنقید اپنے اخلاقی جواز سے محروم ہو جا تی ہے۔
ایک اور مثال دیکھیے! یہ تو سب کو معلوم ہے کہ دواساز کمپنیاں کس طرح ڈاکٹرزیا متعلقہ سرکاری اہل کاروں کورشوت دیتی ہیں۔اب وہ اہلِ صحافت کو بھی شریک کرتی ہیں۔وہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ افراد کو طرح طرح سے مائل کرتی ہیں کہ ان کے حق میں ٹی وی پروگرام ہوں اور کالم لکھے جائیں۔سرمایہ دارانہ اخلاقیات میں اسے قبولیتِ عامہ حاصل ہے۔اسے برا نہیں سمجھا جا تا۔اسے آپ ایک پیشہ ورانہ ڈیل بھی کہہ سکتے ہیں۔میڈیا کے لوگ جب یہ کہتے ہیں کہ صحافت ایک صنعت ہے تو بین السطور وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اہلِ صحافت کے معاملات کو بھی اسی سرمایہ دارانہ اخلاقیات کی بنیاد پر پرکھا جائے۔یہ بات خلافِ واقعہ نہیں ہے۔صحافی کے معاوضے کا تعین اب صحافی ایڈیٹر نہیں، مارکیٹنگ کا شعبہ کرتا ہے۔
این جی اوز کو دیکھ لیجیے۔یہ اصلاً اس طبقے کے تحفظ کے لیے وجود میں آئی ہیں جوسرمایہ دار کے ظلم کا شکار ہے۔ مثال کے طور پربہت سی غیر سرکاری تنظیمیں تعلیم کے لیے کام کر تی ہیں۔ان کا مشن یہ ہے کہ جو بچے تعلیم سے محروم ہیں،انہیں تعلیم دی جائے۔یہ بہت نیک مقصد ہے اور کسے اس میں موجود خیرسے انکار ہو سکتا ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ بچے تعلیم سے محروم کیوں ہیں؟عام آ دمی بھی جانتا ہے کہ تعلیم جب جنسِ بازار بنی تو عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوگئی۔اب جس سرمایہ دار نے بچوں کو تعلیم سے محروم کیا ہے،وہی اس تنظیم کو فنڈز بھی فراہم کر رہا ہے جو اس تعلیمی محرومی کے خلاف کام کر رہی ہے۔گویا سرمایہ دار اپنے ناقدین کے نان نفقے کا اہتما م کر رہا ہے۔
ایک اور مثال دیکھیے!میں آئے دن ایسے دانش وروں سے ملتا ہوں جو سرمایہ داری کے شدید مخالف ہیں۔اس پر تنقید کرتے ہیں،اس کی مذمت میں کتابیں لکھتے ہیں،اس کے خلاف دنیا بھر میں لیکچر دیتے ہیں۔تعارف پر معلوم ہوتا ہے کہ برسوں سے سرمایہ دارانہ نظام کے کسی مرکز، نیو یارک یا لندن میں رہ رہے ہیں۔وہاں کی کسی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔وہیں سے پڑھا بھی ہے۔بچے بھی وہیں پہ رہتے ہیں اور اسی نظام کی آسائشوں سے متمتع ہوتے ہیں۔پاکستان جیسے آبائی ملکوں میں لیکچر وغیرہ کے لیے آتے، غریبوں کے دکھ پر گیت گاتے،لیکچر دیتے اور چند دن بعد واپس لوٹ جاتے ہیں۔معلوم ہو تا ہے کہ اس دورے کے اخراجات بھی کسی ایسے ہی ادارے نے اٹھائے ہیں جس نے سرمایہ دارانہ نظام کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔میرا مشاہدہ یہ ہے کہ یہ اشتراکیت کے علم بردار ہوں یا اسلامی نظام کے،سب اس سرمایہ دارانہ نظام سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ان فوائد سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔ان کا علاج بھی سرمایہ دارانہ طبی اداروں میں ہوتا ہے اور ان کے بچے بھی وہیں پڑھتے ہیں۔