فکر و نظر کی دنیا میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی۔یہ غو رو فکر کا مسلسل عمل ہے جو کسی سماج کے زندہ ہونے کی علامت ہے۔اس سے جہاں روایت پر نئی نسل کا ایمان پختہ ہوتا ہے، وہاں اسے یہ موقع ملتا ہے کہ نئے دریافت شدہ حقائق کو بھی اپنے افکار کا حصہ بناتے رہیں۔تاہم سوچ بچار کایہ عمل اسی وقت نتیجہ خیزہوتا اور مثبت ارتقا کو یقینی بناتا ہے جب یہ تنقیدی شعور سے بہرہ مند ہو۔
تنقیدی شعور فکری ارتقا کو ایک نظم کا پابند بناتا ہے۔اس کے آداب متعین کرتا ہے۔وہ کسی سیاق و سباق کو پیشِ نظر رکھتا ہے۔ناقد کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس پہلو پر تنقید کر رہا ہے۔سماج بھی تنقید کو اسی تناظر میں دیکھتا ہے۔لوگوںکو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ کسی موقف کو پرکھ سکیں۔ان پر اس کے مثبت پہلو واضح ہوں اور ساتھ منفی بھی۔یوں یہ تنقید ایک مثبت عمل بنتی اور معاشرے کو فکری سرمایے سے مالا مال کردیتی ہے۔اس سے مکالمے کا کلچرپیدا ہوتا ہے۔مناظرے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے جو تلاشِ حق سے زیادہ برتری کی منفی نفسیات کوفروغ دیتا ہے۔
یہ تنقیدی شعور دو امور کے تابع ہے: فکری پختگی اورعلمی دیانت۔علم پختہ نہ ہو تو زیر ِتنقید موقف کی درست تفہیم نہیں ہوتی۔ناقد تنقید کو سیاق و سباق کا پابند نہیں رکھ سکتا۔اس طرح تنقید کے نام پر رطب و یابس کا ایک مجموعہ وجود میں آتا ہے۔ اس سے فکری پراگندگی تو پیدا ہو سکتی ہے، نظری ارتقا نہیں۔دیانت نہ ہو تو تنقید کے نام پر بہت سی ایسی باتیں زیرِ تنقید فکر یا شخصیت سے منسوب کر دی جاتی ہیں جو اس کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں ہوتیں۔ بایں ہمہ،ادھوری بات بتائی جاتی ہے اور دوسری باتوں کو چھپایا جاتا ہے۔
تنقیدی شعور اگر پختہ اور آداب کا پابند ہو تو کس طرح فکری ارتقا کا سامان کرتا ہے، مسلمانوں کی علمی روایت اس کی ایک اچھی مثال ہے۔مسلمانوں کے علمی ذخیرے میں بہت سی روایات 'احادیثِ پیغمبر‘ کے عنوان سے شامل ہیں جوصریحاً قرآن مجید اور عقلِ سلیم کے خلاف ہیں۔اسی ذخیرے میں اُن اہلِ علم کی تحقیق بھی موجود ہے جنہوں نے دلائل کے ساتھ بتایا ہے کہ رسالت مآب ﷺکی طرف ایسی روایات کاانتساب ثابت نہیں۔اس کے باوجود ایسی روایات کو پذیرائی ملتی اور وہ مسلسل بیان ہو تی رہتی ہیں۔مثلاً امام غزالی کی 'احیاء علوم الدین ‘ ہے ۔اس کتاب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر مسلمانوں کا تمام تر علمی سرمایہ دریا برد ہوجائے اور یہ کتاب محفوظ رہ جائے تو بھی اطمینان رکھنا چاہیے کہ کچھ ضائع نہیں ہوا۔یہ کتاب بے بنیاد روایات سے مملو ہے۔اس پرامام ابن تیمیہ کی تنقید مو جود ہے۔کہتے ہیں ابنِ جوزی نے 'الاحیاء‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں ان روایات کی کمزوری کو بیان کیا گیا ہے۔اس کے باوجود امام غزالی کے سند سے ایسی روایات مسلسل بیان ہو رہی ہیں۔
جدید ذہن کا آدمی جب ایسی روایات کو پڑھتا ہے تو اس کے خانۂ دل میں تشکیک کی کھڑکی کھل جاتی ہے۔اہلِ علم تواس حقیقت کو پا لیتے ہیں کہ چند روایات کے مشتبہ ہونے سے یہ حقیقت متاثر نہیں ہوتی کہ پیغمبرﷺ کی سنت دین کا مستقل ماخذ ہے جس کی بنیاد چند راویوں کی سند پر نہیں۔اس کی اساس امت کے تواتر پر ہے۔مزید یہ کہ محدثین کی غیر معمولی محنت اورعرق ریزی نے سنگ ریزوں اور جواہر کو اس طرح الگ کر دیا ہے کہ کوئی کمزور بات دین میں جگہ نہیں بنا سکتی۔سب لوگ مگر رسوخ فی العلم نہیں رکھتے۔چونکہ یہ روایات اس کے باوجود مسلسل بیان ہوتی ہیں،اس لیے تشکیک کی کھڑکی بند نہیں ہوتی۔جب کچھ لوگ اس تنقیدی پہلوکو نظر انداز کرتے ہیں تو وہ چند کمزور روایات کو بنیاد بنا کر سنت کا بطور ماخذِ دین انکار کر دیتے ہیں۔
