کتابوں کا ڈھیر سرہانے رکھا ہے۔ کسی کے دس صفحے پڑھ رکھے ہیں، کسی کے پچاس۔
یہ اکثر ہوتا ہے۔کتابیں جمع ہو جاتی ہیں ۔ ہر نئی کتاب متوجہ کرتی ہے، کچھ زیادہ کرتی ہیں۔ مذہب، عمرانیات، سیاسیات،تاریخ اور ادب، یہ تو سدا بہار موضوعات ہیں۔ میں اصلاً انہی کا طالب علم ہوں۔ اس پر مستزاد کالم کی ضروریات۔ اخبارات اور جرائد بہت سا وقت لے لیتے ہیں۔ حالات حاضرہ سے آگاہی ایک کالم نگار کی ناگزیر ضرورت ہے۔ وہی جن کے بارے میں دلاورفگار نے کہا تھا کہ' حالاتِ حاضرہ کوکئی سال ہو گئے‘۔
کتابیں فکرکی غذا ہیں۔ یہ علم کے ساتھ تعلق کو قائم رکھتی ہیںاور خیالات کی دنیا کو جوہڑ نہیں بننے دیتیں۔ کتابیں فکر و نظر کے بہتے دریا میں تازہ لہریں اٹھاتی رہتی ہیں۔ خیالات میں بننے اور بگڑنے کا عمل جاری رہتا ہے۔کتابیں نہ پڑھنے کاایک نتیجہ یہ ہے کہ لوگ رائے کی تبدیلی کو عیب سمجھتے ہیں۔
محترم عمار خان ناصر کی فاضلانہ تصنیف '' فقہا ئے احناف اور فہمِ حدیث ‘‘ کے چند صفحات باقی ہیں۔ مطالعے کے دوران میں، یہ سوال باربار ذہن کے دروازے پر دستک دیتا رہاکہ آج کل کے احناف کو اپنے اسلاف سے کیا نسبت ہے؟ معلوم ہوتا ہے کہ اہل حدیث مسلک کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ۔ برادرم ڈاکٹر حسن الامین کی تازہ ترین تصنیف '' پوسٹ اسلامزم (Post Islamism)‘‘ بھی معرکے کی چیز ہے۔'اسلامزم‘ کے بعد مسلم سماج کا فکری سفر کیسے آگے بڑھا ہے، یہ کتاب اس کا فکر انگیزمطالعہ ہے۔ دورِ حاضر میں اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر، اس کتاب پر الگ سے کالم لکھنے کا ارادہ ہے۔
ادب بالخصوص کہانی (فکشن ) سے ایک عرصہ ہوا، تعلق کمزور ہو چکا۔ دل اس کی طرف بڑھتا ہے مگر فکر و نظر کی دنیا زیادہ پر کشش محسوس ہوتی ہے۔ تاہم پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ سے ناول نے بطورِخاص اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔دو دن پہلے ترک ناول نگار ایلف شفق کاناول '' چالیس چراغ عشق کے ‘‘ مکمل کیا ہے۔ برادرم فرخ گوئندی نے اس کا اردو ترجمہ بہت خوش ذوقی کے ساتھ شائع کیا ہے۔یہ رومی اور شمس تبریز کے تعلق کا عصری انطباق ہے ۔ مجھے اس پہ لکھنا ہے، مگر چند روز بعد۔اب اختر رضاسلیمی کا ناول ''جاگے ہیں خواب میں۔‘‘ نظروں کو لبھا رہا ہے۔ برادرم عامر رانا کا ناول '' سائے‘‘ مختصر تھا، جلد ختم ہو گیا۔ یہ ہمارے عہد کے المیے کا بیان ہے جس نے لوگوں کا اذنِ کلام چھین لیا ہے۔ نتیجتاً شناخت بھی۔
مطالعے کے دوران میں ایک سوال باربار سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ ایک کالم نگار اگر مذہب ، تاریخ اور سماجیات کے بنیادی مباحث اور سوالات سے آگاہ نہ ہو تو کیا فکری راہنمائی کا وظیفہ سر انجام دے سکتا ہے؟ آئے دن میرا یہ احساس پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ رائے ساز اگر اس زادِ راہ سے محروم ہے تو پھر وہ سماج کے لیے خطرہ ہے۔ معاشرے میں پیش آنے والا کوئی واقعہ منفرد نہیں ہوتا۔ یہ سلسلۂ واقعات کی ایک کڑی ہوتا ہے۔ یہ واقعات ایک مسلسل اور ارتقائی سفر کے مختلف پڑاؤ ہیں۔ ان میں باہمی تعلق کیا ہے؟ یہ سفر کس منزل پر منتج ہو گا؟ ان سوالات کے جواب نہیں مل سکتے اگر ہم سماج کی بناوٹ، تاریخی عمل کے بہاؤ، ابدی صداقتوں کی کارفرمائی اور الٰہی سنت کی مداخلت سے واقف نہ ہوں۔ ان کا فہم عمرانیات ، تاریخ، ادب اور مذہب کے مطالعے کے بغیر ممکن نہیں۔
