معاصر اہلِ سیاست میں، میرا احساس ہے کہ صرف دو جماعتیں ایسی ہیں جن کی قیادت تاریخی اور تہذیبی شعور رکھتی ہے: اے این پی اور جمعیت علمائے اسلام۔
اے این پی ایک قوم پرست جماعت ہے۔ یہ باچا خان کی خدائی خدمت گارتحریک کی توسیع ہے۔ ان کی قیادت سے جب بھی ملاقات ہوئی، یہ احساس ہوا کہ وہ سیاسی عمل کو کسی تاریخی اور سماجی شعور کے تحت دیکھتے ہیں۔وہ سماجی علوم کے پس منظر میں حالات کا تجزیہ کرتے ہیں۔خطے کی تاریخ پر ان کی نظر ہے اور وہ جانتے ہیں کہ تاریخی اور سماجی عوامل کس طرح عصری سیاست پر اثر انداز ہوتے ہیں۔مثال کے طورپر اگر ان سے یہ سوال کیا جائے کہ فاٹا میں دہشت گردی کیسے پھیلی تو وہ تجزیہ کر کے یہ بتائیں گے کہ یہ عمل کب شروع ہوا۔کون سے سماجی اور تاریخی عوامل تھے جنہوں نے اس کو انگیخت کیا اورمعاملات یہاں تک کیسے پہنچے۔
یہی معاملہ مو لانا فضل الرحمن کا ہے۔وہ بر صغیر اور علاقائی سیاست کا بہت اچھا ادراک رکھتے ہیں۔وہ خطے میں آباد لوگوں کی نفسیاتی ساخت کو سمجھتے ہیں۔انہیں معلوم ہے کہ عالمی سیاست کے کھلاڑی کیا عزائم رکھتے ہیں۔وہ حالات کا ایک غیر جذباتی اور غیر مذہبی تجزیہ کرتے ہیں۔ان دنوں وہ جمعیت علمائے ہندکا صد سالہ یومِ تاسیس منا رہے ہیں۔یہ اجتماع بھی ان کے گہرے تاریخی شعور کا نتیجہ ہے۔
ہم ان کی سیاست سے اختلاف کر سکتے ہیں اور تاریخی شعور سے بھی۔ یہ ممکن ہے کہ اپنے تاریخی مطالعے کی بنیاد پر انہوں نے جو نتائجِ فکر مرتب کیے ہوں، وہ غلط ہوں۔ اس بات سے لیکن انکار ممکن نہیں کہ ایک ذہنی مشقت اُٹھائی گئی ہے۔ ایک صغریٰ کبریٰ مرتب کیا گیا ہے اور اس کے بعد ایک سیاسی نقطہ نظر اختیار کیا گیا ہے۔ مجھے اور کسی سیاسی جماعت میں یہ عمل اس طرح ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ کسی کا خاص تاریخی شعور ہے نہ تجزیہ کرنے کی صلاحیت۔
ن لیگ کے پاس ہمیں ایک 'حکومتی ماڈل‘ نظر آتا ہے۔ یہ کسی تاریخی شعور کا نہیں، حکومتی تجربے کا حاصل ہے۔ ایک طویل عرصہ اقتدار میں رہنے کے بعدشریف برادران کو یہ اندازہ ہے کہ دنیا میں کون کون سے حکومتی ماڈل ہیں۔ انفراسٹرکچر کی کیا اہمیت ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اس کا اظہار ان کے اندازِ حکومت سے کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ کہ ان کے ہاں کوئی تاریخی شعور ہے،سماجیات کا کوئی فہم ہے۔ اس کی کوئی جھلک کہیں دکھائی نہیں دیتی۔
تاریخی و سماجی شعور سے یہ محرومی اندازِ حکومت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ دہشت گردی کے خلاف ریاستی حکمتِ عملی سے کیا جا سکتا ہے۔ ن لیگ کی حکومت اسے ختم کرنا چاہتی ہے۔ اس کا حکومتی تجربہ اسے یہ بتاتا ہے کہ کسی معاشرے میں بدامنی اور فساد ہوتو معاشی ترقی ممکن ہوتی ہے نہ ہی سیاسی استحکام آ سکتا ہے۔ لیکن اس دہشت گردی نے کیسے جنم لیا‘ اس کا جواب اس وقت اس کے پاس نہیں ہے۔ اسلام کیسے ایک سیاسی تعبیر سے موسوم ہوا، مسلمانوں میں تاریخی اعتبار سے کیسے سیاسی تنازعات نے ایک مذہبی بیانیہ اختیار کیا۔ فرقہ واریت اور مسلکی اختلاف میں کیا فرق ہے۔ ان سب سوالات کا جواب اسی کو مل سکتا ہے جو ایک تاریخی شعور رکھتا ہے۔ اس کے بعد وہ اس سوال کا جواب دے سکتا ہے کہ مسلم معاشرے سے مذہب کے نام پر ہونے والی دہشت گردی کیسے ختم کی جا سکتی ہے۔
مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی تینوں ایک سماجی و تہذیبی شعور کے ساتھ وجود میں آئیں۔ ان کی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے مرحلے پر ایک فکری عمل ہے جو واقع ہوا ہے۔ اس کے بعد وہ سیاسی تبدیلی کے ایک پروگرام میں ڈھلا ہے۔ مسلم لیگ کے تاریخی شعور نے علامہ اقبال کے خطبۂ الٰہ آباد سے جنم لیا۔ یہ جماعت اگر چہ پہلے بھی موجود تھی لیکن اس کی حیثیت محض اتنی تھی کہ انگریزوں کی نو آبادی میں ایک مذہبی اقلیت کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ مسلمانوں کے لیے تاریخی شعور کا اظہار ہمیں سرسید کے ہاں ملتا ہے یا پھر بانیانِ دیو بند کے ہاں۔ علامہ اقبال نے اس عمل کو آگے بڑھایا اور اپنے تہذیبی و تاریخی شعور کی روشنی میں اسے ایک بیانیے میں بدل دیا۔
جماعت اسلامی بھی مولانا مودودی کے تاریخی ، مذہبی شعور کا نتیجہ ہے۔ پیپلز پارٹی کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اس کی بنیادی دستاویزات میں ہمیں تاریخ اور سماج کا شعور دکھائی دیتا ہے، جس نے ایک ترقی پسند سیاسی جماعت کو جنم دیا۔ ان تینوں جماعتوں کی اب تیسری نسل سامنے آ چکی۔ ان میں یہ تاریخی شعور تدریجاً کمزور ہوتا گیا۔ تیسری نسل تک پہنچتے پہنچتے وہ کم و بیش دم توڑ چکا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ تاریخی شعور ارتقائی مراحل سے گزرتا اور اجتہادی بصیرت کے ساتھ عصری دنیا سے ہم آہنگ ہو جاتا۔ یہ نہیںہو سکا۔ مولانا مودودی کا تاریخی شعور ، جماعت اسلامی کے نظم سے باہر آگے بڑھا ہے اور اس نے ایک خطرناک صورت اختیار کی، جس کی تفصیلات کا یہ محل نہیں۔ خود جماعت کے نظم میں یہ اب قصۂ پارینہ ہے۔
دیو بند کا تاریخی شعور میرا خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی صورت میں ارتقائی مراحل سے گزر رہا ہے۔ بھارت میں دارالعلوم کے وارثین تو موجود ہیں ، ان میںاہل دیو بند کے سیاسی شعور کا وارث کوئی نہیں۔ اس اعتبار سے مولانا فضل الرحمن کی حیثیت منفرد ہے۔ اے این پی میںبھی باچاخان کا تاریخی شعور زندہ ہے۔ میں نے جب بھی کے پی اور فاٹا میں ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنے کی کوشش کی ہے، اے این پی کے لوگوں کے بیانیے نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔
اس وقت،ان دو سیاسی جماعتوں کے علاوہ کسی کے پاس پاکستان کے مسائل کا حقیقی تجزیہ موجود نہیں۔اس تجزیے کاا فسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اپنی اپنی سیاسی مصلحتوں کے باعث، یہ جماعتیں بھی اس شعور کی اساس پر سیاسی حکمتِ عملی نہیں بنا سکیں۔مثال کے طور پر مو لا نا فضل الرحمن دینی مدارس کے نظام میں کسی جوہری اصلاح کی بات نہیں کرتے۔ وہ اس کے قائل تو ہیں لیکن سیاسی مصلحتوں کے پیشِ نظر کھل کر اس موضوع پر بات کرنے پر تیار نہیں۔اے این پی کا معاملہ ہے کہ اس کی قیادت حقیر سیاسی فوائد کی اسیر ہو گئی ہے۔اس کے عہد ِ حکومت میں کے پی جس طرح بری حکومت اور کرپشن کی علامت بن گیا تھا،اس نے اس کے تشخص کو بہت نقصان پہنچایا۔ اس کے برخلاف جماعت اسلامی جب بھی حکومت کا حصہ رہی، اس کی اخلاقی ساکھ دوسری جماعتوں کی نسبت بہتر رہی۔یہ متحدہ مجلس عمل کی حکومت کا حصہ تھی اور اب تحریک انصاف کی بھی حلیف ہے۔اس کے وزرا ہمیشہ اپنی نیک نامی کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں؛تاہم فکری افلاس اورپراگندگی کے باعث، یہ جماعت آج بھی ملک کو درپیش سیاسی و سماجی مسائل کا ادراک نہیں رکھتی۔اس سے اندازا کیا جا سکتا ہے کہ ایک تاریخی و سماجی شعور سے محرومی کس طرح سیاسی ارتقا پر اثر انداز ہو تی ہے۔
حاصل یہ ہے کہ سیاست سیاسی شعور اور حسنِ کردار دونوں سے عبارت ہو توسماج کی ترقی اور ارتقا میں کوئی کردار ادا کر سکتی ہے۔ ان میں کسی ایک سے محرومی ہوتو بات بنتی نہیں۔ ہماری سیاست کا المیہ یہ ہے کہ جن جماعتوں کو عوام کااعتماد حاصل ہے،ا ن میں تاریخی شعور کی تربیت کا کوئی اہتمام نہیں۔یوں وہ بر سر اقتدار آ کر سماج اور ریاست کے کلیدی مسائل حل کر نے میں ناکام رہتی ہیں۔