'ینگ ڈاکٹرز ‘ناراض ہیں۔ بعض کا گمان ہے کہ ان کے 'خلاف‘ لکھا گیا کالم لفافہ صحافت کا ایک مظہر ہے۔گمان کا جواب دلیل سے نہیں دیا جا سکتا،اس لیے گمان سے آگے بڑھتے ہوئے، اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔
میرا مقدمہ یہ ہے کہ دو پیشے ایسے ہیں جن کو ہڑتال کاحق نہیں دیا جا سکتا۔ ایک ڈاکٹر اور دوسرا استاد۔ یہ دونوں پیشے مشنری ہیں۔ صرف مسلم ہی نہیں، مسیحی روایت میں بھی ایسا ہی ہے۔ جو کوئی اس کوچے کا رخ کرے، اس پر واضح رہنا چاہیے کہ یہ اپنی ذات کو بھول جانے کا نام ہے۔ صحت اور تعلیم کا تعلق قوموں اور افراد کی زندگی سے ہے۔ یہ قوم کی مسیحائی ہے۔ مسیحا پیشہ ور نہیں ہو سکتا۔ پیغمبر خود کو معلم کہتے ہیں۔ وہ اپنی قوم میں اعلان کر تے ہیں کہ ہم جواباً تم سے کسی اجر کا مطالبہ نہیں کرتے۔ وہ سیدنا مسیحؑ کی طرح جان دے دیتے ہیں مگر بدلہ نہیں لیتے۔ یہی معاملہ ڈاکٹر کا بھی ہے۔ مریض ترش رو ہو سکتے ہیں۔ ان کے تیماردار بد تمیزی کر سکتے ہیں، ڈاکٹر مگر ہر چیز کو نظر انداز کرتا اور مریض کی جان بچاتا ہے۔ جو یہ حوصلہ نہیں رکھتا، اسے اس طرف کا رخ نہیں کرنا چاہیے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کتابی باتیں ہیں۔کیا ڈاکٹر انسان نہیں؟ کیا اس کی ضروریات نہیں؟ کیا اسے اپنی محنت کا صلہ نہیں ملنا چاہیے؟ کیا اسے یہ حق نہیں کہ وہ اپنا مستقبل سنوارے؟ ان سب سوالات کا جواب اثبات میں ہے۔ ڈاکٹر کے یہ سب حقوق ثابت ہیں مگر ان کو پورا کسی اور طریقے سے کیا جانا چاہیے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹر یا استاد بننے کا مطلب اپنی مرضی سے ایثار اور بے غرضی کا انتخاب ہے۔ جب آپ یہ راستہ چنتے ہیں تو اس کے بعد اپنی زندگی کو اس تاجر پر قیاس نہیں کرنا چاہیے جس کا کا م ہی پیسہ کمانا ہے۔ پھر اس اسلوبِ حیات کی خواہش نہیں کرنی چاہیے جو امرا اختیار کرتے ہیں۔ مسلم تاریخ یہی ہے۔ جنہوں نے ان شعبوں کا انتخاب کیا، انہوں نے درویشی کو شعار کیا۔
تاہم ان دونوں کے باب میں ایک ذمہ داری وہ ہے جو سماج یا ریاست کو اٹھانی ہے۔ معاشرے کا کام یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو ممتاز سمجھے۔ انہیں قدر کی نظر سے دیکھے۔ ان کااحترام کرے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں کے لیے جیتے ہیں۔ ریاست کا کام یہ ہے کہ انہیں انسانی حاجتوں سے بے نیاز کرے۔ ان کی ضروریات کو پورا کرے تاکہ وہ یکسو ہو کر اپنے فرائض سر انجام دے سکیں۔ وہ ان کے لیے مناسب معاوضے کا تعین کرے اور اس کے اسباب پیدا کرے کہ وہ اپنے وسائل میں اضافہ کر سکیں۔ احترام کا معاملہ یہ ہے کہ اس کا تعلق کسی جبر سے نہیں۔ جب کوئی آدمی مسیحائی کرتا ہے تو اس کے لیے احترام کی ایک لہر پورے معاشرے میں پھیل جاتی ہے۔ پھر اس کا راستہ نہیں روکا جا سکتا۔ میں نے وہ معاشرہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جس میں استاد کا احترام سب سے زیادہ تھا۔ میرے پچپن کی یادوں میں وہ چہرے محفوظ ہیں جو لوگوں کو بلا معاوضہ تعلیم دیتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ لوگ پھر کس طرح ان کا احترام کرتے ہیں۔ وہ جس گلی سے گزر جائیں، بستی کا بڑے سے بڑا آ دمی ان کے احترام میں کھڑا ہو جاتا تھا۔ اگر کوٹھی کار کے علاوہ، زندگی گزارنے کے لیے عزت کی بھی کوئی اہمیت ہے تو پھر یہ وہ اجر ہے جو صرف استاد، طبیب یا اس آ دمی کے لیے خاص ہے جو ایثار اور بے غرضی کا راستہ چنتا ہے۔