کالم نگار اور ادیب میں ایک بنیادی فرق ہے۔ کالم نگار کو حقائق کی دنیا میں جینا ہے۔ ادیب کے پاس یہ انتخاب ہوتا ہے کہ وہ ایک من پسند دنیا تخلیق کرے اور پھر اس میں زندہ رہے۔ وہ گاہے اس مثالی دنیا کو حقیقی دنیا سے ہم آہنگ کرتا اور یوں خواب کو زندہ رکھتا ہے۔ کالم نگار کا معاملہ اس کے بر عکس ہے۔ اسے حقیقی دنیا میں جینا اور پھر اس کے روز و شب سے ایک مثالی دنیا پیدا کرنا ہوتی ہے۔ یہ مشکل کام ہے۔ اس کے لیے حقائق سے آنکھیں چار کرنا پڑتی ہیں جو بے رحم ہوتے ہیں۔ یوں اکثر کالم نگار مایوسی میں اتر جاتے ہیں۔ ان کے مایوس ہونے کا مطلب سماج میں مایوسی کا پھیلنا ہے۔
ہرکالم نگار کا اپنا ایک پس منظر ہوتا ہے۔ مذہب، ادب اور وقائع نگاری، بالعموم کالم نگار انہی وادیوں سے نکلتے ہیں۔ یہ پس منظر کالم نگاری پر اثر ڈالتا ہے۔ سیاسی عمل کی تفہیم اس کے نتیجے میں ہوتی ہے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ پس منظر جو بھی ہو، سماجی علوم، مذہب، تاریخ اور ادب سے تعلق گہرا نہ ہو تو واقعات کا مفہوم اخذ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بلا شبہ کالم نگار کے تعصبات بھی ہوتے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ قاری مسلسل پڑھتا رہے تو اس کے لیے یہ جاننا مشکل نہیں رہتا کہ کہاںمعروضیت ہے اور کہاں تعصبات۔
سماجی عمل سے عدم واقفیت کا ایک نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لکھنے والا ہر واقعے کو منفرد سمجھتا ہے۔ یوں وہ ایک جیسے واقعات کو مختلف زاویہ ہائے نظر سے دیکھتا ہے۔ مثال کے طور پر سیاسی کلچر کا ایک پہلواہلِ سیاست کا باہمی تعلق ہے۔ اگر کالم نگار سماجی عمل سے واقف ہو گا تو وہ جان پائے گا کہ سیاسی قیادت کا لب و لہجہ کیسے سماجی رویوں میں سرایت کرتا ہے اور سیاسی کلچر کو کیسے متاثر کرتا ہے۔ اس عہد میں رائے ساز کی ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے۔ فکر و نظر کی دنیا میں توازن کا قیام اور اختلاف رائے کو آداب کے تابع کرنا، اس کا سب سے اولین فریضہ ہے۔یہ وعظ و نصیحت سے نہیں عملی مثال پیش کرنے سے ہو گا۔ رائے سازوں کو، جن میںکالم نگار شامل ہیں، یہ طے کرنا ہو گا کہ وہ کس اسلوب میں اختلاف کریں گے۔ وہ کیسے دوسرے نقطۂ نظر کو اس کے سیاق و سباق میں سمجھیں گے۔ اس وقت لکھنے والے سماجی رویے کی تشکیل میں شریک ہیں۔ انہیں اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہو گا۔ یہ ذمہ داری کتابوں سے تعلق رکھے بغیر نہیں آ سکتی جو اس وقت بھی علم کے حصول کا سب سے مستند ذریعہ ہیں۔
ان دنوں حسین حقانی صاحب کا ایک مضمون زیر بحث ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اس سے اظہار لا تعلقی کر رہی ہے۔ اگر اس سارے معاملے کو تاریخی پس منظر میںدیکھا جائے تو اس میںکچھ ایسا نہیں جسے انکشاف انگیز قرار دیا جائے۔ سی آئی اے پاکستان میں جس طرح متحرک رہی ہے، یہ ایک معلوم حقیقت ہے۔ اگر اس موضوع پر جارج سرل کی کتاب '' چارلی ولسن کی جنگ ‘‘ (Charlie Wilson's War) ہی پڑھ لی جائے تو چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ اس نام سے فلم بھی بن چکی ہے جو بتاتی ہے کہ افغانستان کی جنگ میں سی آئی اے نے کیا کردار ادا کیا اور پشاور کیسے سی آئی اے کی سرگرمیوں کا مرکز بنا۔ اگر اس تاریخی تناظر میں پیپلز پارٹی کے عہد میں سی آئی اے کے کردار کو دیکھا جائے تو کچھ نیا دکھائی نہیں دیتا۔
بات کتابوں سے شروع ہوئی تھی۔ میں سوچ رہا ہوں کہ یہ ڈھیر کب ختم ہو گا کہ نئی کتابیں ان کی جگہ لینے کو بے تاب ہیں۔ '' چالیس چراغ عشق کے ‘‘ پہ لکھنے کو بہت دل چاہ رہا ہے۔ دیکھیے حالاتِ حاضرہ کب اجازت دیتے ہیں؟