مسلم دنیا میں ایک مدت سے کوئی بڑی سیاسی شخصیت کیوں پیدا نہ ہو سکی؟ طیب اردوان اس سوال کا ایک جواب ہیں۔
ایک شہر کے میئر سے مطلق العنان صدر تک، طیب اردوان نے جو سیاسی سفر طے کیا، ان سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مسلم تاریخی شعور نے سیاسی قیادت کے جس ماڈل کو پروان چڑھایا، اس کے خد و خال کیا ہیں۔ بعض وقتی مصالح کے پیشِ نظر انہوں نے جو اقدامات کیے، اس سے ایک خوش گمانی یہ پیدا ہوئی کہ وہ جس تاریخی فہم کے مالک ہیں، اس میں معاصر تجربات کی آمیزش ہے اور وہ مسلم دنیا کے لیے ایک ایسا رول ماڈل بن سکتے ہیں جو عصری شعور سے بہرہ مند ہے۔ اب کہا جا سکتا ہے کہ یہ محض ایک گمان تھا۔ گزرتے وقت نے جب ان کی شخصیت کی مختلف پرتوں کو الگ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ اسی فکر کی عملی تفسیر ہیں جس کی صدیوں آبیاری ہوئی اور جس میں فردِ واحد ہی اختیارات کا ماخذ و محور ہے۔
ترکی کو وقت کے جبر نے مسلم دنیا کی ایک منفرد تجربہ گاہ بنا دیا تھا۔ بیسویں صدی کے ابتدائی ماہ و سال، دنیا بھر میں قدیم سامراجیت کے خاتمے کا اعلان کر رہے تھے۔ بادشاہتوں اور سلطنتوں کا عہد اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا۔ جمہوری اصولوں پر قائم جدید قومی ریاست، قدیم سلطنتوں کی جگہ لے رہی تھی۔ یورپ میں نیشنلزم، جمہوریت، سیکولرازم اور سرمایہ دارانہ معیشت کے تصورات، ایک جدید قومی ریاست کے فکری اجزائے ترکیبی بنے۔ سولہویں صدی سے جس فکری تبدیلی کا آغاز ہوا، بیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے، وہ ایک نظامِ فکر میں ڈھل چکی تھی، عامۃ الناس جسے قبول کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار تھے۔ مسلم دنیا میں ترکی واحد ملک تھا‘ جس نے اس تبدیلی کا ادراک کیا اور جہاں کی قیادت نے یہ محسوس کیا کہ تاریخ ایک کروٹ لے چکی اور اب اس کا سفر جس سمت میں چل نکلا ہے، اس میں مروجہ سیاسی، مذہبی اور معاشی تصورات کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
مصطفیٰ کمال اتاترک نے سب سے پہلے اس تبدیلی کو سمجھا اور ان نئے تصورات پر جدید ترکی کی بنیاد رکھی؛ تاہم ترکی میں اس کا ادراک صرف ایک اعیانی اقلیت تک محدود رہا، یہ اجتماعی مسلم شعور کا حصہ نہ بن سکا۔ مسلم عوام کا ذہن ابھی قدیم فکری ڈھانچے کا اسیر تھا۔ اس کو بالجبر ہی ساتھ لے کر چلا جا سکتا تھا۔ اگر جمہوری اصولوں کو اختیار کیا جاتا تو نئی تبدیلیوں کی قبولیت کا عمل عشروں پر محیط ہوتا۔ اس کے ساتھ، اتاترک نے اسلام کو اس کے آفاقی اور روحانی اقدار کی روشنی میں سمجھنے کے بجائے، ایک عرب تجربے کے طور پر دیکھا۔ یوں انہوں نے اسے ترکی نیشنلزم سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ کمال ازم کے نام سے سیکولرازم کے ایک مقامی تصور نے جنم لیا‘ جس میں مذہبی آزادی کے بجائے مذہبی جبر کو بطور قدر قبول کیا گیا۔
سعید نورسی جیسے لوگوں نے ریاست سے متصادم ہونے کے بجائے، اسلام کو اس کی روحانی اقدار کے ساتھ زندہ رکھا۔ نیشلزم کے جذبے اور اتا ترک کی قیادت نے سلطنتِ عثمانیہ کی راکھ میں پوشیدہ چنگاری کو شعلہ بنا دیا۔ اسی شعلے کی حرارت سے وہ توانائی پیدا ہوئی جس نے ایک جدید ریاست کی تشکیل کی۔ مادی اعتبار سے یہ ایک کامیاب تجربہ تھا۔ دوسری طرف دیگر مسلم معاشروں میں دو رجحانات پیدا ہوئے۔ ایک قدیم سیاسی اور فکری تصورات کا احیا، جس نے عرب ممالک میں بادشاہت اور قدیم فقہی پیراڈائم کے اجتماع کی صورت میں ظہور کیا۔ بعض مقامات پر ایسے مفکرین پیدا ہوئے جنہوں نے قدیم تصورات کی قبولیت کے لیے ایک نیا علمِ کلام ایجاد کیا اور جدید عہد کے تصورات سے استفادہ کرتے ہوئے، ایک نئے مسلم شعور کی بنیاد رکھی۔ اس کو علم کی دنیا میں تفہیم کے لیے 'پولیٹل اسلام‘ کہا جاتا ہے۔
