دہشت گرد کیا چاہتے ہیں؟ یہی کہ ریاستی ادارے معطل ہو جائیں۔ معمول کی زندگی رک جائے۔ معاشرے پر خوف کی چادر تان دی جائے۔ لوگ اپنے گھروں میں دبک جائیں۔ گلیوں اور بازاروں میں قانون کے بجائے خوف کی حکمرانی ہو۔ اگر یہ سب کچھ ہو جائے تو وہ بامراد اور کامیاب ہیں۔
ریاست اور معاشرہ کیا چاہتے ہیں؟ یہی کہ معمول کی زندگی چلتی رہے۔ کاروبار ِ حیات متاثر نہ ہونے پائے۔ بازار کھلے ہوں۔ دکانیں آباد ہوں۔ بچے سکول جائیں۔ لوگ خیریت سے گھروں کو لوٹیں۔ بستیوں میں قانون کا راج ہو۔ اگر ریاست اور معاشرہ کسی حادثے سے متاثر ہوئے بغیر معمول کی زندگی کو جاری رکھتے ہیں، خوف میں مبتلا نہیںہوتے،گلیوں اور بازاروں کی رونق بحال رہتی ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ دہشت گرد نامراد اور ناکام ہیں۔ ان کا مقصد پورا نہیںہوا۔ پھرجیت ریاست اور معاشرے کی ہے۔
پی ایس ایل سے کیا ہو گا؟ یہی کہ زندگی روں دواں ہے۔ معاشرے نے دہشت کی حکمرانی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ریاست ان سے خوف زدہ نہیں ہے۔ ایک واقعہ یا دو واقعات لوگوں کا عزم برباد نہیں کر سکتے۔ دہشت گردوں کے سامنے سرافگندگی معاشرے کی لغت میںنہیں ہے۔ ان کے لیے موجود راستوں میں یہ کوئی راستہ ہی نہیں۔ ان کے پاس صرف ایک راستہ ہے۔ یہ زندگی کا راستہ ہے۔ یہ جینے کی سبیل ہے۔ انہوں نے کاروبار کرنا ہے۔ بچوں نے تعلیم حاصل کرنی ہے۔ زندگی نے رواں دواں رہنا ہے۔ مرگ کا سوگ اور شادی کی خوشی، دونوں زندگی کے رنگ ہیں اور معاشرے نے دونوں سے آباد رہنا ہے۔ یہ پی ایس ایل کا فائنل در اصل اس خواہش، عزم اور ارادے کو مجسم کر رہا ہے۔ یہ بتا رہا ہے کہ ریاست اور معاشرے نے دہشت گردی کے موقف کو مسترد کر دیا ہے۔ وہ ان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے لیے آمادہ نہیں۔ ریاست بھی یکسُو ہے کہ اس نے لوگوں کی حفاظت کرنی ہے۔
عوام کا جوش و خروش بے مثل ہے۔ لاہور نے بالخصوص اور پاکستان نے بالعموم بتا دیا ہے کہ یہ قوم حادثات کو برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ یہ دکھوں کو اپنے راستے کی رکاوٹ نہیں بننے دے گی۔ یہ کسی بندوق بردار کو یہ حق دینے کے لیے آمادہ نہیں کہ وہ اس سے زندگی کی مسرتوں کو چھین لے۔ عوام نے جس فطری جوش کے ساتھ اس فیصلے کا استقبال کیا، یہ دہشت گردوں کی پہلی شکست ہے۔ یہ اعلان ہے کہ پاکستان کے لوگوں نے دہشت گردی کی حکمرانی کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کا انجام رسوائی اور ناکامی ہے۔
ریاست قوت کی علامت ہوتی ہے۔ اگر وہ کسی مرحلے پر شکست قبول کرلے تو پھر یہ عمل مزید معکوس ہوتا چلا جاتا ہے۔ اگر معاشرہ ایک بار خوف کی حکمرانی کو قبول کرلے تو پھر برسوں آزادیٔ فکر و عمل سے محروم رہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشرے قبرستان بن جاتے ہیں۔ لوگ اپنی سادگی کے باعث اسے 'امن‘ کا نام دیتے ہیں، جیسے افغانستان میں تھا۔ آزادیٔ فکر و عمل سے محرومی کے بعد جو امن ہوتا ہے، وہ دراصل خوف ہوتا ہے۔ امن یہ ہے کہ لوگ اپنی رائے قائم کرنے میں آزاد ہوں۔ انہیں اس بات کا خوف نہ ہو کہ اختلاف کی بنیاد پر وہ قابل گردن زدنی شمار ہوں گے۔ امن یہ ہے کہ معاشرہ فکری سطح پر ارتقا سے گزرتا رہے اور یہ عمل کسی خوف کے بغیر ہو۔ جمود اور خوف کا نتیجہ موت ہے، جسے لوگ امن کہہ دیتے ہیں۔ ریاست کا کام یہ ہے کہ وہ جمود اور خوف کا خاتمہ کرتے ہوئے فکر و عمل کی آزادی کویقینی بنائے۔ ہمیں اسی امن کو حاصل کرنا ہے۔
