بہت دنوں سے اِس ناول کی گرفت میں ہوں۔ترک ناول نگارایلف شفق نے ایک پامال مو ضوع کو جس عصری شعور کے ساتھ بیان کیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ وقت ہے جو فرسودہ ہوجاتا ہے ۔جو خیال یا جذبہ،زندگی پر اس طرح اثر انداز ہو کہ اس کا رخ بدل دے،وہ کبھی زوال آشنا نہیں ہوتا۔
عالم اور صوفی، مذہب کی برپا کردہ تہذیبی روایت میں کارفرمادورویے ہیں۔اہلِ ادب نے انہیں علامتیں بنا دیا۔ادب جوہری طور پر جذبات کے گرد گھومتا ہے۔اس لیے شاعر ہو یا ناول نگاراس کا جھکاؤ ہمیشہ دل کی طرف رہتا ہے۔ دل جو محبت کا مرکز ہے۔صوفی اسی محبت کی علامت ہے۔یہی شاعروں کا ہیرو ہے اور نثر نگاروں کا بھی۔عالم ولن ہے جو عقل کا نمائندہ ہے۔دل ودماغ کی کشمکش کو صوفی اور عالم کے کرداروں کی زبانی کبھی شعر اور کبھی کہانی کی صورت میں بیان کیا جا تارہا ہے۔ شفق نے بھی یہی کیاہے۔اس نے مسلم تاریخ کے دو کرداروں کا انتخاب کیا ہے:رومی اور شمس تبریز۔
رومی ابتداً علم یا عقل کی علامت ہے اور شمس تبریز دل یا عشق کی۔تاریخی حوالے سے،ان کا باہمی تعلق بہت سی کہانیوں میں مستور ہے۔ناول نگار کا کام تاریخی صداقتوں اور افسانوں کو جدا کر نا نہیں۔اس نے مبینہ واقعات کو اپنے زاویے سے دیکھنا ہے۔شفق نے اس کہانی کو اختیار کر لیا جو اس کے مرکزی خیال کے لیے مفید تر ہو سکتی تھی۔شمس تبریز کسی ایسے انسان کی تلاش میں ہیں جس کا دل اتنا شفاف ہو کہ وہ ان صداقتوں کو اپنی گرفت میں لا سکے جو ان پر ظاہر ہوئی ہیں۔اس کشمکش میں ایک پہلو سے دل دماغ کا حریف ہے مگر یہ ابتدائی درجہ ہے۔ایک منزل پر جا کر یہ منکشف ہو تا کہ دونوں میں فرق دراصل ظرف کا ہے۔عقل جن حقائق کے ظاہری پہلو میں الجھ جا تی ہے،دل کی رسائی ان کے باطن تک ہو تی ہے۔ عقل پوست میں الجھا رہتا ہے ا ور دل ، آگے بڑھ کر مغز تک پہنچتا ہے۔
مقدمہ یہ ہے کہ عالم شریعت بیان کر تا ہے۔وہ اس کی روح میں نہیں اترتا۔وہ داڑھی کے طول و عرض کو ناپتا اور وضو کے لیے پانی کے قطرے شمار کرتا رہتا ہے۔صوفی کی دلچسپی جسم سے زیادہ قلب کی طہارت سے ہوتی ہے۔اسے اس سے دلچسپی نہیں کہ داڑھی ہے یا نہیں،اس کا دھیان باطن کی طرف ہے ۔اسے ،اس سے غرض نہیں کہ تسبیح کے دانے پھرتے ہیں یا نہیں، وہ یہ دیکھتا ہے کہ دل پھرا ہے یا نہیں۔یہ کشمکش آگے بڑھتی ہے تو افراط و تفریط میں ڈھل جا تی ہے۔عالم نماز کے فرائض،سنن اور مستحبات توبیان کرتا ہے لیکن یہ نہیں بتا تا کہ خشوع و خضوع فرض ہیں یا نہیں؟خشوع کے بغیر نماز ہو جا تی ہے یا نہیں۔دوسری طرف صوفی قلب کے تزکیے کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ ظاہری اعمال اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں۔ایسے میں کچھ لوگ اٹھتے اور اس توازن کو زندہ کر ناچاہتے ہیں۔انجیل میں حضرت مسیح ؑکے خطبات دراصل ظاہر پرست علما ئے بنی اسرائیل پر نقد ہے۔وہ انہیں سفیدی پھری قبروں کی مانند قرار دیتے ہیں۔ مسیحی روایت میں پال جیسے صوفی آئے جنہوں نے اس توازن کو ایک بار پھر بدل ڈالا جو حضرت مسیح ؑ نے قائم کیا تھا۔انہوں نے مسیحیوں کو شریعت کی پابندیوں سے آزاد کر دیا۔
مسلم روایت میں بھی یہ کشمکش جاری رہی۔ایلف شفق کے اس ناول میں بھی اس کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے۔وہ شمس تبریز کی زبان سے کہلواتی ہیں :''شریعت محض ایک کشتی ہے جو بحرِ حق میں رواں ہے۔راہِ خدا کا سچا سالک جلد یابدیراس سے اتر کر سمندر میں چھلانگ لگا دے گا۔‘‘شمس اس بحث کو ان الفاظ میں سمیٹتے ہیں:''یہ بحث نہ صرف تاریخِ اسلام سے متعلق ہے بلکہ ہر ابراہیمی مذہب کے قلب میں مو جود ہے۔یہ عالم اور صوفی،ذہن اور دل کے درمیان نزاع ہے۔ تم سب اپنی مرضی سے انتخاب کرو۔‘‘