ان مفکرین کے نزدیک چونکہ سب سے اہم مسئلہ مسلم معاشروں کی جدید سیاسی تشکیل تھا، اس لیے دین کو بھی اسی حوالے سے سمجھا اور پیش کیا گیا۔ ان مفکرین نے جو علمِ کلام اختیار کیا، اس میں اسلام کو ایک نظام اور انقلاب کی صورت میں پیش کیا گیا کیونکہ معاصر ذہن نظام اور انقلاب کے پیراڈائم میں سوچ رہا تھا۔ اس کو برپا کرنے کے لیے جو حکمتِ عملی اختیار کی گئی، اسے منصوص کہا گیا۔ یعنی یہ رسالت مآبﷺ کی سیرتِ مطاہرہ سے ماخوذ ہے۔ جس طرح سیرت میں ایک فرد فکری و سیاسی قائد ہونے کے ساتھ ساتھ منتظم و مربی بھی ہے، اس میں امیر کو یہی مرکزیت حاصل ہے۔ اس کے لیے خلافت کے قدیم تصور سے بھی استفادہ کیا گیا جس میں ایک فردِ واحد ہی اختیارات کا مرکز ہے۔
اس فکر میں عالمگیریت تھی، اس لیے اس نے دنیا بھر کے مسلمانوں میں جہاں شناخت کا احساس پیدا کیا، انہیں مسلمان ہونے کا اعتماد بخشا، وہاں ان میں قرب نے بھی جنم لیا۔ اس کے اثرات ترکی تک بھی پہنچے۔ نجم الدین اربکان جیسے لوگ اس سے متاثر ہوئے اور انہوں نے سیاسی تبدیلی کو اپنی جدوجہد کا محور بنایا۔ ترکی میں چونکہ آئینی طور پر مذہب کے نام پر سیاست کی اجازت نہیں تھی، اس لیے انہوں نے بھی سیکولرازم کے تصور کو بطور حکمتِ عملی قبول کر لیا اور انہی امور پر توجہ مر تکز رکھی جن کا تعلق سیاست سے تھا۔ طیب اردوان کا تعلق بھی اسی گروہ سے تھا۔ انہوں نے اگرچہ اربکان سے اختلاف کیا لیکن انہی کے کام کو بطور بنیاد استعمال کیا۔ اپنے حسنِ کارکردگی سے انہوں نے عوام میں مقبولت حاصل کی۔ اسی دوران میں دیہات سے شہروں کے طرف جو بڑی نقل مکانی ہوئی، اس نے شہروں کے سیکولر ماحول کو متاثر کیا کیونکہ یہ لوگ ان دیہات سے اپنی دینی اقدار کو ساتھ لے کر آئے جنہیں کمال ازم کے اثرات زیادہ متاثر نہ کر سکے تھے۔
دوسری طرف سعید نورسی کے کام کو فتح اللہ گولن نے ایک سماجی تحریک میں بدل دیا جس کی اساس مذہبی تھی۔ انہوں نے اپنی سماجی اثرات کو اردوان کے سیاسی پلڑے میں ڈال دیا اور وہ جدید ترکی کے معمار بن کر ابھرے۔ اب ان کے پاس مو قع تھا کہ وہ کمال ازم سے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی تک کے ارتقا کو سمجھتے اور جدید خطوط پر ترکی کی تعمیر کرتے۔ اسے ایک ایسی کامیاب ریاست میں بدل دیتے جو اسلام کے روحانی منبع سے فیض اٹھانے والی انسانوں کی ایسی پناہ گاہ بن جاتی اور جو ان کے مادی اور روحانی مطالبات کا جواب ہوتی۔ اس کے ساتھ وہ مغرب اور عالمِ اسلام کے مابین ایک پُل، اور اس طرح امن کے عالمی علم بردار بن جاتے۔ وہ ترکی کو متحد کرتے اور دوسرے اتاترک بن جاتے۔
افسوس کہ ایسا نہیں ہو سکا۔ انہوں نے ایک طرف ترکی کو واضح طور پر تقسیم کر دیا اور دوسری طرف مغرب کے ساتھ، اسے ایک غیر ضروری تصادم میں جھونک دیا۔ ان کے اندر سے ایک ایسا شخص نمودار ہوا‘ جو ایک بادشاہ یا خلیفہ بننا چاہتا ہے۔ پہلے انہوں نے اپنے لیے سیکڑوں کمرے کا محل بنوایا اور اب ایک ریفرنڈم کی مدد سے، صدر کے منصب میں اختیارات کو جمع کر دیا۔ اس ریفرنڈم میں 49 فی صد لوگوں نے ان کے خلاف ووٹ دیا۔ آج ترکی منقسم اور سیاسی اعتبار سے مضطرب ہے۔ یورپ کے ساتھ حالتِ تصادم میں ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے حالات سے براہ راست متاثر ہے۔ ان سب عوامل نے اس کی معیشت پر بہت منفی اثرات ڈالے ہیں۔ چند سال پہلے جس ترکی کی طرف لوگ رشک بھری نظروں سے دیکھتے تھے، آج بے یقینی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔
اردوان نئے عہد کے شعور کو اپنی سیاسی فکر میں جگہ نہ دے سکے۔ ان کے اندر کی جو شخصیت باہر آئی، وہ ایک بادشاہ ہے۔ گویا وہ ذہنی طور پر بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں کھڑے ہیں۔ ترکی میں ان سے یہ جملہ منسوب ہے: ''جمہوریت ایک ریل گاڑی ہے۔ منزل پر پہنچ کر آپ گاڑی کو چھوڑ دیتے ہیں‘‘۔ مسلم دنیا میں یہ اس طرز کی واحد مثال نہیں۔ میں جب ان مثالوں پر غور کرتا ہوں تو ایک سوال پیدا ہوتا ہے: کیا مسلم تاریخی شعور ابھی تک جمہوریت سے ہم آہنگ نہیں ہو سکا؟