ایسا کسی مجبوری کے سبب نہیں، آزادانہ مرضی سے ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایک عام آ دمی کیا کرے؟اس کے پاس ایک ہی راستہ ہے۔اگر سرمایہ نہیں توقدرت نے اسے کسی ذہنی صلاحیت سے نوازا ہو گا۔جسے اس نظام کا کچھ شعور ہے،اس کے پاس راستہ یہ ہے کہ وہ اس نظام پر یہ ثابت کر دے کہ اس کی صلاحیت اس کی سلامتی میں معاون ہوسکتی ہے۔وہ کسی سرمایہ دار فرد یا ادارے کو یہ باور کرادے کہ اسے موقع دیا جائے تو وہ اس کے منافع میں اضافہ کر سکتا ہے۔یوں سرمایہ دار ایک حد تک اسے اپنے منافع میں شریک کر لیتا ہے اور اس کے لیے زندگی آسودہ ہو جاتی ہے۔اسی فامولے پر عمل کرتے ہوئے،مڈل اور لوئر مڈل کلاس کا آدمی ایک بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہو جا تا ہے۔
یہ ضروری نہیںکہ سب دانستہ ایسا کر رہے ہوں۔بد دیانتی بھی لازم نہیں۔سرمایے کا یہ مقدمہ نیا نہیں ہے کہ انسان کا مقدر اس کے ہاتھ میں ہے۔اس کو اشترکیت نے چیلنج کیا اور یہ کہا کہ یہ محنت ہے جو اصل ہے۔ محنت نہ ہو تو سرمایہ ایک بے جان وجود ہے۔یہ مزدور کا پسینہ ہے جو سرمایے کی رگوں میں لہو بن کر دوڑتا اوراس کے لیے پیغام ِ حیات بنتا ہے۔سرمایے کواشتراکیت کی صورت میںایک سخت چیلنج کا سامنا ہوا۔اس نے مزدور کو نفع میں کسی حد تک شریک کرنے کا فیصلہ کیا تا کہ اس کے خلاف کوئی بغاوت نہ اٹھ سکے۔ اس نے دوسرا کام یہ کیا کہ معاشرے کی ذہانتوں کو خریدنے کا فیصلہ کیا۔اشتراکیت کو اگر کہیں مو قع ملا تووہ اپنے ہی تضادات کا شکار ہوگئی۔پرولتاریوں کو اقتدارملاتووہ بورژوائی طبقے میں تبدیل ہو گئے۔محروم اسی طرح محروم رہا۔میدان پھرسرمایے کے ہاتھ رہا۔
سرمایے کی اس فتح سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا یہ مقدمہ غلط نہیں کہ انسان کی سیاسی و معاشرتی تشکیل میں سرمایہ ہی فیصلہ کن کردار ادا کر تا ہے۔وہ خدا تو نہیں لیکن ستار العیوب بھی ہے اور قاضی الحاجات بھی۔سوال یہ ہے کہ کیا سرمایے کی نفسیاتی ساخت کو بدلا جا سکتا ہے؟اگر یہ ممکن ہے تو کیسے؟تاریخ کا جواب یہ ہے کہ سرمایہ اگر کسی تصورِ اخلاق کاپابند ہو جائے تو یہ ممکن ہے۔اگر یہ' ہیومن ازم ‘کو قبول کر لے تو بھی اس کے مثبت اثرات ممکن ہیں۔طب نے جس طرح انسانی دکھوں کا علاج تلاش کیا ہے،یہ اس کی ایک مثال ہے۔تاہم اس کے بہت سے شواہد موجودہیں کہ یہ ایک ادھورا اخلاقی تصور ہے جوسرمایے کے ارتکاز کو روک سکا ہے اور نہ ہی اسے انسانی فلاح کے تابع کر سکا۔یہ صرف پیغمبروں کا دیا ہوا نظام ِ اخلاق ہے جو سرمایے کو ابنِ آدم کا خادم بنا سکتا ہے۔پیغمبر ہی وہ شخصیت پیدا کرتے ہیں جو انسانوں کے بجائے خدا کے ساتھ تجارت کو ترجیح دیتی ہے۔پھر وہ گندم کو دگنی قیمت پر فروخت کرنے کے بجائے غریبوں میں بانٹ دیتی ہے کہ خدا کے ہاں اس کا اجر دگنا نہیں، بے حساب ہے۔