اس ناول میں تیرھویں صدی کی اس کہانی کو اکیسویں صدی کے کرداروں کی زبانی بیان کیا گیا ہے۔تبدیلی محض اتنی ہے کہ رومی اور شمس تبریز کی جگہ ایلا اور عزیز نے لے لی ہے۔جس طرح شمس تبریز سے ملاقات کے بعد رومی ان کی محبت میں گرفتار ہوتے اور ان کی سوچ کا زاویہ بدل جا تا ہے، اسی طرح ایلا جو ایک شادی شدہ خاتون ہے، عزیز سے متعارف ہوتی اوراس کی محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے۔عزیز سے ملاقات اس کی سوچ کو بھی بدل ڈالتی ہے۔ایلف کا کمال یہ ہے کہ وہ محبت کے وفور اور جوش میں بھی اپنے کرداروں کو شریعت کی حدود کا پابند رکھتی ہیں۔
تصوف اصلاً وحدت الوجود ہی ہے۔یہ ناول بھی اسی کو بیان کر تا ہے۔شمس ایک مقام پر یہ کہتے ہیں کہ ایک صوفی کسی دوسرے کو الزام نہیں دیتا کیونکہ 'دوسرے ‘ کا وجود ہی ثابت نہیں۔ وہ کہتے ہیں: ''کسی دوسرے کو الزام کیسے دیا جا سکتا ہے جب کہ کسی دوسرے کا وجود ہی نہیں۔ذاتِ واحد ہی ہے جوموجودہے۔‘‘
اس ناول میں ایلف کی تکنیک بہت دلچسپ ہے۔دو کہانیاں ایک ساتھ چلتی ہیں۔یوں قاری تاریخ کے پس منظر میں رہتے ہوئے اپنے عہد میں جیتا ہے۔پڑھنے والے پر یہ منکشف ہو تا ہے کہ زندگی کے رنگ دائمی ہیں۔وقت ان کو تبدیل کر نے پر قادر نہیں۔تہذیبی ارتقا سے رہن سہن تو بدل سکتا ہے مگر انسان کا شخصی جوہر وہی رہتا ہے۔انسان کی جبلیتیں ہر دور میں ایک طرح سے ظہور کرتی ہیں۔گزشتہ آٹھ سو سال میں اس کے سوا کچھ نہیں بدلا کہ رومی کی جگہ ایلانے لے لی اورشمس کی جگہ عزیز نے۔
تصوف کے فلسفیانہ پہلو سے قطع نظر،اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک صوفی کا سماجی کردارمحبت کے عظیم احسا س سے پھوٹا ہے۔ وہ انسان دوستی کااستعارہ ہے۔وہ دوسرے کے عیبوں کو نہیں، ان کی خوبیوں کو شمار کرتا ہے۔اسے فتویٰ دینے سے نہیں، دوسرے کی اصلاح سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔وہ دوسروں کو رعایت دیتا اور ان کے لیے موقع پیدا کرتا ہے کہ وہ خیر سے وابستہ ہو جائیں۔وہ محبت کو ایک سماجی قدر کے طور پر اپنا تا اور اس کی صدا لگا تا ہے۔ایلف نے اس ناول میں ان چالیس اصولوں کو سمو دیا ہے جومحبت سے پھوٹتے اور انسانی رویے کا تعین کر تے ہیں۔ایلف نے اسے مذہب کی زبان میں بہت خو بصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے۔
ناول جب اپنے اختتام کی طرف بڑھتا ہے تو ناول نگار اذان کے استعارے میں سیکڑوں صفحات پر پھیلے موضوع کوبہت حسنِ بیان کے ساتھ سمیٹتی ہیں۔عزیز بسترِ علالت سے ایلا سے مخاطب ہوتا ہے :''کیا بات ہے تم سو نہیں پائی؟‘‘۔۔۔''فجر کی اذان۔۔۔۔۔‘‘ایلا نے کہا اور یوں توقف کیا جیسے اس بات نے ساری وضاحت کر دی ہو۔اس کی گرتی ہوئی صحت،ایلا کا اسے کھو دینے کا اندیشہ اور وہ مکمل حماقت کہ جو محبت تھی۔۔۔۔سب کچھ ان تین لفظوں میں سما گیا۔‘‘
کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی مگر کالم تما م ہوا چاہتا ہے۔یہ کسی نقاد کا تبصرہ نہیں،ایک قاری کا تاثر ہے۔وہ تاثر جو ناول ختم ہو جانے کے بعد بھی ختم نہیں ہوا۔اس ناول نے آج ایک دنیا کو مسحور کر رکھا ہے۔برادرم فرخ سہیل گوئندی کے ادارے' جمہوری پبلیکیشنز‘ نے اس کا اردو ترجمہ جس اہتما م کے ساتھ شائع کیا ہے،وہ اس پر مبار ک باد کے مستحق ہیں۔اردو میں ناول نگاری کی ایک قابلِ فخر روایت مو جود ہے۔دیگر زبانوں کے ادب پارے اگر اردو میں منتقل ہوں گے تو جہاں اردو قاری دوسرے معاشروں کی ادبی روایت سے واقف ہو گا وہاں اردو میں لکھنے والوں کے تخلیقی جذبے کو بھی مہمیز ملے گی۔میرا خیال ہے ایلف شفق نے اردو کے ناول نگاروں کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