اختلاف جمہوریت کا حسن ہی نہیں، اس کی روح ہے لیکن کیا اس اختلاف کے کوئی آداب بھی ہوتے ہیں؟ کیا اختلاف کو کسی معاشرے کے اخلاقی معیارات کے تابع ہو نا چاہیے؟ صدرِ مملکت ممنون حسین نے چند روز پہلے باندازِِ دگر ہمیں اس کا احساس دلایا۔ ان کا یہ خطاب رائے ساز حلقے میں وہ توجہ حاصل نہیں پایا، جس کا وہ مستحق تھا۔ شاید اس لیے کہ یہ بنیادی سوال صحافت کی ترجیحات میں شامل ہے نہ سیاست کی۔
عطاالحق قاسمی ادب ہی نہیں، ہماری صحافت کی بھی ایک باغ و بہار شخصیت ہیں۔ ان کے شگفتہ کالم ان کے سیاسی خیالات سے اختلاف رکھنے والے کو بھی بدمزہ نہیں ہونے دیتے۔ کچھ دن پہلے ان کے سوانح پر ایک کتاب شائع ہوئی جس میں ان کی زندگی کے اہم واقعات کو تصاویر کی زبانی بیان کیا گیا ہے۔ صدر مملکت نے اس کی تقریبِ رونمائی میں ادب اور صحافت کے گرتے معیار پر توجہ دلاتے ہوئے اس کے تاریخی پس منظر کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 1857ء کے حالات نے ہمارے مزاج میں جو تلخی گھول دی تھی، اس کا عکس مسلم ادب میں بھی دکھائی دیا‘ جو اس کے بعد تخلیق ہوا۔ مقصدیت کے نام پر لطافت کو قربان کر دیا گیا جو ادب کی جان ہے۔
صدرِ محترم کا یہ کہنا ہے کہ اس کے اثرات عصری ادب اور صحافت پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ آج صرف سماج کی خرابیاں موضوع بنتی ہیں۔ یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے معاشرہ خیر سے محروم ہو گیا ہے۔ نتیجتاً نوجوانوں میں ہیجان جنم لیتا ہے اور یہی ان میں انتہا پسندی پیدا کرتا ہے۔ معاشرے کو اگر اس سے نکالنا ہے تو ادیب کو ایک جوابی بیانیہ دینا ہو گا۔ ادیب کا بیانیہ کیا ہے؟ یہی کہ وہ اپنے اسلوب سے یہ بتائے کہ اختلاف کیسے کیا جاتا ہے۔ وہ معاشرے کے ذوق اور معیار کو بہتر بنائے تاکہ ان افراد کو قبولیت نہ ملے جو لفظ کی حرمت کے قائل ہیں نہ لہجے کی حلاوت کے۔
جاوید لطیف اور مراد سعید میں صلح ہو گئی۔ اگر تلخی کم ہوتی ہے تو اس کا خیرمقدم کر نا چاہیے۔ یہ واقعہ اور اس کا ردِ عمل دراصل ہمارے اخلاقی معیارات کی ایک تصویر ہے۔ غلطی دونوں کی تھی مگر اس میں شبہ نہیں ہے کہ جاوید لطیف کی غلطی سنگین تر تھی۔ پہلے مرحلے میں دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے پہلوان کی پیٹھ ٹھونکی۔ اگر مذمت کی تو دوسرے کی۔ جاوید لطیف نے سماجی اخلاقیات کے بنیادی تصورات کو پامال کیا‘ مگر ن لیگ نے اس کی شناعت کو کم تر کرنے کی کوشش کی۔ میڈیا کو دیکھیے تو اس نے اس واقعے پر مزید نمک مرچ چھڑکا۔ کئی دن بلا جواز اسے ٹاک شوز کا موضوع بنائے رکھا۔ اخلاق کے نام پر کاروبار کیا گیا۔
یہ واقعہ بتا رہا ہے کہ اخلاقی اقدار کی ہمارے ہاں کیا اہمیت ہے۔ ہم نے زبانِ حال سے بتایا کہ اخلاقیات ہمارے لیے ایک موضوعی (subjective) معاملہ ہے۔ ہم اخلاقیات کے کسی عالمگیر اور آفاقی تصور کو نہیں مانتے۔ پہلے ہم نے کرپشن کے بارے میں اس تصور کو فروغ دیا کہ کرپٹ وہی ہے جو دوسری جماعت میں ہے۔ اگر وہی ہماری جماعت میں آ جائے تو پاک ہو جاتا ہے۔ اب ہم نے گالی کو بھی موضوعی بنا دیا۔ ن لیگ والا گالی دے گا تو ن لیگ اس کے ساتھ کھڑی ہو جائے گی۔