بیسویں صدی میں اس نقطہ نظرکو ایک حد تک پذیرائی ملی۔پاکستان میں غلام احمد پرویزصاحب نے اسے بہت شد ومد کے ساتھ پیش کیا۔مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی اور بعض دوسرے اہلِ علم نے اس نقطہ نظر پر نقد کیا۔یہ بحث اس تنقیدی شعور کی بہت اچھی مثال ہے جو معاشرے کے مثبت فکری ارتقا کو یقینی بناتی ہے۔پرویز صاحب کی کتب موجود ہیں۔مولانا مودوی کی 'سنت کی آئینی حیثیت‘ بھی ہمارے علمی ذخیرے کا حصہ ہے۔حال ہی میں محترم شکیل عثمانی صاحب نے 'جناب غلام احمد پرویز کی فکر کا علمی جائزہ‘ کے عنوان سے بعض نادر اوراہم تحریروں کا مجموعہ شائع کر دیا ہے۔اس سارے کام نے ہماری علمی روایت کو آگے بڑھایا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں فکری پختگی ہے اور بڑی حد تک علمی دیانت بھی۔میں ان کتابوں کا ذکر نہیں کر رہا جو مناظرانہ اسلوب میں لکھی گئیں۔اب دین کا ایک طالب علم دونوں اطراف کا موقف جان سکتا ہے اور مو ضوع زیرِ بحث کی اچھی طرح تنقیح ہو جاتی ہے۔
غزل اور جواب آں غزل کا سلسلہ آج بھی جاری ہے مگر تنقیدی شعور کے بغیر۔اس سرمائے میں کم تنقید ایسی ہے جو علمی پختگی اور فکری دیانت کا مظہر ہو۔ اس کی ایک مثال استادِ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی پر بعض ہم عصروں کی 'جاری‘ تنقید ہے۔جاوید صاحب نے کچھ عرصہ پہلے،امریکہ کا سفر کیا۔اس دوران میں ایک لیکچر کے اختتام پرلوگوں کے سوالات کے جواب دیے۔ایک سوال یہ تھا کہ مسلمان معاشروں میں مذہبی انتہا پسندی کے اسباب کیا ہیں؟ انہوں نے یہ اسباب گنوائے اور ساتھ ہی ان کا حل پیش کیا تھا۔ان میں ایک حل یہ تھا کہ مسلم طلبا و طالبات کو بارہ سال کی وسیع البنیاد تعلیم دی جائے۔اس کے بعد وہ تخصص کے درجے میں جائیں۔اس مرحلے میں وہ چاہیں تو ڈاکٹر بنیں اور چاہیں تو عالمِ دین۔
جاوید صاحب نے اس سوال کے جواب میں جو نتائج فکر پیش کیے، اس کے دلائل انہوں نے تفصیل کے ساتھ اپنے بارہ خطبات میں بیان کیے جو امریکہ کے شہرڈیلس میں دیے گئے۔انہوں نے پہلے پانچ خطبات میں وہ دلائل بیان کیے جن کی بنیاد پر موجودہ مذہبی فکر کے بارے میں یہ رائے قائم کی گئی۔اس کے بعد سات خطبات میں یہ بتایا کہ وہ اس انتہاپسندی کا جو حل تجویز کر رہے ہیں،اُس کے دلائل کیا ہیں۔یہ خطبات یو ٹیوب پر موجود ہیں۔ان نتائجِ فکر پر تنقید ہو سکتی ہے۔اس کا صحیح طریقہ مگر یہ ہے کہ پہلے ان دلائل کو رد کیا جائے جن کی بنیاد پر یہ نتائج مرتب کیے گئے ہیں۔اسی طرح اگر مجوزہ حل کی غلطی کو واضح کرنا مطلوب ہے تو اس کے لیے بھی لازم ہے کہ ان دلائل کو مخاطب بنایا جائے جن پر ان کی اساس رکھی گئی ہے۔
اگر تنقید کے لیے اس طریقے کو اختیار کیا جاتا تو مسلم سماج کا فکری سفر آگے بڑھتا۔پڑھنے والے کے سامنے دونوں اطراف کے دلائل ہوتے اور یوں اسے رائے قائم کرنے میں مدد ملتی۔اس میں مسلمانوں کا بحیثیت مجموعی بھلا ہوتا۔اب اس کا اہتما م نہیں۔مثال کے طور پر جاوید صاحب اس سوال کا جواب دے رہے ہیں کہ مسلم معاشرے میں انتہا پسندی کیسے پیدا ہوئی؟ اس پر تنقید یہ ہو رہی ہے کہ انہوں نے امریکہ کی دہشت گردی کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ کیا انہیں جاپان کی دہشت گردی یاد نہیں؟اسی طرح جب وہ بارہ سال کی وسیع البنیاد تعلیم کا ذکر کرتے ہیں تو اس پر تنقید کرتے وقت کہیں یہ ذکر نہیں کہ اس تعلیم سے ان کی مراد کیا ہے؟ کیا یہ وہی بات ہے جو 'یونیورسل تعلیم‘کے ذیل میں بیان ہو تی ہے؟ کیا ناقد یہ جانتے ہیں کہ کیسے جاوید صاحب اس میں قرآن مجیدکی تعلیم کو شامل کرتے ہیں؟
اس وقت اس تنقید کا تفصیلی جائزہ لینا مقصود نہیں۔صرف یہ واضح کرنا ہے کہ تنقید کا کام کیسے ایک تعمیری سرگرمی بن سکتا ہے اور مسلم سماج کے مثبت ارتقا میں معاون ہو سکتا ہے۔اگر تنقید کے بنیادی عوامل پیش ِنظر نہ رہیں تو ایک مفید کام بھی نہ صرف افادیت سے محروم ہو جاتا ہے بلکہ فکری پراگندگی کا باعث بنتا ہے۔