دہشت گردوں کی ایک حکمتِ عملی ہے۔ یہ شرق وغرب اور ماضی و حال میں ایک ہی رہی ہے۔ پہلا قدم ریاست کو مفلوج کرنا ہے۔ دوسرا قدم معاشرے کوخوف میں مبتلا کرنا ہے۔ تیسرا مرحلہ خوف کے نتیجے میں پیدا ہونے والا اضطراب اور پھر سماج کے نظامِ اقدار کا بر باد ہونا ہے۔ اگلا مر حلہ بے یقینی اور خوف میں لپٹی مایوسی (Frustration) کا پھیلانا ہے۔اس مرحلے پر معاشرہ نفسیاتی مریض بن جا تا ہے۔ لوگوں کو جب کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا تو وہ ایک دوسرے سے الجھتے ہیں۔ دوسروں کو حالات کی زبوں حالی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ یوں معاشرہ طبقات میں بٹ جاتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک طبقہ دہشت گردوں کا حامی بن جاتا ہے۔ وہ ان کے لیے معاشرے میں جگہ تلاش کرتا ہے۔ وہ مذاکرات اور ان کو اقتدار میں شریک کر نے کی بات کرتا ہے۔ اسی مرحلے پر ہمیں لوگ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں: ''یہ کہتے تو ٹھیک ہیں۔ مطالبات تو ان کے درست ہیں۔‘‘ یہی دہشت گردوں کی کامیابی ہوتی ہے۔ انہیں معاشرے میں ہمدرد میسر آ جاتے ہیں۔
پاکستان اس مر حلے سے گزر چکا۔ ہم نے اس سرحد کو چھوا ہے۔ ضربِ عضب سے پہلے ہم نے بہت دیر یہاں پڑاؤ کیا ہے۔ ایسے مر حلے پر سب سے زیادہ قومی یکجہتی کی ضرورت ہوتی ہے۔ فکری یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے۔ قوم اس عزم کا اعلان کرتی ہے کہ ایسے کسی گروہ کے ساتھ معاملہ ممکن نہیں جو بندوق یا خوف کے زور پر اپنی بات منوانا چاہتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ 2014ء میں قوم نے بڑی حد تک اس کا ادراک کر لیا۔ سیاسی و مذہبی قیادت اور ریاستی ادارے ہم آہنگ ہو گئے۔ نتیجتاً پاکستان سر خرو ہوا۔
آج پھر ایک ایسا ہی مر حلہ درپیش ہے۔ دہشت گردی کی نئی لہر کو روکنے کے لیے اُسی عزم اور اُسی ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ پے درپے واقعات کے بعد، قوم کو کسی ایسے لمحے کی تلاش تھی جب قوم میں زندگی کی لہر دوڑ جائے۔ دہشت گردی کی لہر کے مخالف سمت میں اس سے زیادہ توانا لہر اٹھے اور وقت کا دھارا اسی رخ پر بہنے لگے۔ خوش قسمتی سے پی ایس ایل کی صورت میں ہمیں وہ 'لمحہ‘ میسر آ گیا۔ اس پر عوامی ردِ عمل اتنا بے ساختہ اور خوش کن تھا کہ اس نے دکھ اور مایوسی کو ایک نئے عزم میں بدل ڈالا۔ اس نے دہشت گردوں کی ساری محنت پر پانی پھر دیا۔ سماج نے خوف کی حکمرانی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں ان کا دکھ نہیں جو لاہور، سیہون شریف یا پشاور میں جان سے گئے یا ہمیں وہ جوان عزیز نہیں جنہوں نے جانی خیل میں قوم کے کل کے لیے اپنا آج قربان کر دیا۔ یہ سب ہمیں یاد ہیں۔ ہم ان کو کبھی نہیں بھولیں گے۔ ان سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان کا مشن یاد رکھیں۔ ان کا مشن یہ ہے کہ دہشت گردوں کے سامنے ڈٹ جانا ہے۔ قوم کا ڈٹ جانا، خوف سے نکلنا ہے۔
یہ دکھ سے نجات کی گھڑی ہے۔ یہ نئے عزم کا وقت ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ریاست اور عوام دونوں اس میں سر خرو ہوئے۔ کل لوگ نکلیں گے۔ لاہور میں جشن کا سماں ہو گا۔ یہ دہشت گردی کے خلاف فتحِ مبین کا دن ہے۔ یہ عوام کی جیت کا دن ہے۔ یہ پہلا میچ ہو گا جس میں جیتنے اور ہارنے والے دونوں، دہشت گردی کے خلاف فاتح قرار پائیں گے۔ سب تماشائیوں کی ایک ہی ٹیم ہوگی: پاکستان۔ سب کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہوگا:پاکستان زندہ باد۔