یہ رویہ صرف اہلِ سیاست اور اہلِ صحافت تک محدود نہیں ہے۔ اہلِ مذہب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ اگر کسی ایسے 'عالم‘ کا کوئی اخلاقی معاملہ سامنے آئے‘ جس کا تعلق ہمارے اپنے مسلک سے ہے تو ہم اسے دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر 'عالم ‘ کا تعلق دوسرے مسلک سے ہے تو ہم اسے اچھالتے ہیں۔ میں نے تو یہ بھی دیکھا ہے کہ دوسرے مسالک یا مکتبِ فکر کی شخصیات پر لوگ سنگین الزام لگانے سے بھی نہیں چوکتے۔ ایک مسلمان کی طرف اس جرم کی نسبت کرتے وقت آدمی سو بار سوچتا ہے لیکن یہاں ایسے معاملے میں بھی سہل انگاری کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ کسی کو مجرم قرار دینے کے لیے ایسی ایسی فقہی موشگافیاں ہوتی ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ ہم نے اپنے اسلاف کے بارے میں تو یہ پڑھ رکھا ہے کہ اگر کسی کو مجرم سمجھنے کے ننانوے احتمالات ہوں اور ایک اس کو بے گنار قرار دیتا ہو تو وہ اس واحد احتمال کو ترجیح دینے کے قائل تھے۔ اب معاملہ اس کے برعکس ہے۔
مسلم روایت میں اخلاقیات کوئی موضوعی معاملہ نہیں ہے۔ مذہب کا تصورِ اخلاقیات یہ ہے کہ وہ انسان کی غیر متبدل فطرت کا خاصہ ہے۔ اس کا تعلق خارج سے نہیں ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ایک مسلم معاشرے میں ہم نے اخلاقیات کو عملاً ایک موضوعی معاملہ بنا دیا ہے۔ تصوف کے ماننے والے خرافات اور کفریہ جملوں کے تاویل کرتے اور اسے' شطحات‘ کا نام دیتے ہوئے اس کے مرتکب لوگوں کو معذور قرار دیتے ہیں۔ اربابِ شطح کی فہرست میں ایسے ایسے نام شامل ہیں کہ لکھ دوں تو لوگ انگلیاں دانتوں میں دبا لیں۔ دوسروں کو البتہ ہم کوئی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں، یہاں تک کہ اپنے دفاع کا قانونی حق بھی نہیں دیتے۔ ہمارا تمام تر حسنِ ظن اپنے گروہ کے لیے ہے اور تمام تر سوئے ظن دوسروں کے لیے۔
یہ اندازِ نظر انتہا پسندی اور گروہ بندی کی اساس ہے۔ اسی سے نفرت کی دیواریں کھڑی ہوتی ہیں۔ اسی سے ہم انسانی سماج میں اس مصنوعی تقسیم کو فروغ دیتے ہیں کہ اس طرف فرشتے ہیں اور دوسری طرف شیاطین۔ یہ خیال جب پختہ ہوتا ہے تو انسانی مزاج کی رعایت سے مختلف صورتوں میں ظہور کرتا ہے۔ کوئی اپنے خود ساختہ 'شیاطین‘ کو زبان سے برا کہنے پر اکتفا کرتا ہے۔ کوئی زبان سے اور کوئی طاقت سے۔ پروپیگنڈے اور طلاقتِ لسانی سے ہم اس مصنوعی تقسیم کو حقیقی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ قیادت کے سطح پر بیٹھے لوگ اکثر جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں۔ کارکن اس تقسیم کو دیانت داری سے قبول کرتے ہیں۔ طاقت کا علمی مظاہرہ تو انہی کارکنوں کو کرنا ہوتا ہے۔
معاشرہ ایک اکائی ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ اس میں ایک گروہ فرشتوں کا ہو اور دوسرا شیاطین کا۔ افراد کی طرح گروہوں میں بھی کہیں خیر غالب ہو سکتا ہے اور کہیں شر۔ خیر اور شر ایسا معاملہ نہیں کہ کسی فرد یا گروہ پر کسی مذہب، مسلک یا سیاسی جماعت کا نشان لگا کر یہ طے کر دیا جائے کہ یہ شریر ہے اور یہ صاحبِ خیر۔ اصل اہمیت اقدار کی ہے۔ معیار کسی خاص گروہ یا مسلک سے وابستگی نہیں، وہ نظامِ اقدار ہے جس پر اجتماعی طور اتفاق پایا جاتا ہے۔ ایک معاشرے کی اخلاقی قوت اس وقت ثابت ہوتی ہے جب وہ گروہی اور مذہبی و مسلکی بالا دستی سے بالاتر ہو کر اپنی اخلاقی اقدار کا دفاع کرتا ہے۔
یہ ذرائع ابلاغ ہیں جو ایک معاشرے کو اخلاقیات کے باب میں حساس بناتے ہیں۔ ماضی میں ادب ابلاغ کا ایک بڑا اور موثر ذریعہ تھا۔ اب بڑی حد تک یہ وظیفہ میڈیا سرانجام دیتا ہے۔ اسے بتانا ہے کہ اختلاف کے آداب کیا ہیں؟ خیر و شر کا پیمانہ کیا ہے؟ صدرِ مملکت اسی بات کی طرف توجہ دلانا چاہتے تھے۔ میڈیا میں اس بات کو موضوع نہ بنانا یہ جاننے کا ایک پیمانہ ہے کہ ہمارے نزدیک خبر کس کا نام ہے؟ ہمارے خیال میں خبر اسی کو کہتے ہیں جس کے اجزائے ترکیبی میں منفی پہلو لازماً شامل ہو۔ منفی پہلو وسیع اطلاقات رکھتا ہے۔ اس میں سوئے ظن سے لے کر الزام اور اتہام سب شامل ہیں۔ ہمیں اس کلچر کو بدلنا ہو گا اگر ہم انتہا پسندی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