دورِ جدید میں سماج کی ساخت تبدیل ہو گئی ہے۔ اس میں یہ سب امور نظر ثانی کے محتاج ہیں۔ اب ریاست کو تین کام کرنے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ایسے لوگوں کے لیے طب کی تعلیم کا اہتمام کرے جو اپنی مرضی سے مسیحائی، دوسرے لفظوں میں دوسروں کے لیے جینے کا عزم کر رہے ہیں۔ دوسرا یہ کہ تعلیم کے بعدان کے لیے بنیادی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کا سامان کرے۔ تیسرا یہ کہ اگر ان کو کوئی شکایت ہو تو اس کے ازالے کے لیے ایک سہل طریقہ تجویز کرے۔ مثال کے طور پر میری تجویز ہے کہ اساتذہ اور ڈاکٹرز کے لیے خصوصی عدالتیں ہونی چاہئیں۔ یہ عدالتیں پابند ہوں کہ ایک خاص وقت میں ان کی شکایات کا ازالہ کریں۔ اس کے بدلے میں اساتذہ یا ڈاکٹرز کوہڑتال یا احتجاج کا حق نہیں دینا چاہیے۔
ریاست یہ سب کام اپنے وسائل کے تحت ہی کر سکتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ ایسا کر رہی ہے؟ اگر نہیں تو سیاسی جماعتوں سے لے کر میڈیا تک، سب کو اس کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ڈاکٹرز میں دو طبقات وجود میں آ چکے ہیں۔ ایک سینئر ڈاکٹرز اور دوسرے جونیئر یا ینگ۔ سینئر ڈاکٹر کام کر نے پر آمادہ نہیں۔ ان کی تنخواہیں زیادہ ہیں اور ان کے پاس انتظامی عہدے ہیں۔ وہ اس کا نا جائز فائدہ اٹھاتے ہیں، سرکاری ہسپتالوں کو وقت نہیں دیتے اور زیادہ وقت اپنے نجی ہسپتالوں اور کلینکس میں گزارتے ہیں۔ دیہات کے ہسپتال ویران ہیں اور یہ وہاں کا رخ نہیں کرتے۔ جونیئرز کے احوال میں پہلے ہی لکھ چکا۔
پنجاب میں صوبائی حکومت کا معاملہ یہ ہے کہ شہباز شریف صاحب نے ہر کام اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے۔ شریف خاندان کا اسلوبِ حکومت کی خاص بات ارتکازِ اقتدار ہے۔ اکثر انتظامی عہدوں پر تعیناتی سیاسی بنیادوں پر ہو رہی ہے۔ ایک ہسپتال کے ایم ایس سے لے کر میڈیکل کالج کے پرنسپل تک، سب کا انتخاب بھی اسی طرح ہوتا ہے۔ اس سے شکایات پیدا ہوتی ہیں۔ یہ شکایتیں جب دور نہیں ہوتیں تو اضطراب جنم لیتا ہے۔ اس کا نتیجہ وہ واقعات ہیں جن میںعام شہری کی زندگی داؤ پر لگ جاتی ہے۔
بنیادی طبی سہولتوں کی فراہمی بھی ایک مسئلہ ہے۔ لاہور جیسے شہر کے بارے میں آئے دن خبریں آتی ہیں کہ سرکاری ہسپتالوں میں کس طرح مطلوبہ مشینیں میسر نہیں۔ اس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ دیہات میں کیا حال ہوگا (ویسے راولپنڈی میں میرا مشاہدہ مختلف ہے۔ یہاں کے سرکاری ہسپتال بہت بہتر ہیں۔ چند روز پہلے بینظیر ہسپتال میں بچوں کے شعبے کو جدید آلات اور سہولتوں سے آراستہ کیا گیا ہے۔) یہ سوال اہم ہے کہ پنجاب بھر میں صحت اور تعلیم پر کتنے وسائل خرچ کیے گئے اور میٹروز پر کتنے؟ میٹرو کی ضرورت مسلمہ ہے لیکن تعلیم اور صحت کے شعبے اس توجہ کے مستحق کیوں نہیں؟
یہ سب پہلو قابلِ توجہ ہیں اور ان پر بھی آواز اٹھانی چاہیے۔ اس کے باوجود میرا موقف یہ ہے کہ اگر اساتذہ اور ڈاکٹرزکے ساتھ اس سے بڑھ کر بھی برا سلوک ہو تو بھی ان کی ہڑتال کا کوئی اخلاقی جواز موجود نہیں۔ ریاست اور سماج کی کوتاہیاں اپنی جگہ مگر اِس سے ڈاکٹرز کا یہ حق ثابت نہیں ہوتا کہ وہ عام شہریوں کے جانوں سے کھیلیں۔ اگر انہوں نے بھی اپنے مفاد کے تناظر میں فیصلے کرنے ہیں تو انہیں کسی دوسرے شعبے کا انتخاب کرنا چاہیے۔